اسلام نے بے قصور انسان کی جان کو بڑی حرمت عطا کی ہے حتیٰ کہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''جس نے کسی (بے قصور) انسانی جان کو قصاص یا فساد فی الارض (کے جرم کے ارتکاب) کے بغیر قتل کیا تو گویا اُس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی ایک (بے قصور انسانی )جان کو بچایا تو گویا اس نے تمام انسانوں (کی زندگی) کو بچا لیا‘‘ (المائدہ: 32)۔ اس آیت مبارکہ میں نفسِ مؤمن یا نفسِ مسلم کی بات نہیں کہی گئی بلکہ نفسِ انسانی کی بات فرمائی گئی ہے، گویا حرمتِ جان، زبان، رنگ و نسل، مذہب اور چھوٹے بڑے کی تمیز کے بغیر انسانیت کی اجتماعی قدر ہے اور اس کی حفاظت انسانیت کی اجتماعی ذمہ داری ہے، سوائے اس کے کہ انسان کسی ایسے جرم کا ارتکاب کرے کہ اس کی جان کی حرمت شریعت اور قانون کی نظر میں برقرار نہ رہے اور اس کی جان مباح ہو جائے، جیسے: کسی کو ناحق قتل کرنا، امامِ برحق کے خلاف مسلّح بغاوت کرنا، اِغوا برائے تاوان، شادی شدہ کا زنا کرنا، اللہ کی زمین میں فساد برپا کرنا وغیرہ، اسے آج کل ''دہشت گردی‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے، عربی میں اسے ''اِرْھَابْ‘‘ کہتے ہیں اور قرآنِ کریم میں اسے ''حِرَابَہ‘‘ اور ''فَسَاد فِی الْاَرْض‘‘ سے تعبیر فرمایا گیا ہے؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں قصاص کی بابت فرمایا: ''اور ہم نے (تورات میں) ان پر یہ فرض کیا تھا کہ جان کا بدلہ جان، آنکھ کا بدلہ آنکھ، ناک کا بدلہ ناک، کان کا بدلہ کان اور دانت کا بدلہ دانت ہے اور زخموں میں (بھی) بدلہ ہے، تو جس نے خوشی سے بدلہ دیا تو وہ اس (کے گناہ) کا کفارہ ہے اور جو اللہ کے نازل کیے ہوئے (احکام) کے موافق فیصلہ نہ کریں، سو وہی لوگ ظالم ہیں‘‘ (المائدہ: 45)۔
حدیث پاک میں قتلِ ناحق کے جرم کی سنگینی کی بابت فرمایا: ''اللہ پر اس دنیا کا خاتمہ ایک مسلمان کے (ناحق) قتل کے مقابلے میں معمولی بات ہے‘‘ (ترمذی: 1395)، نیز فرمایا: ''اگر زمین و آسمان کے سارے رہنے والے ایک مؤمن کے (ناحق) قتل میں شریک ہوں تو اُن سب کو اللہ تعالیٰ اوندھے منہ جہنم میں ڈالے گا‘‘ (ترمذی: 1398)۔ ایک حدیث مبارک میں ہے: ''پانچ یا سات افراد نے ایک شخص کودھوکے سے قتل کر دیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اُن سب کو قصاص میں قتل کر دیا اور فرمایا: اگر صنعاء (یمن) کے سارے رہنے والے ایک قتلِ ناحق میں شریک ہوں تو میں اُن سب کو قصاص میں قتل کر دوں گا‘‘ (موطا امام مالک: 3246)۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمایا: ''اے عقل والو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے‘‘ (البقرہ: 179)۔ مقامِ غور ہے کہ قصاص میں تو قاتل کی جان لی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں اسے ''حیات‘‘ سے تعبیر فرما رہا ہے، یہ اس لیے ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے قانونِ قصاص کو بلاامتیاز نافذ کردیا جائے تو پھر لوگ کسی کی جان لینے سے پہلے سو بار سوچیں گے کہ قصاص میں اُن کی جان بھی لی جا سکتی ہے، سو اس سے بحیثیتِ مجموعی معاشرے میں رہنے والے افراد کی زندگیاں محفوظ ہو جائیں گی۔
''حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں: میں نے دیکھا: رسول اللہﷺ کعبہ کا طواف فرما رہے تھے:(اے کعبہ!) تو کتنا پاکیزہ ہے اور تیری خوشبو کتنی عمدہ ہے، تو کتنا عظیم ہے اور تیری حرمت کس قدرعظیم ہے، اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ و قدرت میں محمد کی جان ہے، ایک مومن کی جان و مال کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے (بھی) زیادہ ہے اور یہ کہ ہم اُس کے بارے میں حسنِ ظن رکھیں‘‘ (ابن ماجہ: 3932)۔
ہمارا ملک ماضی میں بڑے پیمانے پر دہشت گردی کا شکار رہا ہے، ہم داخلی اور خارجی دونوں طرح کے دشمنوں کا ہدف رہے ہیں، دہشت گردی کے خلاف امریکا کے زیرِ قیادت عالمی جنگ میں شراکت دار بن کر ہم نے بے پناہ جانی نقصان اٹھایا ہے۔ اگرچہ ہماری مسلّح افواج اور سلامتی کے اداروں نے بے پناہ قربانیاں دے کر دہشت گردی کی لعنت پر کافی حد تک قابو پایا ہے، لیکن اب بھی ہم اس خطرے سے پوری طرح محفوظ نہیں ہیں، ملک کے مختلف حصوں میں اِکّا دُکّا واقعات اب بھی رونما ہو رہے ہیں، کیونکہ بھارت کی خفیہ ایجنسی دہشت گردی کا پورا نیٹ ورک قائم کیے ہوئے ہے، افغانستان کی سرزمین بھی ہمارے خلاف دہشت گردوں کی محفوظ کمین گاہ ہے۔ لیکن آج ہم دہشت گردی سے تھوڑی دیر کے لیے قطعِ نظر کرکے حکومت اور قارئین کی توجہ اپنے حالات کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں انسانی جانوں کا اِتلاف بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے، اس کی چند وجوہ درج ذیل ہیں:
بڑے پیمانے پر ٹریفک حادثات ہو رہے ہیں، ریلوے کے حادثات، شاہراہوں پر حادثات اور حالیہ برسوں میں ہوائی جہازوں کے حادثات اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ ہمارے ہاں ٹریفک حادثات کا کوئی مرتّب ڈیٹا (اعداد و شمار) نہیں ہے، جب کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے تو ذرائع ابلاغ پر رونق لگ جاتی ہے، پھر یہ ذرائع آگے بڑھ جاتے ہیں اور وہ قصۂ پارینہ بن جاتا ہے، حالانکہ یہ تسلسل ہے، آج تک کوئی سائنسی تجزیہ ہمارے سامنے نہیں آیا کہ اتنی کثرت سے حادثات کا سبب کیا ہے۔ ہماری نظر میں اس کے کئی اسباب ہیں: ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل درآمد نہ ہونا، حدِّ رفتار کی پابندی نہ کرنا، سڑکوں کا شکستہ ہونا، ٹریفک کا لائنیں توڑتے رہنا، لائسنس اور مطلوبہ مہارت کے بغیر گاڑیاں چلانا، متموّل لوگوں کی نوخیز نسل اور کم عمر لڑکوں کا کرّوفر کے ساتھ گاڑیاں چلانا اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کو اپنے لیے باعثِ افتخار سمجھنا، پبلک ٹرانسپورٹ کے ڈرائیوروں کے لیے عمر، صحت اور مہارت کا کوئی معیار نہ ہونا، ان کے ڈرائیوروں کے لیے اوقاتِ کار کا تعیّن نہ ہونا اور لمبے روٹوں پر مسلسل بارہ تا چوبیس گھنٹے گاڑیاں چلانا، گاڑیوں کا بین الاقوامی قوانین کے مطابق مناسب وقفے کے بعد فٹنس ٹیسٹ نہ ہونا، ڈرائیوروں کا مختلف نشہ آور چیزوں کا عادی ہونا، بسوں، ٹرکوں، ٹرالروں اور ہر طرح کی پبلک ٹرانسپورٹ پر مطلوبہ استعداد سے بڑھ کر بوجھ لادنا، پٹرول ٹینکر کا غیر معیاری ہونا وغیرہ۔
گزشتہ کچھ برسوں سے خواتین اور نوعمر بچیوں کے ساتھ زیادتی اور پھر قتل کے واقعات تسلسل کے ساتھ رونما ہو رہے ہیں، آئے دن نئے قوانین بنائے جاتے ہیں لیکن وہ صرف قانون کی کتابوں میں درج ہوتے ہیں، برسرِ زمین نافذ نہیں ہوتے۔ نظامِ عدل حق داروں اور مظلوموں کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہیں، استغاثہ کا مقدمات کی تفتیش اور عدالت میں پیش کاری کے معیار کا انتہائی پست ہونا، رشوت کاچلن عام ہونا، ان تمام اسباب نے ہمارے نظامِ قانون و عدل کو بالکل ناکارہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ ہر طرح کے ادارے بھی موجود ہیں، ان کی بیش بہا مراعات اور کروفر بھی موجود ہے، لیکن عدل مفقود ہے۔ نت نئے قوانین بنا کر اس کا ازالہ کرنے کی بے سود کوشش کی جاتی ہے، اگر موجودہ قوانین کو بھی بلاامتیاز لفظاً و معناً نافذ کیا جائے تو اس کے مثبت نتائج ازخود نظر آئیں گے۔
ماضی کے برعکس تسلسل کے ساتھ ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جو اس سے پہلے ناقابلِ تصور تھے، یعنی اولاد کا ماں باپ کو قتل کرنا، ماں باپ کا اولاد کو قتل کرنا، شوہر اور بیوی کا ایک دوسرے کو قتل کرنا اور ایک دوسرے کے قتل کی سازش میں شریک ہونا، جائیداد کے جلد حصول کی خاطر والدین کو قتل کرنا، بے قصور بچوں کو حقِ حیات سے محروم کر دینا، پسند کی شادی کو قبائلی روایات کے تحت ناقابل معافی جرم تصور کرکے شادی شدہ جوڑے کو قتل کر دینا، ونی‘ کاروکاری اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات آئے دن رپورٹ ہوتے رہتے ہیں، لیکن حکومتی سطح پر ان کا کوئی تدارک نہیں ہوتا۔ ہمارا معاشرہ بحیثیتِ مجموعی انتہا پسند ہے، جب کوئی واقعہ ہوتا ہے تو ہم پر جذباتیت کا اتنا غلبہ ہوتا ہے کہ حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں اور اگر کوئی اس جانب متوجہ کرے تو سب اس کے درپیٔ آزار ہو جاتے ہیں اور یہ تاثر دیتے ہیں کہ گویا یہ شخص اس ظلم کا جواز پیش کر رہا ہے، حاشا وکلّا! ایسا نہیں ہوتا، لیکن کیا تھوڑی دیر رک کر ہم یہ سوچنے کے لیے تیار ہیں کہ اس طرح کے واقعات کے اسباب میں سے اولاد کی آزادی، بے راہ روی، اپنی دینی‘ تہذیبی اور معاشرتی اقدار سے بغاوت جیسے اسباب ہوتے ہیں اور پھر ان کا انجام ایسے سانحات پر ہوتا ہے۔ ایک صاحب نے اپنے آرٹیکل میں لکھا ہے: ''نور مقدم اور اس کا قاتل رشتۂ نکاح کے بغیر دوستوں کی طرح اکٹھے رہتے تھے‘‘، گویا دونوں کے والدین نے اپنی اولاد کو اس کی آزادی دے رکھی تھی، کاش کہ ہمارے متموّل لوگ اپنی اولاد کو بے راہ روی سے بچائیں تاکہ وہ ایسے انجام سے دوچار نہ ہوں۔ ''میرا جسم میری مرضی‘‘ کا سحر ٹوٹتا ہے تو صرف میرا جسم رہ جاتا ہے، میری مرضی مفقود ہو جاتی ہے، یہی بات شعوری یا لاشعوری طور پر وزیراعظم نے کہی تو سب لبرل ہاتھ دھو کر ان کے پیچھے پڑ گئے۔ ہم بھی پوری قوم کے ساتھ اس مطالبے میں شریک ہیں کہ مجرم کو سرِعام عبرت ناک سزا دی جائے۔
ناقص میٹریل، ٹھیکیداروں کی دولت کمانے کی ہوس، ڈیزائننگ کی خرابی اور زائد المیعاد ہونے کے باعث آئے دن عمارتیں منہدم ہوتی رہتی ہیں، لوگ ملبے تلے دب کر جان کی بازی ہار جاتے ہیں، بلڈنگ کنٹرول کے ادارے موجود ہیں، لیکن رشوت کی بہتات نے ان اداروں کو بے اثر بناکر رکھ دیا ہے، مقامی حکومتوں کے انتظامات انتہائی ناقص ہیں، ادارے مفلوج اور غیر فعال ہیں، ارتکازِ اقتدار کا کلچر عام ہے، کوئی بھی نچلی سطح تک اختیارات اور وسائل کی منتقلی کے لیے تیار نہیں ہے، اس لیے سارے پاکستان میں مقامی حکومتوں کے ادارے غیر فعال ہیں۔ کان کنی، صنعتوں، موٹرویز، ڈیموں، بندرگاہوں اور بڑے بڑے اقتصادی منصوبوں میں دوسرے علاقوں سے آکر خدمات انجام دینے والوں کو تحفظ نہیں ملتا۔ آئے دن بلوچستان میں نسل اور زبان کی بنیاد پر قتل وغارت کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں، ابلاغیات کا بندوبست وقتی طور پر شور مچاتا ہے لیکن پھر یہ شور دب جاتا ہے،کوئی نیا واقعہ رونما ہوتا ہے تو پھر رونقیں لگ جاتی ہیں۔ الغرض میڈیا کو صرف اپنی دکان کی رونقیں سجانے اور بڑھانے سے غرض ہے، انسانی مسائل صرف اُن کی پیشہ ورانہ ضرورت ہیں، مشن اور مشنری جذبے کا فقدان ہے۔ اگرکہیں بس یا ریل کا حادثہ ہو جائے تو بعض اوقات لوگ میتوں کو سنبھالنے اور زخمیوں کو سہارا دینے کے بجائے لوٹ مار میں لگ جاتے ہیں، تحفظ فراہم کرنے والے اور سلامتی کے ادارے جب تک پہنچتے ہیں، سب لٹ چکے ہوتے ہیں، اس کا کوئی مؤثر تدارک ہونا چاہیے۔