تحریر : جویریہ صدیق تاریخ اشاعت     28-07-2021

عورت محض ایک ہیش ٹیگ نہیں

عورت ایک جیتی جاگتی انسان ہے‘ وہ کسی کی ملکیت یا جاگیرنہیں، وہ کوئی بے جان شے نہیں کہ جس کا دل کرے‘ اس کے ساتھ وحشیانہ اور برا سلوک کرے۔ یہ دنیا عورت اور مرد‘دونوں کے لیے تخلیق کی گئی ہے‘ ان دونوں کا اس دنیا پر برابر کا حق ہے، دونوں کے ایک جیسے حقوق ہیں مگر ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے جنسی تخصیص پائی جاتی ہے اور لڑکی کے ساتھ ابتدا سے‘ اس وقت سے ہی ناانصافی شروع ہوجاتی ہے جب اس کے بھائی کو تو اچھی بوٹی‘ انڈا اور دودھ ملتے ہیں لیکن اس کو نظر انداز کیا جاتا ہے حالانکہ نسلِ انسانی کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری آگے چل کر لڑکی پر عائد ہوتی ہے، لہٰذا اس کو اچھی خوارک ملنی چاہیے تاکہ وہ ایک صحت مند نسل کو پروان چڑھاسکے۔ اس کے ساتھ تعلیم کے معاملے میں بھی زیادتی کی جاتی ہے اور لڑکے کو پڑھنے، آگے بڑھنے اور اپنا کیریئر منتخب کرنے کی مکمل آزادی دی جاتی ہے مگر لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے تک کی اجازت نہیں دی جاتی، نوکری کرنے کی اجازت تو خال خال لڑکیوں کو ہی مل پاتی ہے۔ اسی طرح جہاں لڑکا کھیلوں میں حصہ لیتا ہے‘ موبائل استعمال کرتا ہے‘ سینما جاتا ہے‘ لڑکی کو ان کاموں کی اجازت نہیں دی جاتی، اسے صرف گھر کے کاموں تک محدود رکھا جاتا ہے،جب وہ بیاہ کرایک گھر سے دوسرے گھر جاتی ہے‘ تب بھی اس کو کام کرنے والی ملازمہ اور بچے پیدا کرنے والی مشین سمجھا جاتا ہے۔ اکثر جب وہ جہیز کم لے کر جاتی ہے تو کبھی چولہا پھٹ جاتا ہے‘ کبھی کرنٹ لگ جاتا ہے اور کبھی لڑکی کی لاش پھنکے سے جھولتی ہوئی ملتی ہے۔ یہ ظلم عورت پر صرف مرد ہی نہیں بلکہ خود عورت بھی کرتی ہے۔ نئی بہو کو سسرال میں بسنے نہیں دیا جاتا، اس کے ہر کام میں کیڑے نکالے جاتے ہیں، اس کے شوہر کو اکسایا جاتا ہے کہ وہ اس سے لڑے‘ اس کو مارے۔ جب مرد کا ہاتھ ایک بار اٹھ جاتا ہے تو وہ باربار اپنی شریکِ حیات کو مارتا ہے۔ پھر ایک دن ایسی چوٹ لگتی ہے کہ لڑکی جان کی بازی ہار جاتی ہے۔ جب تک وہ زندہ ہوتی ہے‘ چپ چاپ ظلم سہتی رہتی ہے، اگر کسی کو میکے میں بتائے بھی تو عزت کا واسطہ دے کر اسے چپ کرا دیا جاتا ہے۔ کبھی رشتے سے انکار پر لڑکی کہ منہ پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے، کبھی غیرت کے نام پر اس کو قتل کردیا جاتا ہے، کبھی ونی، سوارا کے نام پر اس کو زندہ درگور کردیا جاتا ہے، اس کے بال کاٹ دیے جاتے ہیں، اس کے چہرے کو بگاڑ دیا جاتا ہے، کوئی ہمت کرکے پسند کی شادی کرلے تو اس کو خاوند سمیت موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ اکثر لڑکیاں مر بھی جائیں تو بے وقعت ٹھہرتی ہیں کہ ان کے گھر والے قاتلوں کو معاف کردیتے ہیں، راضی نامے اور صلح صفائی ہوجاتی ہے اور اب تک ایسی ہزاروں لڑکیاں‘ ہمارے ملک‘ ہمارے شہروں میں دفن ہو چکی ہیں جن کو انصاف نہیں مل سکا۔ جو لڑکیاں پورے سماج سے مقابلہ کر کے تعلیم حاصل کرتی اور ملازمت اختیار کرتی ہیں‘ ان کے لیے بھی قدم قدم پر مسائل منہ کھولے کھڑے ہیں۔ ان کو پبلک ٹرانسپورٹس، سڑکوں اور دفاتر میں ہراساں کیا جاتا ہے۔ موٹروے پر پٹرول کے انتظار میں کھڑی عورت کو زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، وہ بھی اس کے بچوں کے سامنے، اس کے بعد سے ہر لڑکی‘ ہر عورت خوف اور بے چینی کا شکار ہے کہ نجانے کب اس کے ساتھ کیا ہو جائے۔ کچھ سنگ دلوں نے کہا کہ عورت اتنی رات کو گھر سے اکیلی باہر کیوں نکلی۔ ان کو یہ بتاتی چلوں کہ حیدرآباد کی قرۃ العین کو اس کے گھر کے اندر قتل کیا گیا ہے۔ وہ شوہر‘ جس نے اس کی حفاظت کرنی تھی‘ وہی اس کا قاتل بن گیا۔ عورت نہ باہر محفوظ ہے نہ ہی گھر میں اور کچھ خواتین کی تو لاشیں اور قبریں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اس معاشرے میں عورت کیا‘ بچیاں اور چھوٹے بچے بھی محفوظ نہیں ہیں۔
جب کسی انسان پر ظلم ہو تو پاکستان کا سوشل میڈیا اس کی آواز بن جاتا ہے، مرد ہو‘ عورت ہو‘ بچہ ہو یا بزرگ شہری، خواجہ سرائوںکے لیے بھی سوشل میڈیا پر یکساں آواز بلند کی جاتی ہے۔ اس کے بعد افسر شاہی کی دوڑیں لگ جاتی ہیں، شاید ان کو بھی لائکس اور فالورز کی چاہ ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا پر معاملے کے وائرل ہونے کی وجہ سے حکومتی ارکان اور انتظامیہ تیزی سے کام کرتے ہیں۔ مجھ سمیت کئی صحافیوں نے جب لاہور کی عاصمہ عزیز کے لیے آواز بلند کی تھی‘ تب جا کر اس کی ایف آئی آر درج ہوئی تھی اور انتظامیہ حرکت میں آئی تھی۔ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ اس معاشرے میں کسی بھی مظلوم کو مدد طلب کرنے کے لیے پہلے ہیش ٹیگ بنوانا پڑتا ہے۔ کبھی مار کھا کر‘ کبھی زخمی ہوکر اور کبھی کبھی تو مرنے کے بعد ہی اس کے لیے انصاف کی اپیل کی جاتی ہے۔ کئی بار لوگ صرف اس لیے کسی معاملے کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ کسی کے نجی معاملے میں ہم کیوں پڑیں حالانکہ یہ نجی معاملہ نہیں ہے‘ پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی بھی مظلوم پر اٹھنے والے ہاتھ کو روکے۔
بے وفائی، ہراساں کرنا، نظر انداز کرنا، جسمانی تشدد، نفسیاتی تشدد، جسمانی خدوخال کا مذاق، پدر شاہی، صنفی امتیاز، بیٹے کی خواہش‘ بچیوں کے ساتھ ناانصافی اور ناروا سلوک، یہ تمام وہ مسائل ہیں جو ہمارے معاشرے کی عورت ہر روز سہتی ہے۔ اگر وہ بیمار ہوجائے تو اس کا مناسب علاج نہیں کرایا جاتا اور اس کی خوارک کاخیال نہیں رکھاجاتا بلکہ اس کے سرپہ سوکن بیٹھا دی جاتی ہے۔ پاکستان میں چھاتی کا سرطان سب سے زیادہ پایا جاتا ہے مگر بیشتر عورتیں اس کا علاج نہیں کروا پاتیں کیونکہ اس بیماری کو شرم کے ساتھ منسلک کردیا گیا ہے، بیشتر عورتیں اس وقت ہسپتال پہنچتی ہیں جب کینسر پورے جسم میں سرایت کر چکا ہوتا ہے۔ اس کے بعد عورت ختم ہوجاتی ہے اور اس کے بچے رُل کر رہ جاتے ہیں۔ ان سب کے علاوہ بھی دو طرح کے استحصال ایسے ہیں جو خواتین کو آئے روز بھگتنا پڑتے ہیں۔ ایک تو ان سے شادی کا جھوٹا وعدہ کرکے ان کو چھوڑ دیا جاتا ہے، دوسرا ان کی تصاویر اور وڈیوز سے ان کو بلیک میل کیا جاتا ہے۔ ان کے سوشل میڈیا اکائونٹس ہیک کرلیے جاتے ہیں، ان کو بدنام کیا جاتا ہے۔ آئے روز سننے میں آتا ہے کہ فلاں اداکارہ یا فلاں لڑکی کی تصاویر لیک ہو گئیں یہ تصاویر لیک کرنے والے اکثر سابق شوہر یا مبینہ عاشق ہوتے ہیں جو پہلے زبردستی ان سے ایسی تصاویر کا مطالبہ کرتے ہیں اور پھر یہ سوشل میڈیا پر وائرل کر دیتے ہیں۔ فیک اور فوٹو شاپڈ تصاویر کے ذریعے بھی لڑکیوں کو بدنام کیا جاتا ہے، کچھ تو بدنامی کے باعث خودکشی کرلیتی ہیں اور کچھ ذلت آمیز زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتی ہیں جبکہ کچھ کو خاندان والے موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔
عورت ہونا آسان نہیں‘ عورت بہو‘ بیٹی‘ بیوی‘ ماں‘ بہن‘ غرض ہر رشتے میں مختلف صورتوں میں استحصال سہتی ہے۔ عورت کے لیے خطرات گھر میں بھی ہیں اور باہر بھی۔ جب کوئی سانحہ ہوتا ہے تو ایک ''جسٹس فار... ‘‘کا ہیش ٹیگ بن جاتا ہے پھر ہیش ٹیگ کے آگے نام تبدیل ہوتا جاتا ہے لیکن سانحات اور مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔ جسٹس فار زینب سے لے کر جسٹس فار عندلیب تک کتنے ہی ہیش ٹیگ بنے مگر زیادتی کے کیسز کی شرح کم نہ ہو سکی۔ جسٹس فار صدف سے لے کر جسٹس فار قرۃ العین تک‘ عورتیں آج بھی گھریلو تشدد کا شکار ہو کر قتل ہورہی ہیں۔ جسٹس فار عاصمہ سے لے کر جسٹس فار نور مقدم تک‘ کسی عورت کے بال کاٹ دیے جاتے ہیں تو کسی کاسر ہی تن سے جدا کر دیا جاتا ہے۔ پھر حیلے بہانے تراشے جاتے ہیں کہ عورت بولی کیوں؟ عورت گھر سے باہر کیوں نکلی؟ عورت کا لباس کیسا تھا؟ کل کو یہ بھی کہا جائے گا کہ عورت پیدا ہی کیوں ہوئی۔ اس وقت اگر کوئی سوال بنتا ہے تو وہ یہ کہ اسے قتل کیوں کیا گیا؟ اس کے ساتھ زیادتی کیوں ہوئی؟ کیا ہمارے معاشرے کی تربیت میں کوئی کمی رہ گئی ہے ؟ ہم دینی تعلیم سے اتنے دور کیوں ہیں ؟ نئی نسل منشیات کی طرف کیوں راغب ہورہی ہے۔ حالیہ تینوں بڑے قتل کیسز (نور مقدم، قرۃ العین اور صائمہ رضا)میں مجرم نشے کے عادی پائے گئے ہیں۔ میرا یہی کہنا ہے کہ عورت ایک ہیش ٹیگ نہیں‘ وہ بھی انسان ہے، اس کے لیے انصاف کی اپیل ضرور کریں مگر اس سے پہلے ان خطرات اور ان وجوہات کا سدباب کریں جن کی وجہ سے ایسے مسائل جنم لیتے ہیں تا کہ آئندہ کوئی اور عورت سوشل میڈیا کا ہیش ٹیگ نہ بنے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved