تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     28-07-2021

پیکرِ شرم و حیا

ذوالحج کا دوسرا عشرہ ایک ایسی عظیم الشان شخصیت کی یاد دلاتا ہے جو شرم وحیا اور جودوسخا کے اعتبار سے انتہائی بلند مقام پر فائز ہیں۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ 18 ذی الحجہ کو اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے لیکن اپنی سیرت اور نقوش کے سنہرے اثرات تاریخِ عالم پر ثبت کر گئے۔ حضرت عثمانؓ کی درخشاں سیرت ہر اعتبار سے اہلِ ایمان کے لیے ایک مثال ہے۔ حضرت عثمانؓ نے نہایت پاکیزہ زندگی بسر کی اور زمانۂ جاہلیت میں بھی اپنے کردار اور شخصیت کو آلائشوں سے محفوظ رکھا۔ جب اللہ تبارک وتعالیٰ کے حبیب حضرت رسول اللہﷺ نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی دعوت دی تو آپؓ ان اولین لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے دعوتِ توحید کو فوراً سے پیشتر قبول کیا اور اس کے بعد اپنے آپ کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کے لیے وقف کیے رکھا۔ حضرت عثمان ؓ فضیلت کے اعتبار سے ممتاز ترین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں شامل ہیں۔
مکہ مکرمہ میں آپؓ دیگر اہلِ اسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے صعبوتوں کو سہتے رہے اور اس کے بعد آپؓ نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین سربلندی اور اپنے ایمان کے تحفظ کے لیے دو دفعہ ہجرت کی۔ آپؓ کے شرف میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آپؓ رسول کریمﷺ کے داماد بنے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک بیٹی کے انتقال کے بعد دوسری بیٹی بھی آپ رضی اللہ عنہ ہی کے عقد میں آئیں۔
ہجرت کے بعد بھی آپؓ رسول اللہﷺ کے ساتھ مختلف غزوات میں حصہ لیتے رہے۔ غزوہ بدر کے موقع پر آپؓ کی اہلیہ اور نبی کریمﷺ کی صاحبزادی بیمار تھیں جس کی وجہ سے آپؓ اس غزوہ میں باقاعدہ طور پر تو شریک نہ ہو سکے؛ تاہم نبی کریمﷺ نے آپؓ کا شمار بدر کے غازیوں میں ہی فرمایا۔
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عثمانؓ کے بدر کی لڑائی میں شریک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نکاح میں رسول اللہﷺ کی صاحبزادی تھیں اور اس وقت وہ بیمار تھیں اور نبی کریمﷺ نے فرمایا تھا کہ تمہیں (مریضہ کے پاس ٹھہرنے کا) اتنا ہی اجر و ثواب ملے گا جتنا اس شخص کو جو بدر کی لڑائی میں شریک ہو گا اور اسی کے مطابق مال غنیمت سے حصہ بھی ملے گا۔
بعد ازاں آپؓ تمام غزوات میں رسول اللہﷺ کے ہم رکاب رہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر آپؓ کو سفارتکاری کے لیے قریش کی طرف روانہ کیا گیا تو آپؓ کی شہادت کی افواہ پھیل گئی، اس موقع پر آپﷺ نے آپؓکے قصاص کے لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بیعت لی‘ جسے بیعت ِرضوان کے ساتھ تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو (سفارتکاری کے لیے) مکہ بھیجنا پڑا اور بیعت رضوان اس وقت ہوئی جب وہ مکہ میں تھے۔ (بیعت لیتے ہوئے) نبی کریمﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کو اٹھا کر فرمایا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور اسے اپنے (بائیں) ہاتھ پر مار کر فرمایا کہ یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے۔
حضرت عثمانؓ کی فضیلت میں یہ بات بھی مروی ہے کہ اُحد پہاڑ پر نبی کریمﷺ نے سیدنا صدیق اکبرؓ اور سیدنا فاروق اعظمؓ کے ساتھ ساتھ آپؓ کی عظمت کی بھی نشاندہی فرمائی تھی۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:
صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریمﷺ جب احد پہاڑ پر چڑھے اور آپ کے ساتھ ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم بھی تھے تو پہاڑ کانپنے لگا۔ آپﷺ نے اس پر فرمایا: احد ٹھہر جا! (حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپﷺ نے اسے اپنے پاؤں سے مارا بھی تھا)کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید کھڑے ہیں۔
حضرت عثمان ؓ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بے پناہ مال ودولت سے نوازا تھا ۔ آپؓ اپنے مال سے ہمیشہ مسلمانوں کے کام آنے کے لیے آمادہ و تیار رہے۔ مسجد نبوی کی توسیع اوربئر رومہ کی خریداری میں آپؓ نے کلیدی کردار ادا کیا اور غزوہ تبوک کے موقع پر بھی دل کھول کر اپنے مال کو اللہ کے راستے میں خرچ کیا۔
حضرت عثمان ؓ شرم و حیاکے اعتبار سے بھی ایک ممتاز شخصیت تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں آپؓ کی حیا ایک ضرب المثل کی حیثیت رکھتی تھی۔ آپؓ کی حیاداری کا ذکر احادیث مبارکہ میں بھی موجود ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے :
سلسلہ احادیث صحیحہ میں حضرت ابو ہریرہ ؓسے مرفوعاً مروی ہے کہ: حیا ایمان سے ہے اور میری اُمت میں سب سے با حیا شخص عثمان (رضی اللہ عنہ)ہیں۔
حضرت عثمانؓ عہدِ رسالتﷺ میں جس انداز میں دین کی خدمت کے لیے وقف رہے‘ حضرت ابوبکرؓ و عمر ؓ کے عہد مبارکہ میں بھی آپؓ نے اس سلسلے کو برقرار رکھا یہاں تک کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپؓ کو بھی خلافت کی خلعت عطا فرما دی۔ آپؓ نے اپنے عہد ِخلافت میں اسلامی سلطنت کی توسیع اور اس کے استحکام میں کلیدی کردار ادا کیا۔ بعدازاں بلوائیوںاور سازشیوں نے ایک سازش کے تحت جھوٹے الزام لگا کر حضرت عثمانؓ کو شہید کرنے کے لیے لوگوں کو اکسایا اور بالآخر حضرت عثمان ؓ کو مظلومانہ انداز میں شہید کر دیا گیا۔ جس کی نشاندہی حضرت رسول اللہﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں ہی فرما دی تھی۔
صحیح بخاری میں حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓسے رویت ہے کہ انہوں نے ایک دن اپنے گھر میں وضو کیا اور اس ارادہ سے نکلے کہ آج دن بھر رسول اللہﷺ کا ساتھ نہ چھوڑوں گا۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر وہ مسجد نبوی میں حاضر ہوئے اور نبی کریمﷺ کے متعلق پوچھا تو وہاں موجود لوگوں نے بتایا کہ نبی کریمﷺ تو تشریف لے جا چکے ہیں اور آپﷺ اس طرف تشریف لے گئے ہیں۔ حضرت ابو موسیٰؓ فرماتے ہیں کہ چنانچہ میں آپﷺ کے متعلق پوچھتا ہوا آپﷺ کے پیچھے پیچھے نکلا اور پھر میں نے دیکھا کہ آپﷺ (قبا کے قریب) بئراریس میں داخل ہو رہے ہیں، میں دروازے پر بیٹھ گیا، اس کا دروازہ کھجور کی شاخوں سے بنا ہوا تھا۔ جب آپﷺ قضائے حاجت کر چکے اور آپﷺ نے وضو بھی کر لیا تو میں آپﷺ کے پاس گیا۔ میں نے دیکھا کہ آپﷺ بئراریس (اس باغ کے کنویں) کی منڈیر پر بیٹھے ہوئے ہیں، اپنی پنڈلیاں آپ نے کھول رکھی ہیں اور کنویں میں پاؤں لٹکائے ہوئے ہیں۔ میں نے آپﷺ کو سلام کیا اور پھر واپس آ کر باغ کے دروازے پر بیٹھ گیا۔ میں نے سوچا کہ آج میں رسول اللہﷺ کا دربان رہوں گا۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور دروازہ کھولنا چاہا تو میں نے پوچھا کہ کون صاحب ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ابوبکر! میں نے کہا تھوڑی دیر ٹھہر جائیے۔ پھر میں آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ابوبکر دروازے پر موجود ہیں اور اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی۔ میں دروازے پر آیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اندر تشریف لے جائیے اور رسول اللہﷺ نے آپ کو جنت کی بشارت دی ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ اندر داخل ہوئے اور اسی کنویں کی منڈیر پر آپﷺ کی داہنی طرف بیٹھ گئے اور اپنے دونوں پاؤں کنویں میں لٹکا لیے جس طرح آپﷺ نے لٹکائے ہوئے تھے اور اپنی پنڈلیوں کو بھی کھول لیا۔ پھر میں واپس آ کر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ میں آتے وقت اپنے بھائی کو وضو کرتا ہوا چھوڑ آیا تھا۔ وہ میرے ساتھ آنے والے تھے۔ میں نے اپنے دل میں کہا: کاش اللہ تعالیٰ فلاں کو خبر دے دیتا (ان کی مراد اپنے بھائی سے تھی) اور انہیں یہاں پہنچا دیتا۔ اتنے میں کسی صاحب نے دروازے پر دستک دی۔ میں نے پوچھا: کون صاحب ہیں؟ جواب ملا کہ عمر بن خطاب۔ میں نے کہا کہ تھوڑی دیر کے لیے ٹھہر جائیے، چنانچہ میں آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کے بعد عرض کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ دروازے پر کھڑے ہیں اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی پہنچا دو۔ میں واپس آیا اور کہا کہ اندر تشریف لے جائیے اور آپ کو رسول اللہﷺ نے جنت کی بشارت دی ہے۔ وہ بھی داخل ہوئے اور آپﷺ کے ساتھ اسی منڈیر پر بائیں طرف بیٹھ گئے اور اپنے پاؤں کنویں میں لٹکا لیے۔ میں پھر دروازے پر آ کر بیٹھ گیا اور سوچتا رہا کہ اگر اللہ تعالیٰ فلاں (ان کے بھائی) کے ساتھ خیر چاہے گا تو اسے یہاں پہنچا دے گا، اتنے میں ایک اور صاحب آئے اور دروازے پر دستک دی، میں نے پوچھا کون صاحب ہیں؟ بولے کہ عثمان بن عفان، میں نے کہا تھوڑی دیر کے لیے رک جائیے، میں آپﷺ کے پاس آیا اور میں نے آپﷺ کو ان کی اطلاع دی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور ایک مصیبت پر‘ جو انہیں پہنچے گی‘ جنت کی بشارت پہنچا دو۔ میں دروازے پر آیا اور میں نے ان سے کہا کہ اندر تشریف لے جائیے۔ نبی کریمﷺ نے آپ کو جنت کی بشارت دی ہے‘ ایک مصیبت پر جو آپ کو پہنچے گی۔ وہ جب داخل ہوئے تو دیکھا چبوترے پر جگہ نہیں ہے اس لیے وہ دوسری طرف آپﷺ کے سامنے بیٹھ گئے۔ راویٔ حدیث شریک نے بیان کیا کہ تابعی سعید بن مسیب نے کہا :میں نے اس سے ان کی قبروں کی تاویل لی ہے (کہ وہ اسی طرح بنیں گی)۔
سیدنا عثمان ؓ اس دنیا ئے فانی سے کوچ کر گئے مگر اپنی سخاوت، شرم وحیا اور بردباری کے نقوش ہمیشہ کے لیے تاریخ اسلام پر ثبت کر گئے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں سیدنا عثمانؓ کی عظمت کو سمجھتے ہوئے ان کی سیرت کے درخشاں پہلوؤں سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved