تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     28-07-2021

مریم نواز کشمیر میں

میں چند روز پہلے آزاد کشمیر میں سفر کررہا تھا کہ میرے ایک پُرجوش صحافی دوست کا فون آیا۔ ان کا فرمانا تھا کہ تمہیں جو وڈیو بھیجی ہے دیکھ لو‘ پھر اس پر بات کریں گے۔ کشمیر میں انٹرنیٹ کا معیار کافی پست ہوجاتا ہے۔ کافی کاوش کے بعد وڈیو دیکھی جس میں ایک جلسے کا سماں تھا اور مریم نواز ہاتھ کے اشارے سے مجمع پر اپنے کنٹرول کا مظاہرہ کررہی تھیں۔ وہ اپنے ہاتھ اوپر کرتیں تو مجمع بھی اپنے ہاتھ اونچے کرکے تالیاں بجاتا اور ہاتھ نیچے کرتیں تو مجمع کے ہاتھ بھی نیچے آجاتے۔ میرے دوست کا خیال تھا کہ اس مظاہرے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی آزاد کشمیر میں فتح یقینی ہوگئی ہے۔ میں نے کچھ نہیں کہا؛ البتہ میرے ذہن میں متحدہ قومی موومنٹ کے جلسے آگئے جس میں اس جماعت کے بانی لندن سے فون پر تقریر فرمایا کرتے تھے اور ایک دو تین کہہ کر ہزاروں لوگوں کو خاموش کرادیا کرتے تھے۔ جس نے یہ سب کچھ دیکھ رکھا ہو اس کے لیے آزاد کشمیر کے ضلع حویلی میں اس طرح کا مظاہرہ کوئی پرانی یاد تازہ تو کرسکتا ہے‘ کسی جوہری سیاسی تبدیلی کا اشارہ نہیں بن سکتا۔ خیر میں کشمیر سے لاہور آیا اور اپنے سروے کے نتائج نشر کیے جن کے مطابق تحریک انصاف سب سے بڑی پارٹی بنتی ہوئی نظر آرہی تھی تو وہی پُرجوش دوست میرے کام کے بے معنی ہونے کا حکم لگانے لگے۔ اس پر بھی میں نے ان کی دل شکنی کی معافی مانگنے کے سوا کچھ نہیں کہا۔ نتائج آگئے اور اس خاکسار کے سروے کے عین مطابق آئے تو ان کا فون آیا نہ کوئی پیغام‘ بس ایک گمبھیر سی خاموشی ان پر چھاگئی ہے جو بے سروپا امیدیں بر نہ آنے کی صورت میں چھا جاتی ہے۔ ان کا مسئلہ تھا کہ انہوں نے بہت پہلے ایک ایسا دعویٰ کرلیا تھا جس کی حتمی دلیل کے طور پر مریم نواز کی اس وڈیو کے سوا ان کے پاس کچھ نہ تھا۔ اب وہ ملیں گے تو اتنا ضرور کہوں گا کہ دلیل کے بغیر سیاستدانوں کا کام تو تھوڑا بہت چل سکتا ہے‘ صحافیوں کا نہیں۔
سیاستدانوں کو یہ آزادی میسر ہے کہ وہ اپنے دعوے کے لیے دلیل نہ دیں بس اس کے درست ہونے پر اصرار کیے جائیں۔مریم نواز بھی اپنی دھن میںشاید اسی مقام تک آن پہنچی ہیں جہاں وہ اپنے دعوے کی دلیل سے بے نیاز ہوکر اس پر اصرار کیے جارہی ہیں۔ دھن کے پکے سیاستدان کی طرح تکرار کے ساتھ ایک ہی بات دہراتے چلے جانا کچھ وقت کے لیے تو کارآمد پینترا ہوسکتا ہے مگر ہمیشہ کے لیے نہیں۔ ایک وقت آ ہی جاتا ہے جب دعوے کی دلیل مانگی جاتی ہے۔ خاص طور پر وہ قوم جو جسٹس افتخار چودھری کی بحالی میں جذباتی ہوکر دھوکا کھا چکی ہو یا عمران خان کے دعووں پر اعتبار کربیٹھی ہو ‘ اسے تو بدرجہ اولیٰ دلیل چاہیے۔ پاکستان میں اب کوئی دہائی تو اصول کی دے مگر صرف اپنے فائدے کے لیے دے‘ پکار پکار کر ووٹ چوری کا بتائے مگر یہ نہ بتا سکے کہ ووٹ کیسے چوری ہوا‘ یہ تو کہے کہ ووٹ کو عزت ملے مگر یہ واضح نہ کرپائے کہ ووٹ اور عام آدمی کی عزت کا باہمی تعلق کیا ہے تو پھر اس کے ساتھ وہی ہوتا ہے جو مریم نواز کے ساتھ پہلے گلگت بلتستان میں ہوا اور اب آزاد جموں و کشمیر میں۔ ان کے یکطرفہ مکالموں کو لوگوں نے سنا تو ضرور ‘ سر بھی دھنا مگر ووٹ اسے دیا جو ان کے لیے کچھ سود مند ہوسکتا ہے۔ مجمع پر کنڑول کا وہ کرتب جو انہوں نے ضلع حویلی میں کرکے دکھایا تھا‘ اتنا بے فائدہ نکلا کہ اسی حلقے سے مسلم لیگ (ن) کا امیدوار پیپلزپارٹی سے ہار گیا۔
یہ حقیقت ہے کہ مریم نواز نے کشمیر میں بہت محنت کی مگر سوال یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے کہیں کم محنت سے تین گنا زیادہ نتائج کیسے حاصل کرلیے؟حکمت عملی کی حد تک اس کی وجہ تو یہ ہے کہ مسلم لیگ( ن) نے حالات کا تجزیہ درست نہیں کیا اور اپنی قوت پھیلا دی‘ اس طریقے سے اس نے مجموعی طور پر ووٹ تو زیادہ لے لیے مگر نشستیں نہ لے سکی۔ دوسری اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ تعاون پر یقین رکھتا ہے ‘ تصادم پر نہیں۔اختلاف کو آگے بڑھاتا ہے‘ مخالفت کو نہیں۔ اس طاقتور معاشرتی روایت کو اپنی وقتی سیاست کے تحت روند کے رکھ دینا کچھ عرصہ پہلے تک بہت آسان تھا مگر جیسے جیسے یہ ٹوٹی پھوٹی جمہوریت آگے بڑھ رہی ہے‘ لوگ سیاسی اختلاف کے لیے حد سے باہر جاناپسند نہیں کرتے۔بلاول بھٹو زرداری نے یہ نکتہ سمجھ لیا ہے‘ وہ اقتدار چاہتے ہیں مگر اپنے اقتدار کو کسی دوسرے کے لیے خطرے کے طور پر پیش نہیں کرتے۔ان کے مقابلے میں مریم نواز بھی اقتدار چاہتی ہیں مگر اپنے اقتدار کو تلوار کی طرح آزمانے کا عزم کرکے وہ لوگوں کو اپنے سے دور کیے دے رہی ہیں۔اس رویے سے اپنی حریت پسندی کا رنگ تو کچھ دیر کے لیے جمایا جاسکتا ہے مگر اقتدار کے حصول کی منزل دور سے دور تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ مریم نواز یہ نکتہ بھی نظر انداز کیے دے رہی ہیں کہ جمہوری معاشرے میں اقتدار ذاتی نمود کا باعث ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی ذمہ داری کا بھی تقاضا کرتا ہے اور ذمہ داری کا یہ مطالبہ عین اس دن سے شروع ہوتا ہے جب کوئی حکومت کی خواہش ظاہر کرتا ہے۔ وہ ہر لحظہ حکومت کی خواہش کرتی ہیں مگر اب تک ذمہ داری کا مظاہر ہ نہیں کرسکیں۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس ہر وقت نواز شریف یا شہباز شریف کے پیچھے چھپ جانے کا آپشن موجود رہتا ہے۔ اور بلاول غالباًاسی لیے زیادہ ذمہ دار معلوم ہوتے ہیں کہ ان کے لیے آصف علی زرداری کی آڑ لینا ممکن نہیں رہا۔
مریم نواز کے لیے شاید یہ سمجھنا بھی دشوار ہے کہ سیاسی کامیابی کے لیے مؤثر تنظیم بھی ضروری ہے اور تنظیم اسی وقت کسی کے پیچھے کھڑی ہوتی ہے جب اس کی رہنمائی پر کسی کو اعتراض نہ رہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کی مثال ایک بار پھر لے لیجیے۔ اپنے بانی سے اعلانِ لاتعلقی کے چھ سال بعد بھی اس میں کسی کی قیادت پنپ سکی ہے نہ تنظیم کی قوت واپس آسکی ہے۔ مریم نواز کی قیادت پر آج بھی بہت سے اعتراضات ان کی اپنی پارٹی اور خاندان میں رہتے ہیں۔ان کی جماعت میں بھی نچلی ترین سطح سے لے کر اعلیٰ ترین عہدوں تک پر فائز لوگ انہیں ابھی مسلم لیگ (ن) کی سیاست کا مرکزی کردار نہیں سمجھتے۔ اس وجہ سے جہاں جہاں انہوں نے الیکشن کمپین کی قیادت کی‘ وہیں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور جہاں تنظیم نے اپنی ضرورت کے تحت ان کا ساتھ دیا ‘ وہیں فتح ان کا مقدر بن گئی۔ پہلے گلگت بلتستان اور اب آزاد جموں و کشمیر میں بھی یہی ہوا۔ وہ اپنی جھونک میں اتنا آگے نکل جاتی ہیں کہ اپنے پیچھے تنظیم کی غیر موجودگی کاانہیں احساس ہی نہیں ہوپاتا۔
پاکستان کے اکثر سیاستدانوں کی طرح مریم نواز کو ابھی یہ سمجھنا ہے کہ سیاست میں اصول اور کارکردگی کے درمیان ایک تعلق پیدا کرنا پڑتا ہے۔ ملکی معیشت دگرگوں‘ گورننس خراب‘ ادارے ناکارہ اورمعاشرہ نالائقی کا شکار ہوچکا ہو تو مسئلہ صرف ووٹ کی عزت نہیں‘ کچھ اور ہے۔ مان لیجیے پاکستان کے نظام حکومت میں وہ تبدیلیاں آجائیں جونوازشریف اور مریم نواز کو مطلوب ہیں تو ملک آگے کیسے بڑھے گا؟ بعض کہتے ہیں بس فلاں کام ہوجائے تو ہم ترقی کرنے لگیں گے۔ یہ منطق اس وقت بھی دی جاتی تھی۔ بہت پڑھے لکھے لوگوں کا خیال تھا کہ جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کے بعد سب ٹھیک ہوجائے گا مگر اس خیال کا بودا پن آج قوم کے سامنے ہے۔ مریم نواز نے کشمیر میں یہی غلطی کی کہ اپنا کوئی پروگرام لوگوں کے سامنے سرے سے رکھا ہی نہیں۔ وہاں ان کا غصہ اور تلخ لہجہ انہیں 'شیرنی‘ کا خطاب تو دلوا گیا‘ لیڈر نہیں بنا سکا۔ان کی تقریروں پر لوگوں نے توجہ تو دی مگرووٹ نہیں دیے۔ شایداسی لیے نہیں دیے کہ ان کی تقریریں توجہ سے سن لی تھیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved