تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     27-07-2021

اداس لوگوں کا فرقہ!

سیدنا مسیح علیہ السلام سے منسوب ایک فرمان ہے کہ ''بینائی سے محروم لوگ تمہارے رہبر نہیں ہو سکتے‘‘۔ جو خود دیکھنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں وہ بھلا کسی اور کو کیا راستہ دکھائیں گے؟ جو خود سیکھنے کے مراحل میں ہوں وہ کیا کسی کا مداوا کریں گے؟ قوموں کا سب سے بڑا امتحا ن یہی ہوتا ہے کہ وہ کتنی جلدی اپنے رہنماؤں کے تاریک پہلوؤں کو تلاش کرتی ہیں اور پھر کب اُن سے چھٹکارا حاصل کرتی ہیں۔ جو قومیں شعور کی آنکھوں سے دیکھتی ہیں ان کا رویہ ہمیشہ علمی ہوتا ہے جبکہ وہ قومیں جو ضد اور عناد کی بھٹی میں جل کر رائے قائم کرتی ہیں‘ وہ استدلال کو معتبر مانتی ہیں نہ اعتراض کو اہمیت دیتی ہیں۔ کون کہتا ہے کہ رائے تبدیل نہیں کرنی چاہیے؟ موقف میں جھول ہو تو بدلنے میں حرج ہی کیا ہے؟ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ کوئی بھی سوچنے سمجھنے والا شخص اپنے دینی، مذہبی، تہذیبی، معاشرتی، معاشی، سائنسی اور سیاسی نظریات کو تالا لگا کر نہیں رکھ سکتا۔ جیسے جیسے وقت کی ناؤ آگے بڑھتی ہے‘ نت نئے تنقیدی زاویے سامنے آتے ہیں اور خیالات میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جب انسان کے اندر کا علمی رجحان واضح ہوتا ہے۔ اسے پتا چلتا ہے کہ وہ تنقید کی گرہیں کھول کر اندر جھانکنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں؟ انسان میں علم اور عقل کی فراوانی ہو تو تنقید کی سچائی دور سے بھی نظر آ جاتی ہے اور پھر آدمی ایک منڈیر سے دوسری منڈیر پر قدم رکھنے سے گریز نہیں کرتا۔ حضرت سلمان فارسیؓ کی مثال سب کے سامنے ہے۔ رسالت مآبﷺ کے در پر آنے سے پہلے‘ روایت ہے کہ انہوں نے کم و بیش سات مذاہب کو اختیار کیا۔ مجوسیت کے آتش کدے سے نکل کر عیسائیت کی پناہ میں آئے مگر دل منور ہوا نہ دماغ مطمئن ۔ پہلے جس چیز کو حق سمجھا، اسے قبول کیا مگرجب معلوم ہوا کہ یہ حق نہیں ہے تو اگلا قدم بڑھا دیا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے سیاست کا آغاز کانگرس سے کیا‘ مگر کیا ساری عمر وہیں بیٹھے رہے؟ قائداعظم کے روشن دماغ نے جب اپنے ہی فیصلے کی غلطی عیاں کی تو فوراً کانگرس چھوڑ کر مسلم لیگ میں آ گئے۔ یہی وہ علمی رویہ ہوتا ہے جو شخصیات اور قوموں کو دوسروں سے ممتاز کرتا ہے۔ یہی وہ رجحان ہوتا ہے جو اندھیرے اور روشنی میں تمیز سکھاتا ہے۔ ہر آدمی محقق نہیں ہوتا مگر اس کا امتحان یہ ہوتا ہے کہ جب اس کے علم اور نظریے کے مقابلے میں نئے سوالات اور اعتراضات سامنے آتے ہیں تو اس کا ردعمل کیا ہوتا ہے؟ کیا وہ اپنی غلطی کو تسلیم کرکے اُسے سدھارتا ہے؟ کیا وہ غلط اور صحیح کو الگ الگ کرنے کی کوشش کرتا ہے یا ضد اور مخاصمت کا راستہ چنتا ہے؟
پاکستان میں ان دنوں اداس لوگوں کا ایک نیا فرقہ‘ نیا گروہ ابھر کر سامنے آ رہا ہے۔ یہ افراد حکمرانوں سے مایوس ہیں اور اس لیے شب و روز کڑھتے رہتے ہیں۔ کوئی مہنگائی کا مارا ہوا ہے تو کسی کو نوکری کے لالے پڑے ہیں۔ کوئی افسر شاہی سے تنگ ہے تو کوئی بدانتظامی کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ کسی کا کاروبار نہیں چل رہا تو کوئی ٹیکسز بڑھنے کا گلہ کرتا ہے۔ کسی کے شہر کی سڑکیں بدحالی کا منظر پیش کرتی ہیں تو کوئی بلدیاتی نظام کی عدم موجودگی کو لے کر ہلکان ہوتا ہے۔ کوئی بجلی کے بل دیکھ کر دہائی دیتا ہے تو کوئی گیس کا بل ادا کرنے سے قاصر ہے۔ کسی کو بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ نے تنگ کر رکھا ہے تو کوئی حکمرانوں کے وعدے یاد کرکے آنسو بہاتا ہے۔ آپ سوشل میڈیا پر چلے جائیں یا بازار کا رخ کر لیں، دوستوں کی محفل میں بیٹھ جائیں یا رشتے داروں سے بات کر لیں، کسی بڑی کاروباری شخصیت کا انٹرویو کر لیں یا اپنے گھر کے ملازم کا حال پوچھ لیں، یہ اداس لوگ آپ کو جابجا ملیں گے۔ ایسا ہرگز نہیں کہ یہ اداسی ''پرانی حکومتوں‘‘ کی دین ہے بلکہ یہ موجودہ حکمرانوں کی میراث ہے۔ یہ لوگ تین سال پہلے تک پُرامید تھے ۔ نئے پاکستان کے نعرے لگاتے تھے اور پرانے حکمرانوں کو کوستے تھے۔ انہیں لگتا تھا کہ حکمران بدلیں گے تو پاکستان اور اُن کے دن بھی بدلیں گے۔ دنیا بھر میں سبز پاسپورٹ کی عزت ہو گی۔ لوگ نوکریاں ڈھونڈنے پاکستان آیا کریں گے۔ ڈالر روپے کی برابری کی سطح پر آ جائے گا۔ بدعنوانی اور اقربا پروری کی دکان ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گی۔ سیاحت کو عروج ملے گا اور عام پاکستانی کو عزت۔ تین سال بیت گئے مگر سارے وعدے‘ وعدے ہی رہے اور تمام خواب تشنہ تعبیر ہی رہے۔ صبح تازہ نمودار ہوئی نہ رات کی سیاہی مدھم پڑی۔ نیا پاکستان بن سکا نہ پرانا لوگوں کے دلوں سے نکل سکا۔
قدیم عربی کہاوت ہے ''کسی کو غلط آس دلانا قتل جتنا بڑا جرم ہے‘‘۔ کیا ہمارے حکمرانوں کو وعدہ خلافی کی تعزیر معلوم ہے؟ کیا سیاست میں عوام کے دل سے اترنے کا مطلب کوئی جانتا ہے؟ گزشتہ تین سالوں میں سب کچھ بدل گیا ہے، انتخابی منشور بھی اور عوام کی چاہ بھی مگر نہیں بدلا تو اندازِ سیاست نہیں بدلا۔ نہیں تبدیل کی تو طرزِ حکمرانی نہیں تبدیل کی۔ کیا پیپلز پارٹی اور کیا مسلم لیگ نون، کیا تحریک انصاف اور کیا جے یو آئی ایف۔ سب ایک ہی کشتی کے مسافر، تما م ایک منزل کے راہی۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ لوگ اب حکومت سے بھی بیزار ہیں اور اپوزیشن سے بھی بددل۔ حکمران بھی اپنا اعتبار گنوا بیٹھے ہیں اور اپوزیشن بھی۔ یہ کیوں ہوا اور کیسے ہوا؟ ایک دن کی کہانی نہیں برسوں کا قصہ ہے۔ اگر حکمران عوام کو ریلیف دینے میں ناکام تھے تو اپوزیشن کیا کر رہی تھی؟ اگر حکمرانوں کو نعرہ بازی سے فرصت نہیں تھی تو اپوزیشن کے دامن میں کیا نیا تھا؟ اگر حکومت راہِ راست سے بھٹکتی رہی تو اپوزیشن نے کون سا آئینی راستہ اختیار کیا؟ اپوزیشن کا رویہ بھی تو ''جو تم کروگے‘ وہی ہم کریں گے‘‘ والا تھا۔ حکمران صبح و شام احتساب احتساب کا راگ الاپتے رہے اور اپوزیشن سیاسی انتقام کا نوحہ پڑھتی رہی۔ عوام کا مفاد حکومت کو یاد رہا نہ اپوزیشن کو۔
اداس لوگوں کا فرقہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ کوئی دل سے ایسے ہی نہیں اترتا۔ جیسے ہر تاخیر کا باعثِ تاخیر ہوتا ہے اسی طرح ہر ناانصافی، ہر نااہلی اور ہر بدانتظامی کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی کہانی ضرور ہوتی ہے۔ آزاد کشمیر کی انتخابی مہم اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو حکومت اور اپوزیشن کی ترجیحات کا اندازہ ہو جائے گا۔ جو جتنا بڑا لیڈر ہو گا‘ وہ اتنی ہی حقیر بات کرتا دکھائی دے گا۔ اپنے عہدے کا لحاظ نہ سیاسی مخالفین کا احترام۔ خواتین کا لحاظ نہ بزرگوں کا خیال۔ مخالفین کو ایسے ایسے ا لقابات سے نوازا گیا کہ خدا کی پناہ! جھوٹ بھی بولا گیا اور الزامات بھی لگائے گئے۔ گالی بھی دی گئی اور تہمتیں بھی تراشی گئیں۔ اس طوفانِ بدتمیزی میں سب ایک برابر تھے۔ حکومت پیچھے رہی نہ اپوزیشن۔ کسی ایک جماعت نے بھی اپنا انتخابی منشور پیش نہیں کیا۔ کیوں؟ مسلم لیگ نون نے آزاد کشمیر میں اپنی حکومت کے کارنامے گنوائے نہ تحریک انصاف نے اپنی وفاقی حکومت کا چرچا کیا۔ آزاد کشمیر کے مسائل پر بات ہوئی نہ وسائل پر۔ کسی نے ہسپتال بنانے کا وعدہ کیا نہ سکول بنانے کا‘ سٹرکیں بنانے کی بات ہوئی نہ صاف پانی دینے کی یقین دہانی۔ ہر جلسہ الزام سے شروع ہوکر شخصی تضحیک پر ختم ہوتا تھا۔ کیا اب یہی سیاست کا مقصد رہ گیا ہے؟ کیا اسی کا نام عوامی سیاست ہے؟ کیا اب ووٹرز بھی سیاستدانوں کی ''زبان درازی‘‘ دیکھ کر ووٹ دیاکریں گے؟
تحریک انصاف آزاد کشمیر کا الیکشن جیت چکی مگر اسے یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ الیکشن جیتنا اور عوام کا دل جیتنا‘ دونوں الگ الگ باتیں ہیں۔ پاکستان میں اداس لوگوں کا فرقہ روز بروز پھیلتا جا رہا ہے، اب یہ پی ٹی آئی کا امتحان یہ ہے کہ وہ اس گروہ کو آزاد کشمیر تک دراز ہونے سے روک پاتی ہے یا نہیں۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ باقی ماندہ سال عوام کی فلاح کے لیے وقف کر دیں ورنہ اداس لوگوں کا فرقہ 2023ء کے الیکشن تک اقلیت سے نکل کر اکثریت میں تبدیل ہو جائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved