تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     28-07-2021

زندگی کیسے گزارنی چاہئے؟

شیکسپیئر کے ڈرامہAs You Like Itمیں ایک مشہور تقریر ہے جسے عموماً انسان کے سات ادوار کہا جاتا ہے۔ یہ ادوار بچپن سے لے کر بڑھاپے تک ہیں۔شیکسپیئر لکھتا ہے کہ جوانی میں انسان کو نام اور شہرت پیدا کرنے کی پڑی رہتی ہے۔توپوں کے منہ میں بھی جانا پڑے تو شہرت حاصل کرنے کی خاطر انسان ایسا کرتا ہے۔عمر بڑھتی ہے تو انسان زیرک بننے کی کوشش کرتا ہے۔ چال تھوڑی آہستہ ہو جاتی ہے اور بولتے وقت عقل مند بننے کی خواہش رہتی ہے۔ پھر بڑھاپا آ جاتا ہے اور بڑھاپا اس انتہا کو پہنچتا ہے کہ لاچاری اور بے بسی کے حوالے سے بڑھاپے اور بچپنے میں کوئی فرق نہیں رہتا۔
ہماری عمر تک جب آدمی پہنچتا ہے تو نام اور شہرت کمانے کی جستجو پیچھے رہ گئی ہوتی ہے۔اس حوالے سے جوجَھکیں مارنی ہوتی ہیں وہ قصہ ٔپارینہ بن چکی ہوتی ہیں۔جب نسبتاً جوانی تھی تو سیاسی ارادے رکھتے ہوئے بہت سے پاپڑ بیلے۔ایک زمانہ تھا جب بے نظیر بھٹو کومسیحا سمجھتے تھے۔ مذاق نہیں کررہا‘ ایسی کیفیت ایک زمانے میں اپنے پہ طاری رہی۔ پھر اپنی امیدیں نوازشریف کے کاروان سے منسلک ہو گئیں۔اُن کوبہرحال مسیحا نہیں سمجھا لیکن ن لیگ کو ذریعۂ سیاست ضروربنایا۔وہ پارٹیاں بدلیں نہیں ہم بدل چکے ہیں۔ بدلے اس لحاظ سے نہیں کہ عقل مند ہو گئے ہیں‘ صرف اتنا ہے کہ عمر زیادہ ہو گئی ہے۔وہ خواہشات ہی نہیں رہیں جو ایک زمانے میں دل میں مچلتی تھیں۔ ایک وقت تھاجب پارٹی ٹکٹوں کے طلب گار تھے۔ اب نہیں ہیں۔ کسی نے ہمیں ٹکٹ دینا نہیں ہے لیکن مفروضے کے طور پہ کوئی طشتری پہ ٹکٹ پیش بھی کرے تو اُسے چائے پلا کے اور شکریہ ادا کرتے ہوئے رخصت کردیں گے۔زندگی کے تقاضے بدل گئے ہیں اور یہ کسی درویشی کا کمال نہیںعمر کا تقاضا ہے۔
اب خواہشات کسی اور پیرائے میں ڈھل چکی ہیں۔ ایک زمانے میں سمجھتے تھے کہ زندگی سے کچھ حاصل کرنا ہے تو چکوال چھوڑ کے کسی بڑے شہر کو مسکن بنانا ضروری ہوگا۔ اسی سوچ کے تابع زندگی کا ایک خاصا لمبا حصہ اسلام آبا د میں گزار دیا۔ آج کوئی ٹریکٹر سے باندھ کے ہمیں قومی اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی سننے کیلئے لے جانا چاہے تو ہم نہ جائیں۔ایک زمانہ تھا جب قومی اسمبلی جانا تقریباً تعلیم بالغاں کا حصہ سمجھتے تھے۔اب بھی اسلام آباد جانا ہوتا ہے لیکن نظریہ ضرورت کے تحت۔ ایک تو بال کٹوانے ہوتے ہیں۔ یہ کام خوش اسلو بی سے چکوال میں نہیں ہوسکتا۔ دوسرا ٹی وی پروگرام کیلئے بھی جانا پڑتا ہے۔چوائس ہے پروگرام اسلام آباد سے کریں یا لاہور سے۔لاہور اب دور لگتا ہے لہٰذااسلام آباد پہ اکتفا کرلیتے ہیں۔یہ بھی ہے کہ کچھ میل جول اسلام آباد میں ہو جاتا ہے۔ لیکن یوں سمجھئے ایسی میل جول کا موقع دس دنوں میں ایک روز مل جائے تو کافی لگتا ہے۔ اس کے علاوہ اب دیہات میں رہنا زیادہ اچھا لگتا ہے۔نسبتاً جوانی میں یہاں مستقل قیام کبھی نہ کرتے کیونکہ ایسا کرنا زندگی میں ناکامی کے مترادف سمجھتے۔ اب ایسے خیالات دل سے جاچکے ہیں۔ اب نام سے سروکار ہے نہ نام نہاد شہرت سے۔ اس زمرے میں جو ہاتھ پاؤں مارنے تھے وہ مار چکے۔
زیادہ وقت نہیں گزرا جب لاہور جانا ضروری سمجھتے تھے۔وہاں قیام ایک ہی سرائے میں ہوتا ہے اور پچھلے اٹھارہ بیس سال سے اُسی سرائے میں رہنے کا معمول رہا ہے۔ جس کلب کے ممبر ہیں وہاں بھی ٹھہرا جاسکتا ہے‘ جگہ بھی عمدہ ہے‘ مسافر کو جن آسائشوں کی تمنا ہوتی ہے وہاں سب دستیاب ہیں۔البتہ اُس خاص سرائے میں رہنے کا مزہ اپنا ہے۔ لاہور سے دل اُکتایا تو نہیں لیکن اتنی باقاعدگی سے نہیں جانا ہوتا۔ لاہور کی اپنی رعنائیاں ہیں اوراُن سے انکار ممکن نہیں لیکن کچھ تو ہمارے بندوبست چکوال میں خاطر خواہ ہو چکے ہیں۔ویسے بھی اس عمر میں پانی پت کی کتنی جنگیں لڑی جاسکتی ہیں۔غالب نے کیا خوب کہا ہے وہ ولولے کہاں وہ جوانی کدھر گئی۔ جتنابڑا بھی کوئی رستم ہو یہ کیفیت ہر ایک پہ آتی ہے۔لہٰذا وہ تھرتھراہٹ دل میں جو لاہور کے ذکر سے پیدا ہوتی تھی اُس کی شدت وہ نہیں رہی جوایک وقت میں ہوا کرتی تھی۔اب ناتواں ارادوں کیلئے سوغاتِ چکوال ہی کافی ہیں۔
یوں تو ہم اپنے معاشرے کو دیہاتی کہتے ہیں لیکن دیہات میں رہنے کا وہ رواج نہیں جوکہ یورپ اور امریکہ میں ہے۔ جو صاحبِ استطاعت لوگ وہاں دیہات میں رہتے ہیں انہوں نے کیسے کیسے کنٹری ہاؤسز (country houses)یا یوں کہئے محل آباد کئے ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں اب فارم ہاؤسز کا رواج زور پکڑرہا ہے لیکن یہ ایک ایسا فیشن ہے جس کی جڑیں زیادہ مضبوط نہیں ہوئیں۔ پرانے زمیندار اپنے گھروں کو چھوڑ کے شہرو ں میں آباد ہوچکے ہیں۔ فارم ہاؤسز والا ٹرینڈ زیادہ تر نودولتیو ںکا ہے۔ جنہوں نے شہروں میں بہت پیسے کما لئے اُن کا دل کرتا ہے کہ کہیں بڑا سا فارم ہاؤس ہو جہاں وہ یہ تاثر دے سکیں کہ بڑے زمین والے ہیں۔ ہمارا تو کوئی فارم ہاؤس والا چکر نہیں ہے۔وہی ایک پرانا بنگلہ ہے جو ورثے میں ملا‘ اُسی میں رہائش اختیار کر رکھی ہے۔ پہلے آتے تھے شام گزارنے۔ اگلی صبح یا ایک آدھ دن رہ کے واپس چلے گئے۔لیکن اب تقریباً یہیں کے ہو کے رہ گئے ہیں۔یہ بھی مولا کا کرم ہے کہ میل جول والے یہاں آجاتے ہیں۔ چکوال کی سڑک بہت اچھی ہوچکی ہے۔ آنے جانے کی کوئی دقت نہیں رہی۔ ایک دو مہربان ہیں اُن سے درخواست کریں تو بحرِملاقات ہو جاتی ہے۔یوں اپنا گزارہ چل رہا ہے اور سچ پوچھئے اب تو یہ خیال دل میں اُٹھتا ہے کہ گاؤں کو اپنا مسکن پہلے ہی بنا لیا ہوتا۔لیکن شاید ہرچیز کا اپنا وقت ہوتا ہے۔
ایک پرابلم البتہ رہتا ہے۔وہ پرابلم بھی ایسا ہے کہ کھل کے بات نہیں کی جاسکتی۔ معاشرے کا حلیہ ہی ہم نے خاصا بگاڑ دیا ہے۔ اس ملک میں بھی بھلے وقت ہوا کرتے تھے لیکن ہم نے اپنے لئے جو مشکلات پیدا کرلیں ان سے کچھ اور حاصل تو نہ ہوامعاشرہ تنگ نظری کا شکار ہوگیا۔نصیحت کی باتیں کچھ زیادہ ہی ہونے لگیں۔پارسائی کے دعویداروں کی آبادی بڑھتی چلی گئی مگر ظاہر اور باطن کے فاصلے بڑھ گئے تو قدرتی طور پہ منافقت کی شرح میں بھی اضافہ ہوتاچلا گیا۔یہ سلسلہ بہت پراناہوچکاہے لیکن اس کا حل تلاش کرنے میں ہم کامیاب نہیں ہوئے۔ ایٹم بم بنا لیا‘ تنگ نظری کا مسئلہ حل نہ کرسکے۔
بس اس ایک مسئلے کیلئے لاہور یا اسلام آباد جانا پڑتا ہے۔سچ پوچھئے تو یہ بڑی زیادتی ہے۔ کن ارادوں کو باندھ کے لاہو ر کا رخ کرنا پڑتا ہے فاصلہ لاہو رکا اتنا ہے کہ اُسی دن واپسی نہیں ہو پاتی پھر مجبوراً پڑاؤ وہاں کرنا پڑتا ہے۔قباحت اس میں یہ ہے کہ شام ڈھلے دل میں مختلف قسم کے ارادے اُٹھنے لگتے ہیں۔یعنی سفر ایک ارادے کی خاطر لیکن اُس ارادے کو پایہ تکمیل پہنچانے تک کون کون سے دریا عبور نہیں کرنے پڑتے۔ہم بزدل قوم ثابت ہوئے ہیں۔ جنرل ضیا الحق نے جو اقدامات کیے اُنہیں ایک عرصہ بیت چکا ہے۔ لیکن کسی کی ہمت نہیں ہوئی کہ اُن اقدامات کو واپس لیں۔حکمرانوں کے دلوں میں دھڑکا رہتا ہے کہ یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا۔بس یہی تمنا رہ گئی ہے کہ کسی کرشمے سے ہی سہی‘ اس دھرتی کی شوخی اِس کا کھویا ہوا حسن کہیں سے واپس آجائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved