میں اپنے دفتر میں روزمرہ کے کام میں مصروف تھا کہ میرے موبائل فون کی گھنٹی بجنا شروع ہوئی۔ کال کرنے والے کا نمبر سیو نہ ہونے کی وجہ سے میں نے سوچا کہ اپنا کام ختم کرنے کے بعد اس نمبر پر کال بیک کر لوں گا‘ لیکن کیا کرتا کہ اس ''اَن نَون‘‘ نمبر سے مسلسل کال پر کال آنا شروع ہو گئی۔ میں نے فون اٹھایا تو دوسری جانب سے ایک نوجوان لڑکے کی آواز سنائی دی: عمران یعقوب خان سے بات ہو سکتی ہے؟ ''جی! فرمائیں میں عمران یعقوب ہی بول رہا ہوں‘‘ میں نے جواباً کہا۔
''میرا نام طارق عظیم ہے اور میں نے ایم اے انگلش کر رکھا ہے، میں 7 مختلف بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر 35 ہزار روپے ماہانہ کماتا ہوں اور اس سے اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتا ہوں۔ میری والدہ شوگر، بلڈ پریشر اور جوڑوں کے درد کی مریضہ ہیں۔ والد 12 سال پہلے انتقال کر چکے ہیں۔ اب میں اپنی 2 چھوٹی بہنوں اور ایک چھوٹے بھائی کا واحد کفیل ہوں۔ میں ایک کالونی میں کرایہ کے گھر میں رہتا ہوں‘ جس کا ماہانہ کرایہ 15 ہزار روپے ہے۔ باوجود ہزار کوشش کے رشوت اور سفارش نہ ہونے کی وجہ سے مجھے کوئی نوکری نہیں مل سکی۔ میری والدہ کی ہر مہینے ساڑھے 7 ہزار روپے کی دوائیاں آتی ہیں۔ اسی طرح 5 سے 6 ہزار روپے ماہانہ بجلی، پانی اور گیس کے بلوں کی مد میں ادا کرنا پڑتے ہیں۔ ساڑھے 4 ہزار روپے ماہانہ چھوٹے بہن بھائیوں کی سکول فیس میں چلے جاتے ہیں۔ میرے پاس باقی صرف 2500 سے 3000 روپے بچتے ہیں۔ آپ ہی بتائیں کہ ان پیسوں سے میں اپنی موٹر سائیکل میں پٹرول ڈلوائوں یا پھر اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ بھرنے کے لیے کوئی راشن لائوں؟ اب تو صرف میری گلی ہی نہیں بلکہ علاقے کے دیگر دکان داروں نے بھی مجھے ادھار دینا بند کر دیا ہے۔ کیا آپ میری یہ درخواست حکومت تک پہنچا سکتے ہیں کہ وہ یا تو مجھ جیسے ہزاروں پڑھے لکھے بے روزگاروں کے لیے کسی روزگار کا کوئی انتظام کر دے اور یا پھر کسی مفتی سے ہمیں یہ فتویٰ لے دیں کہ بھوک مٹانے کے لیے کی جانے والی خود کشی حرام نہیں ہوتی۔‘‘
طارق عظیم مسلسل بولتا رہا اور میں بالکل گنگ ہو کر اس کی یہ ساری گفتگو سنتا رہا کیونکہ میرے پاس نہ تو اس کے کسی مسئلے کا کوئی حل موجود تھا اور نہ ہی اس کی باتوں کا کوئی جواب۔ پھر بھی میں نے اپنے تئیں اسے تسلی دینے کی کوشش کی اور ارباب اختیار کی توجہ نوجوانوں کے لیے باعزت روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی طرف دلانے کا وعدہ بھی کیا۔ طارق عظیم کے منہ سے سنی گئی یہ دکھی داستان کوئی انوکھی یا منفرد کہانی نہیں‘ ہمارے ارد گرد روزانہ کی بنیاد پر ایسے کئی واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ بہت پرانی بات نہیں، حال ہی میں چھوٹی عید سے کچھ دن پہلے جڑانوالہ کا ایک شخص اپنے بچوں کو عید کے کپڑے دلانے گھر سے لے کر نکلا، بس میں بٹھا کر شیخوپورہ لایا اور 4 معصوم بچوں کو پانی کی ظالم لہروں میں پھینک دیا۔ بچوں کی خوشیاں بھلا کس والد کو عزیز نہیں مگر اس کے دل پر کیا گزرتی ہو گی جب بچے عید کے کپڑوں کا تقاضا کرتے ہوں اور غربت کے ہاتھوں مجبور والد کے پاس چند سو روپے بھی نہ ہوں کہ وہ اپنے جگر کے ٹکڑوں کی اس معصوم خواہش کو پورا کر سکے۔
یہ کوئی ایک واقعہ نہیں، آئے روز اس طرح کے واقعات شہ سرخیوں میں جگہ پاتے ہیں۔ ورلڈ بینک کے ایک تخمینے کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح 4.4 فیصد سے بڑھ کر 5.4 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ ورلڈ بینک کے پیمانے کے مطابق 2 ڈالر یومیہ سے کم قوت خرید رکھنے والا شخص غربت کی کیٹیگری میں آتا ہے۔ پاکستان میں 20 لاکھ سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ نچلے متوسط طبقے کی شرح بھی کچھ کم نہیں جن کی ایک دن کی آمدنی صرف 3.2 ڈالر ہے۔
گزشتہ 2 برسوں میں بڑھتے ہوئے افراط زر خصوصاً اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے بھی مزید لاکھوں افراد غربت کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ پاکستان میں متمول طبقہ ایک اندازے کے مطابق اپنی آمدن کا تقریباً 20 سے 30 فیصد حصہ خوراک پر خرچ کرتا ہے لیکن نچلے متوسط اور غریب طبقے کے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنی آمدن کا 70 سے 80 فیصد حصہ خوراک پر خرچ کرتی ہے۔ اس لیے کہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے نے اس طبقے کو بری طرح متاثر کیا اور بیشتر کو مزید غربت کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ماہرین معاشیات کے خیال میں صرف گزشتہ 2 برسوں میں افراطِ زر میں کمی کی وجہ سے تقریباً 40 لاکھ نئے لوگ غربت کا شکار بنے ہیں۔حکومتی وزیر اور مشیر روزانہ اپنی معاشی فتح کا ڈھول پیٹتے نظر آتے ہیں جبکہ زمینی حقائق اُس سے یکسر مختلف کہانی بیان کر رہے ہیں۔ وفاقی ادارہ شماریات نے مہنگائی کے حوالے سے ہفتہ وار رپورٹ جاری کی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ مالی سال 2021-22 کے وفاقی بجٹ کے اثرات مہنگائی میں مسلسل اضافے کی صورت میں ظاہر ہورہے ہیں۔ بجٹ نافذ ہونے والے دن یکم جولائی کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران بھی مہنگائی کی شرح میں 0.53 فیصد اضافہ ہوا تھا جبکہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران چینی، آلو، ٹماٹر، انڈے، پیاز، لہسن، مٹن، بیف، ویجی ٹیبل گھی، ایل پی جی، صابن، دال چنا اور کھلے دودھ سمیت مجموعی طور پر23 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔
میں نے ایک رپورٹ پڑھی کہ امسال وطن عزیز میں قربانی کے رجحان میں کمی دیکھنے میں آئی‘ جانوروں کی قربانی میں 30 فیصد کمی ہوئی۔ 325 ارب کے آس پاس جانوروں کی خریدوفروخت ہو پائی۔ مہنگائی کی وجہ سے اجتماعی قربانی کے رجحان میں 30 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا، بکرے اور چھترے سمیت چھوٹا جانور متوسط طبقے کی خرید سے باہر نظر آیا۔ گزشتہ سال 25 ہزار تک میں ملنے والا چھوٹا جانور بھی اس سال 40 سے 45 ہزار روپے سے کم نہیں تھا۔ آزاد کشمیر کے انتخابات میں کامیابی کے بعد آج کل ٹی وی آن کریں تو حکومت نواز تجزیہ کار حکومت کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔ ان انتخابات میں کامیابی کو وزیر اعظم کی بہترین پالیسیوں کا نتیجہ قراردیا جا رہا ہے لیکن اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو سرکار کی مہنگائی کا چہرہ نظرآتا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کا مشن تو غربت کا خاتمہ تھا لیکن پاکستان بیورو آف شماریات کے حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں انتہائی کسمپرسی کے شکار گھرانوں کی تعداد 7.24 سے 11.94 بڑھ کر فیصد ہوگئی ہے۔ موجودہ حکومت نے عوام کو دینے تو 50 لاکھ گھر تھے لیکن اس رپورٹ کے مطابق ذاتی گھر رکھنے والوں کی شرح 84 سے کم ہو کر 81 فیصد ہو گئی۔ یہی نہیں دوسرے اعدادوشمار کا بھی جائزہ لیں تو صورتحال کچھ زیادہ اچھی نظر نہیں آتی۔ غذائی عدم تحفظ کا شکار آبادی کی شرح 16 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ وہ گھرانے جن کی معاشی حالت میں فرق نہیں پڑا‘ ان کی شرح44.08 سے 45.73 فیصد ہو گئی ہے۔ معاشی صورتحال میں بہتری والے گھرانوں کی شرح 16.48 سے کم ہوکر12.7 فیصد تک آ گئی ہے۔ پائپ سے پانی حاصل کرنے والی آبادی کی شرح 26.7 سے کم ہوکر22.3 فیصد اور ہینڈ پمپ سے پانی حاصل کرنے والوں کی تعداد26.4 سے کم ہوکر23.3 فیصد جبکہ موٹر پمپ سے پانی حاصل کرنے والوں کی شرح32.5 سے کم ہوکر30 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ بجلی کی سہولت والی آبادی کی شرح93.45 سے کم ہوکر90.91 فیصد ہوگئی۔ وزیر اعظم عمران خان اگر واقعی 2023ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے ایک بار پھر اپنی حکومت بنانا چاہتے ہیں تو انہیں کچھ بھی کرکے مہنگائی کے اس جن کو بوتل میں بند کرنا ہو گا۔