تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     28-07-2021

کورونا وبا اور ہندو میلے

آج کل بھارت کی حکومت کے کئی اہم فیصلوں کاآخری فیصلہ عدالتیں کر رہی ہیں۔ ایسا ہی ایک بڑا معاملہ کانوڑ یاترا میلے کا ہے۔اس میلے میں 3 سے 4کروڑ لوگ حصہ لیتے ہیں۔ اترپردیش کی بھاجپا سرکار نے اس اکٹھ کی اجازت دے رکھی ہے جبکہ کچھ ہی ہفتوں پہلے کنبھ میلے کی وجہ سے لاکھوں لوگ کورونا کا شکار ہوکر ہلاک ہو چکے ہیں۔ اتر پردیش حکومت کہتی ہے کہ وہ عوام کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے اس میلے کی اجازت دے رہی ہے‘ ٹھیک ہے! مگر ایسا احترام کس کام جو لاکھوں‘ کروڑوں لوگوں کو موت کے دہانے پر پہنچا دے؟ ایک طرف وزیر اعظم مشرقی سرحد کے صوبوں میں وبا پر تشویش ظاہر کر رہے ہیں اور دوسری طرف انہی کی پارٹی کے وزیر اعلیٰ اس یہ خطرہ مول لے رہے ہیں۔ وزارتِ صحت کے افسر کہہ رہے ہیں کہ کورونا وبا کے تیسرے حملے کے پورے امکانات ہیں۔اس کے باوجود اتنے بڑے پیمانے پر میلہ جٹانے کی کیا ضرورت ہے؟ گنگا کا پانی آخر کس لئے لوگ اپنے گھروں میں لے جاتے ہیں‘ کیا فائدہ جب لوگ خود ہی نہیں رہیں گے۔ اتر پردیش حکومت یقین دہانی کروا رہی ہے کہ میلے کے شرکا کی جانچ اور علاج وغیرہ کا پورا انتظام اس کے پاس ہے۔ ایسے اعلانات تو کنبھ میلے کے وقت بھی کئے گئے تھے لیکن جو خبریں ابھر کر سامنے آرہی ہیں وہ بتاتی ہیں کہ یہ سب کچھ فرضی تھا اور اس میلے سے کورونا وبا بہت بڑے پیمانے پر پھیل گئی۔یوں بھی اس طرح کے میلوں ٹھیلوں میں عام طور سے لوگ لاپروائی کا خوب مظاہرہ کر تے ہیں۔ دہلی کے بازاروں اور پہاڑی علاقوں میں پہنچی بھیڑ کی تصویریں دیکھ کر بھی آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ بھارت میں کورونا قواعد پر کتنا عمل ہورہا ہے۔ اتراکھنڈ میں بھی اگرچہ بھاجپا کی سرکار ہے لیکن اس کے نئے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کی تعریف کرنی ہوگی کہ انہوں نے نہ صرف ایک مذہبی میلے پر پابندی لگادی بلکہ مختلف صوبوں کی سرکاروں سے بھی گزارش کی ہے کہ وہ اس طرح کے اجتماع روکیں۔سپریم کورٹ نے اتر پردیش اور مرکزی حکومت سے پوچھا ہے کہ انہوں نے کنبھ میلے کی لاپروائی سے کوئی سبق کیوں نہیں سیکھا؟ کیا انہیں عوام کی پریشانیوں سے کوئی مطلب نہیں ہے؟ انفیکشن زدہ کا لوگ اگر اپنے گاؤں اور شہروں میں لوٹیں گے تو کیا دیگر کروڑوں لوگوں کو وہ وبا کے تیسرے حملے کا شکار نہیں بنادیں گے؟سپریم کورٹ نے مرکز اور اترپردیش کی حکومتوں سے اس سوال کا فوراً جواب مانگا ہے۔ امید ہے کہ دونوں حکومتیں عدالت کی تشویش کا احترام کریں گی اور اس یاترا کوملتوی کردیں گی۔ اس التوا کا بھاجپا کے ووٹ بینک پر کوئی اثر نہیں پڑے گا لیکن اگر میلہ جاری رہا اور وبا پھیل گئی تو سرکار کو لینے کے دینے پڑجائیں گے۔
بغاوت کا قانون: جمہوریت کا کلنک
بھارت کی عدالت عظمیٰ نے سرکار سے اپیل کی ہے کہ وہ راج دروہ یعنی بغاوت کے قانون کواب ختم کرے۔ تعزیراتِ ہند کی دفعہ 124 اے انگریزوں نے بنائی تھی تاکہ کسی بھی آزادی پسند پر بغاوت یا دہشت گردی کا الزام لگا کر اسے جیل میں ٹھونس دیا جائے۔ گاندھی جی پر بھی یہ قانون لاگو ہوا تھا۔ اسی دفعہ کو بنیاد پر انگریز سرکار نے بال گنگا دھر تلک کو برماکی جیل میں جلاوطن کردیاتھا۔ اس قانون کا بھارت میں اب بھی جم کر استعمال ہوتا ہے۔ انگریز توچلے گئے لیکن یہ دفعہ نہیں گئی۔ اس دفعہ کے تحت2014ء سے 2019ء تک 595 لوگ گرفتار کئے گئے لیکن ان میں سے صرف 10لوگوں کو قصوروار پایاگیا۔ اسی طرح کی ایک شق ہمارے سوچنا قانون میں بھی تھی۔ اس شق66 اے کو کئی سال پہلے سپریم کورٹ نے مستردکردیا تھا لیکن پولیس اپنی عادت سے مجبور ہے‘ وہ اسی شق کے تحت لوگوں کو گرفتار کرتی رہتی ہے۔یہ دفعات بھارتی جمہوریت کا کلنک ہیں۔ یہ اظہارِ رائے کی آزادی کا قتل ہے۔ حال ہی میں صحافی ونود دعا‘ آندھرا پردیش کے دو ٹی وی چینلوں اور منی پور کے صحافی وانگ کھیم کو بھی بغاوت کے الزام میں پھنسانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اگر کوئی شخص کسی سیاستدان یا اس کی سرکار کے خلاف کوئی فحش‘ تشدد آمیز‘ دنگابھڑکاؤ یا توہین آمیز بیان دے یا تحریر لکھے تو اس کے خلاف قانونی کارروائی کیلئے درجنوں طریقے ہیں لیکن ایسے کسی کام کوراج دروہ کہہ دینے کا کیا مطلب ہے؟اس کا مطلب یہی ہے کہ ہمارے نیتا اپنے آپ کو راجہ یابادشاہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔جو عوام کے سیوک ہیں وہ اگرمالک بن بیٹھیں تو اسے کیاآپ جمہوریت کہیں گے ؟ حکومت کی مخالفت کرنا اپوزیشن کا دھرم ہے۔ اس پر اگر آپ اپوزیشن والوں کو گرفتار کرلیتے ہیں تو اس کا مطلب کیا ہوا؟آپ لوک سیوک نہیں‘ آپ راجہ ہیں اور راجہ کے خلاف بولنا بغاوت ہو گیا۔ اس طرح کے قوانین کا جاری رہنایہ ثابت کرتا ہے کہ بھارت اب بھی نوآبادیاتی ذہنیت میں جی رہا ہے۔ اس قانون پر نظر ثانی کرنے کی رائے اگست 2018ء میں قانون کمیشن نے بھی بھارت سرکار کو دی تھی۔ اس بار عدالت عظمیٰ نے اس پر مہر لگادی ہے لیکن اٹارنی جنرل نے اس قانون کی افادیت ثابت کرنے کیلئے کئی دلیلیں پیش کی ہیں۔ سرکار کے تحفظات اپنی جگہ لیکن ان کا حل اس قانون کے بغیر بھی ہوسکتا ہے۔ آزادی کے بعد ملک میں بنی حکومتوں میں تقریباً سبھی مرکزی پارٹیاں رہی ہیں۔ ان میں سے کسی کی بھی ہمت نہیں ہوئی کہ اس قانون کو ختم کرے۔ کیوں نہ عدالت عظمیٰ ہی اسے غیر آئینی قرار دے دے ؟
گاندھی اور منڈیلا: نیا سماج
18 جولائی کونیلسن منڈیلا کاجنم دن تھا۔ اگروہ آج ہمارے بیچ ہوتے تو 103 سال کے ہوتے‘ مگرانہیں 95 سال کی عمر ملی اور جسے اتنی لمبی عمر ملی ہو تو سب سے پہلے ہمیں یہی جاننا چاہئے کہ اس لمبی عمر کا راز کیا ہو سکتا ہے؟ نیلسن منڈیلا کو میں مہاتما گاندھی کی طرح جنوبی افریقہ ہی نہیں پورے براعظم افریقہ کا گاندھی بھی مانتا ہوں۔ وہ جنوبی افریقی کے اسی طرح فادر آف نیشن ہیں جیسے گاندھی بھارت کے ہیں۔ وہ 76 سال کی عمر میں جنوبی افریقہ کے صدر مملکت بنے اور 81 سال کی عمر میں ریٹائر ہو گئے۔ وہ چاہتے تو اگلی ڈیڑھ دہائی تک اپنے عہدے پر برقرار رہ سکتے تھے لیکن اقتدار کے تئیں لاتعلقی کے جذبے نے ہی انہیں زندہ رکھا۔ ایسے کئی بادشاہ اور وزیر اعظم میرے دوست رہے ہیں جنہیں میں نے اقتدار سے ہٹتے ہی یا کچھ سال بعد عدم سدھارتے ہوئے دیکھا ہے۔ منڈیلا اس کے الٹ تھے۔ یہ ٹھیک ہے کہ منڈیلا جب جوان تھے‘ شارپ بل میں ہوئے قتل عام نے انہیں تشددپر اکسایا لیکن بعد میں جیل جانے پر انہوں نے گاندھی نظریات کا مطالعہ کیا جس نے ان کی زندگی کے نظریے کو بدل دیا۔ انہوں نے جیل میں کئے جانے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کی اورپُرامن احتجاج کا نظریہ پیش کیا۔ 1994ء میں جنوبی افریقہ میں انتخابات جیتنے پر صدر بننے کے بعد بھی انہوں نے بہت ہی امن پسند اورمتوازن پالیسی چلائی۔انہوں نے کالوں کو گوروں کے خلاف کبھی بھڑکایا نہیں۔ کالے لوگوں کی سماجی اورمعاشی صورتحال سدھارنے کیلئے انہوں نے کئی قدم اٹھائے۔ طاقت اور ہوس کی کھائی ‘جو دس گنا گہری تھی‘ اس میں تھوڑی کمی آئی لیکن آج بھی جنوبی افریقہ کی دولت پر گوروں کا دبدبہ بناہوا ہے۔ 90فیصد کالے لوگوں میں سے 2 یا 3فیصد لوگ مالدار ضرور ہوگئے ہیں لیکن منڈیلا کے سپنوں کی مملکت تبھی بنے گی جب جنوبی افریقہ میں امن اور برابری والاسماج پروان چڑھے گا۔ گاندھی کے بھارت میں جیسے آج بھی ذات پات کی تفریق پھیل رہی ہے‘ منڈیلا کے جنوبی افریقہ میں رنگ و نسل کا جھگڑاقائم ہے۔ گاندھی اور منڈیلا کی منڈلی مل کر دونوں براعظموں‘ ایشیا اور افریقہ میں انقلاب لا سکیں تو 21 ویں صدی تاریخ کی ایک بہترین صدی بن سکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved