تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     29-07-2021

اللہ اور اس کے رسولﷺ کو راضی کریں!

گزشتہ تھوڑے دنوں کے اندر اندر اسلام آباد جیسے محفوظ اور مہذب شہر میں جو دو انسانیت سوز واقعات ہوئے‘ انہوں نے ایک بار سارے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پہلا واقعہ عثمان مرزا کا اپنے ساتھیوں سمیت ایک نوجوان جوڑے پر تشدد، زیادتی اور بلیک میلنگ کرنا اور اس سارے شرمناک واقعے کی وڈیو وائرل کرنا تھا۔ اس وڈیو کی وجہ سے جہاں عثمان مرزا قانون کی گرفت میں آیا، وہاں متاثرہ جوڑے کی جو بدنامی ہوئی وہ اس سارے المناک سانحے کا ایک ایسا حصہ ہے جسے فی الحال کوئی زیر بحث نہیں لا رہا۔ دوسرا واقعہ نور مقدم کا بہیمانہ قتل ہے اور اس پر سوشل میڈیا میں آنے والی تفصیلات اتنی دردناک اور وحشیانہ ہیں کہ سوچ کر دل کانپ اٹھتا ہے۔
ایمانداری کی بات ہے کہ ان دونوں واقعات کو کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور کوئی صاحب دل اور صاحب ضمیر اس پر دکھی ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا‘ مگر صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ہاں سوشل میڈیا لبرل طبقے کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے اور کسی واقعے پر سوشل میڈیا پر چلنے والے عوامی ٹرینڈ سے خواہ منطقی استدلال کے ذریعے ہی، تھوڑا سا اختلاف بھی کیا جائے تو سارے کا سارا لبرل طبقہ پنجے جھاڑ کر آپ کے پیچھے پڑ جاتا ہے اور آپ کو اپنے اصولی موقف کو ایک طرف رکھتے ہوئے عوامی رائے عامہ کے آگے سرنڈر کرکے معذرت کرتے ہی بنتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے خواتین کے لباس کو ملک میں بڑھتے ہوئے ریپ کے واقعات کی ایک وجہ بیان کی تو اس بیان کی حقیقی روح کو سمجھنے کے بجائے سب لٹھ لے کر ان پر چڑھ دوڑے‘ حالانکہ اس بیان پر علمی بحث ہو سکتی تھی اور ہمارے خطے کی روایات، سوسائٹی میں گھٹن کے اثرات، سماجی بناوٹ اور اخلاقیات سے عاری پروان چڑھنے والی نسل سے بنے جانے والے اس بوسیدہ سوشل فیبرک کو رفو کیا جا سکتا تھا لیکن ہوا کیا؟خان صاحب نے حسبِ معمول یُو ٹرن لے لیا۔
ہمارا لبرل طبقہ ہر بات پر مغرب کی مثال دینے لگ جاتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ لباس کا قابل اعتراض حد تک مختصر ہونا اب مغرب میں اچنبھے کی نہیں بلکہ روٹین کی بات ہے لیکن ایمانداری سے بتائیں کہ کیا ہمارے ہاں ایسا ہے؟ امریکہ میں ایک گلی سے گزرتے ہوئے ہمارے پاس سے ایک گوری‘ جس نے آدھ بالشت کی سکرٹ اور پون بالشت کا بلائوز پہنا ہوا تھا‘ گزری۔ عامر نے مجھ سے پوچھا: اگر یہ لڑکی اس لباس میں پاکستان کی کسی سڑک سے گزرے تو کیا ہوگا؟ میں نے کہا: سارا بازار اسے اس وقت تک اپنی نظروں کے برموں سے چھیدتا رہے گا جب تک یہ گلی کا اگلا موڑ مڑ نہیں جاتی؛ تاہم اگلا موڑ مڑنے کی نوبت تب آئے گی اگر اسی دوران کسی بگڑے ہوئے امیر زادے یا وڈیرے کے بیٹے نے اسے اٹھا کر اپنی لینڈ کروزر میں نہ ڈال لیا۔ ہماری فرسٹیٹڈ سوسائٹی کو پیسے، طاقت کے نشے، قانون کی بے بسی اور زورآور کے اندر چھپے ہوئے حیوان نے ہر قسم کی اخلاقیات کا قبرستان بنا کر رکھ دیا ہے۔ لبرل طبقہ سارے معاشرے کو اپنے رنگ میں رنگ کر نتائج لینے پر ادھار کھائے بیٹھا ہے۔ یہ طبقہ چاہتا ہے مرد تو اپنی نگاہ نیچی رکھیں مگر عورتیں اپنی اوڑھنیوں کے پلو نیچے کرنے کے بجائے جو مرضی کریں، ان پر نہ کوئی روک تھام ہو اور نہ ہی کوئی اعتراض۔ یہ دوطرفہ ذمہ داری اور پابندی کا معاملہ ہے اور ہر دو فریقین کو اخلاقیات اور مذہب کی طرف سے عائد ذمہ داری اور پابندی کو پورا کرنا پڑے گا‘ تبھی اس کے مثبت اثرات نکلیں گے اور اس میں حکومت سے زیادہ والدین کو اپنا فریضہ سرانجام دینا ہوگا۔
عثمان مرزا اور اس کے ساتھی اب قانون کی گرفت میں ہیں اور میری دعا اور خواہش ہے کہ وہ کیفر کردار تک پہنچیں‘ لیکن اس بات کی پروا کیے بغیر کہ لبرل اس پر کیا چیخ و پکار کریں گے اور مجھے کس کس لقب سے نوازیں گے، میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس سارے فساد کی ابتدا ہی اس بات سے ہوئی کہ ایک لڑکی غیر محرم مرد کے ساتھ ایک ایسے فلیٹ میں‘ جہاں تنہائی تھی‘ گئی ہی کیوں تھی؟ اب اس کے خواہ ہزار جواز تراشے جائیں مگر ساری خرابی کی جڑ یہی حرکت تھی۔ اگر یہ جوڑا اس فلیٹ میں ناگفتہ حالت میں نہ ہوتا تو یہ سارا قصہ ہی نہ ہوتا۔ مجھے بخوبی علم ہے کہ میری اس بات کو سابقہ سی سی پی او لاہور محمد عمر شیخ کے اس بیان سے جوڑا جا سکتا ہے جو اس نے موٹروے پر ہونے والے واقعے پر دیا تھا کہ آدھی رات کو اس خاتون کو اکیلے موٹروے پر نہیں نکلنا چاہیے تھا مگر یہ معاملہ اس سے ہٹ کر ہے۔ ابھی ہمارا معاشرے اور قانون (کم از کم قانون کی کتابوں کی حد تک) اس چیز کی اجازت نہیں دیتاکہ مرد اور عورت‘ خواہ اپنی رضا سے ہی سہی، اخلاقیات کی وہ حدیں پار کر جائیں جو قانونی، اخلاقی، سماجی اور مذہبی طور پر ناجائز کے زمرے میں آتی ہیں۔ رسول کریمﷺ کا فرمان ہے: غیرمحرم مرد اور عورت کی تنہائی میں شیطان ان کا شریک کار ہوتا ہے۔ دراصل یہ شیطان انسان کا اپنا نفس ہے جو بیک وقت بہت کمزور بھی ہے اور وحشی بھی‘ جو ہر دو صورتوں میں اسے دین و دنیا میں رسوا کرکے رکھ دیتا ہے۔
عثمان مرزا اور اس کے ساتھی اب قانون کی گرفت میں ہیں مگر وہ اپ لوڈ کی گئی وڈیوز اب نہ کسی کی گرفت میں ہیں اور نہ قابو میں۔ کیا عثمان مرزا کو سزا ملنے سے وہ رسوائی واپس ہو سکتی ہے جو اس جوڑے کا مقدر بنی ہے؟ ہمارے ہاں ایک گمراہ کن تصور یہ ہے کہ مرد تو نہائے دھوئے گھوڑے ہوتے ہیں۔ یہ تصور یقینا اسلام کے اخلاقی اصولوں کے منافی ہے، مگر کیا کیا جائے یہ معاشرہ پہلے کون سا اسلامی اخلاقیات کا پابند ہے اور دین کی روح سے ہم آہنگ کہ اسے اس بات پر شرمندہ کیا جائے؛ تاہم اس اصولی بات کے باوجود کہ ذمہ داری، جزا اور سزا کے معاملے میں اللہ کسی مرد کو نہ تو کسی قسم کی چھوٹ دے گا اور نہ ہی رعایتی نمبر کہ اس مالک کائنات کے نزدیک بدکار مرد اور بدکار عورت کے درمیان نہ کسی قسم کی تفریق ہے اور نہ ہی کوئی رعایت‘ لیکن مرد اور عورت کے اسلامی تشخص سے ہٹ کر بات کریں تو کڑوا سچ یہی ہے کہ یہ وہ خائن اور منافق معاشرہ ہے جو مرد کو تو معاف کر دیتا ہے مگر عورت کو کسی صورت معاف نہیں کرتا۔ ایسے میں آپ یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ لوگ ایسی وڈیوز والی عورتوں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور معاشرے میں ان کا کیا عزت رہ جاتی ہے۔ بقول ڈاکٹر علی شریعتی کے مجھے اس وقت ایک عورت کو دیکھ کر دکھ ہوتا ہے جب اس کی ساکھ پر دھبہ لگتا ہے تو وہ اسے مٹانے کے لیے داڑھی نہیں رکھ سکتی۔
نور مقدم کا واقعہ بھی اسی بڑھتی ہوئی لاپروائی کا نتیجہ ہے جو والدین پہلے پہل روشن خیالی کے نام پر دکھاتے ہیں اور بعد میں پچھتاتے ہیں۔ ایک لڑکی گھر سے جاکر نامحرم مرد کے ساتھ رہتی ہے۔ مرد بھی وہ جس کے اندر دو حیوان ہیں۔ ایک نفس کا حیوان اور دوسرا ذہنی مریض ہونے کا حیوان۔ لڑکی ان دو حیوانوں کی موجودگی میں ان حدود کو پار کرکے لڑکے کے ساتھ تنہائی میں دن رات گزارتی ہے‘ جسے اللہ اور اس کے رسول نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ میری دعا ہے کہ ان دونوں واقعات میں مجرموں کو قرار واقعی سزا ملے اور مگر اس کے ساتھ ساتھ والدین سے بھی استدعا ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو اس بھیڑیوں جیسے معاشرے میں محتاط زندگی گزارنے کا درس دیں اور ان سے لاپروائی نہ کریں۔ کانچ سے زیادہ نازک عزت و عفت والی بیٹیوں کی آزادی کی حد وہاں ختم ہو جانی چاہیے جہاں سے نفس کے بپھرے سانڈ کی حد شروع ہوتی ہے۔ بھلے سانڈ کو بعد میں گولی مار دی جائے مگر عصمت کا نازک شیشہ ایک بار ٹوٹ جائے تو اس کی تلافی ممکن نہیں۔ رہ گئی بات کہ لبرل کیا کہتے ہیں؟ مجھے اس بات کی پروا نہیں۔ میرا اللہ اور اس کا رسولﷺ‘ راضی ہونے چاہئیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved