سابق وزیراعظم پاکستان نواز شریف سے ملاقات کے بعد افغانستان کے صدر اشرف غنی کے سکیورٹی ایڈوائزر حمد اﷲ محب کے ٹویٹر ہینڈل نے تمام سفارتی، اخلاقی اور حکومتی آداب کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں۔ باخبر لوگ اس ملاقات سے پہلے ہی پس پردہ کی جانے والی گفتگو اور چوری چھپے ملاقاتوں سے آگاہ ہو چکے تھے ۔ اس وقت بے موقع 1971ء کی ڈھاکہ میں جنگ بندی کی تصویر کو حمداﷲ محب نے شیئر کرتے ہوئے شاید این ڈی ایس اور را کوتسکین فراہم کرنے کی کوشش کی ہے ۔ پنجابیوں سے متعلق حمد اللہ نے جوالفاظ استعمال کیے‘ وہ ایسے ہی نہیں تھے بلکہ یہ سب کچھ جان بوجھ کر اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا۔ پاک فوج اور پاکستان کے سکیورٹی ادارے مودی، بھارت اور ان کے ہمنوائوں کی آنکھوں میں بری طرح کھٹک رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ حمد اﷲ محب کا کندھا استعمال کر کے نشانہ پاکستان اور پاکستان کے اداروں کو بنایا جا رہا ہے۔ میاں نواز شریف سے ملاقات کے بعد پاکستان اور اس کی افواج کے خلاف حمد اﷲ کا لہجہ پہلے سے بھی زیادہ گھٹیا ہو گیا ہے۔ سقوطِ ڈھاکہ کی بے موقع تصویر شیئر کر کے پاکستان کے سکیورٹی اداروں کا مورال ڈائون کرنے کی کوشش کی گئی مگر افغان سکیورٹی ایڈوائزر کو منہ کی کھانا پڑی ہو گی۔ افغانستان، بھارت اور ان کے ہمنوا اپنے ہر ناپاک قدم کے راستے میں پاک فوج کو سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں، وہ جان چکے ہیں کہ ان کا سرحدوں کو فقط ایک لکیر کہنے کا بیانیہ نہ تو پاکستانیوں کو قبول ہے اور نہ ہی ملکی سرحدوں کی دن رات‘ شدید سردی اور قہر کی گرمیوں میں کھڑے ہو کر حفاظت کرنے والوں کو۔ افغان صدر کے سکیورٹی ایڈوائزر نے اپنے ٹویٹر اکائونٹ پر جس طرح پاکستان بالخصوص پنجابیوں کو گالیاں بکتے ہوئے شرمناک پوسٹ کی اور بھارت اور کچھ دوسرے ممالک میں بیٹھے ہوئے افراد نے جس طرح اس پر تبصرے کئے‘ اس نے ہر پاکستانی بالخصوص پنجابیوں میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔ خیال تھا کہ میاں نواز شریف‘ جنہیں ہمیشہ پنجاب نے کامیابیوں سے نوازا ‘جن کی مقبولیت اور اقتداراب تک پنجابیوں کا مرہونِ منت ہے‘ صدر اشرف غنی کے سکیورٹی ایڈوائزر کو اپنے فلیٹ کی دہلیز سے ہی واپس بھیج دیں گے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اس سے بات کرنا تو دور کی بات اس سے ہاتھ بھی نہ ملاتے لیکن انہوں نے بجائے دھتکارنے کے اسے اپنے تمام سٹاف اور بچوں سے ملوا کر سلامی دینا منا سب سمجھا۔ میاں نواز شریف شاید یہ بھول رہے ہیں کہ وہ خود بھی پاکستان اور بالخصوص پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں‘ اسی پنجاب سے‘ جسے حمد اللہ محب نے گالیاں بکی ہیں۔
جوں جوں وقت گزر رہا ہے، اس ملاقات کی تفصیلات زیادہ واضح ہو کر سامنے آ رہی ہیں۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ ملاقات طے ہونے کے بعد حمد اللہ محب کی طرف سے متنازع بیان سامنے آیا جس کی پورے پاکستان نے مذمت کی؛ تاہم یہ تعلقات دو ملکوں کے درمیان ہیں نہ کہ دو شخصیات کے درمیان۔ شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ وفد سابق وزیر اعظم سے ملنے آیا تھا اور اگر کوئی آپ کا دشمن ہو اور آپ کے دروازے پر آتا ہے تو آپ اس سے ملتے ہیں جبکہ افغانستان تو ہمارا دوست ملک ہے۔شاہد خاقان عباسی شاید بھول رہے ہیں کہ سفارتی تعلقات میں کسی سے ملنا اتنا ہی ضروری ہو تو نہایت مہذب انداز میں اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا جا سکتا ہے، بھلے سیاہ پٹی باندھ کر ہی، لیکن لندن میں نواز شریف کے میڈیا ترجمان اور افغان صدر کے سکیورٹی ایڈوائزر کے ٹویٹر ہینڈل سے جاری کی جانے والی تصاویر دیکھتے ہوئے ایسے لگ رہا ہے جیسے بچھڑے ہوئے پُر اعتماد دوست ایک دوسرے سے مل رہے ہیں۔شاہد خاقان عباسی کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ ملاقات افغان صدر کی خواہش پر ہوئی جبکہ مریم صفدر نے اپنے والد کی افغانستان کے سکیورٹی ایڈوائزر سے ہونے والی ملاقات پر تحریک انصاف اوردوسری شخصیات کی جانب سے کی جانے والی شدید تنقید کاجواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ اپنے دوستوں اور پڑوسیوں کے ساتھ پُر امن تعلقات نواز شریف کے نظریے کی اساس ہے جس کے لیے انہوں نے اَنتھک محنت کی ہے۔کاش کہ وہ اس انتھک محنت کی وضاحت بھی کر دیتیں۔ کیا بہتر نہ ہوتا کہ اس ملاقات میں حمد اللہ محب کو اپنا متنازع بیان واپس لینے پر آمادہ کیا جاتا اور اس حوالے سے رسمی ہی سہی‘ کوئی پریس ریلیز بھی جاری کر دی جاتی۔
اس ملاقات سے مجھے چند سال قبل ''محافظِ جمہوریت ‘‘کی چپکے سے افغانستان کے دورے کے دوران صدر حامد کرزئی سے ہونے والی وہ ملاقات یاد آ گئی کہ جب ان کے ساتھ بھیجے جانے والے ایڈیشنل سیکرٹری ساری رات ہوٹل کے کمرے میں ان کا انتظار کرتے رہے تاکہ صبح افغان صدر سے کی جانے والی خصوصی ملاقات کی تفصیلات طے کی جا سکیں مگر سیکرٹری صاحب اور وزارتِ خارجہ کو اگلی دوپہر جا کر علم ہوا کہ اچکزئی صاحب تو ساری رات حامد کرزئی کے محل میں ''مذاکرات‘‘ کرتے رہے ہیں اور ان مذاکرات کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ حامد کرزئی کی سربراہی میں افغان نیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی کو ''دہشت گرد ‘‘کے خطاب سے نوازا گیا۔ یہ خطاب دینے والا کوئی اور نہیں بلکہ اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان و بھارت محمود خان اچکزئی کی تنہائیوں کے ساتھی حامد کرزئی تھے۔
نون لیگ کہتی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اب تک کیا کیا ہے تو سنتے جایئے کہ عمران خان نے اپنی قوم کاسر بلند کرتے ہوئے بڑی سے بڑی طاقت کے آگے جھکنے کی ریت توڑ دی ہے۔ جب حمد اﷲ محب نے ننگر ہار میں بیٹھ کر پاکستان اور پنجاب کے بارے مغلظات بکی تھیں تو اس وقت ہی وزیراعظم صاحب نے افغان حکومت پر واضح کر دیا تھا کہ جب تک آپ کا سکیورٹی ایڈوائزر پاکستان سے باقاعدہ معافی مانگتے ہوئے اپنے الفاظ واپس نہیں لے گا‘ پاکستان کا کوئی بھی اہلکار اس سے کسی قسم کی گفتگو نہیں کرے گا بلکہ یہ منظر بھی دیکھنے کو ملا کہ کابل میں افغان حکومت کے سینئر اہلکاروں سے ہونے والی ایک ملا قات میں پاکستانی وفد نے یہ کہہ کر شریک ہونے سے انکار کر دیا کہ جب تک حمد اﷲ محب کا نام میٹنگ کے شرکا کی فہرست سے نکالا نہیں جائے گا‘پاکستان کا کوئی نمائندہ اس میٹنگ میں شرکت نہیں کرے گا۔ یہ ہوتی ہے قومی غیرت! یہ ہوتی ہے تبدیلی! یہ ہوتی ہے آزاد قوموں کی پہچان! کیا پوری قوم نے چند دن پہلے وہ منظر نہیں دیکھا کہ جب وزیراعظم عمران خان نے بحیثیت وزیر اعظم بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر سے ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا تھا۔وزیراعظم عمران خان کا صاف الفاظ میں کہنا تھا کہ مودی حکومت آر ایس ایس کی فسطائیت کا نام ہے‘ اس لئے جب تک کشمیر کی سابقہ حیثیت بحال نہیں کی جاتی‘ بھارت کے کسی سرکاری عہدیدار سے ملاقات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔شاہ محمود قریشی کا 5 جون کو ملتان میں سیاسی کارکنوں سے خطاب کے دوران حمد اﷲ کی دشنام طرازیوں کا جواب اسی کی زبان میں دینے کا انداز ہی ان کی قدر و منزلت میں اضافہ کر گیا۔
جو بھی منظر اچانک سامنے آکر سب کوحیران کر دیتا ہے‘ اس کے پس منظر میں کئی سفر، کئی استعارے، کئی اشارے اور کئی ملاقاتیں کارفرما ہوتی ہیں۔ اگر نریندر مودی خود چل کر رائیونڈ آیا تھا تو وہ بھی اچانک نہیں تھا‘ اس کے پیچھے کے کہانی خود نریندر مودی بھی سنا چکے ہیں کہ کیسے وہ بنا ویزے کے وزیراعظم نواز شریف کی دعوت پر افغانستان سے واپس جاتے ہوئے کچھ دیر کے لیے لاہور گئے اور پھر وزیراعظم کے ہیلی کاپٹر میں انہیں اسلام آباد لیجایا گیا حالانکہ یہ سفارتی آداب کی خلاف ورزی ہے کہ ایک سربراہِ مملکت کسی دوسرے سربراہِ مملکت کا جہاز استعمال کرے۔ اس کے علاوہ مودی کے قریبی دوست سجن جندال کی بھی پس پردہ کچھ ظاہری اور کچھ پوشیدہ ملاقاتیں تھیں۔کچھ افراد تو افغانستان کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر کی لندن ملاقات کو بھی اس سے قبل را کے چیف اور اجیت دوول سے ہونے والی ملاقاتوں کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں ۔ معاملہ کچھ بھی ہو، بڑی باریک ہیں واعظ کی چالیں!