کسی بھی ملک یا ریاست کی معیشت کے مضبوط یا کمزور ہونے کا دارومدار کسی حد تک اس کے ٹیکس نظام پر ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ قانون بنا سکتی ہے لیکن اس پر صحیح معنوں میں عمل درآمد ٹیکس سے متعلق ڈیپارٹمنٹس نے کرنا ہوتا ہے۔ اگر قانون کو اس کی اصل روح کے مطابق لاگو کیا جائے اور مانیٹرنگ کا بااثر نظام موجود ہو تو سرکار کے ساتھ عام آدمی کو بھی اس کا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ پاکستان کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ قوانین بن جاتے ہیں لیکن ان پر عمل کرنا ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ اگر مجبوراً عمل کرنا پڑ بھی جائے تو انہیں اپنی مرضی کے مطابق توڑ مروڑ لیا جاتا ہے۔ اگر ایسا بھی ممکن نہ ہو تو سٹے آرڈر کے سہارے کئی سال گزار لیے جاتے ہیں۔ مسابقتی کمیشن آف پاکستان کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے‘ جس پر قائم ہوتے ہی سٹے لے لیا گیا تھا جو تقریباً گیارہ سال تک چلا۔ اس عرصے میں یہ ادارہ غیر فعال رہا۔ اس کا کام اشیا کی قیمتوں کو بلاوجہ بڑھنے سے روکنا تھا لیکن اس ادارے کو غیر فعال کرنے کے لیے پاکستان کی تقریباً تمام بڑی صنعتوں نے عدالت سے رجوع کیا اور اس پر سٹے لے لیا ؛یعنی کوئی بھی نہیں چاہتا تھا کہ اس کا احتساب کیا جائے۔ اکتوبر 2020ء میں جب سے یہ ادارہ بحال ہوا ہے‘ اسے کام نہیں کرنے دیا جا رہا۔ جو افسر بھی کسی بڑی کمپنی‘ کسی بڑے ادارے پر چھاپہ مارتا ہے اس کو ٹرانسفر کروانے کی کوششیں شروع کر دی جاتی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بحالی کے نو ماہ بعد بھی اس کی کارکردگی غیر متاثر کن ہے۔ اسی طرح کی صورتحال وفاقی ٹیکس محتسب پاکستان (ایف ٹی او) اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)کی بھی ہے۔ ایف ٹی او کا کام ٹیکس ڈیپارٹمنٹ میں ہونے والی بے ضابطگیوں پر ٹیکس افسران کا احتساب کرنا ہے۔ چیئرمین ایف بی آر سے لے کر ایف بی آر کے کلرکس تک‘ سب کا احتساب ایف ٹی او کے سپرد ہے۔
اپریل 2021ء میں ایف بی آرہیڈ کوارٹر نے کراچی، اسلام آباد اور لاہور کے آٹو میٹک ایکسچینج آف انفارمیشن زونز (اے ای او آئی)کو دو ارب ڈالر ریکوری کے 1579 کیسز بھیجے تھے جن میں مارچ 2021ء تک 1150 کیسز سے ریکوری کی گئی وہ بھی محض 30 ملین ڈالرز۔اسلام آباد اور کراچی سے ریکوری 22 ملین ڈالرز سے بھی کم تھی۔ فارن کرنسی اکائونٹس کراچی اے ای او آئی زون کی کارکردگی لاہور اور اسلام آباد سے بھی زیادہ مایوس کن رہی۔ 899 میں سے 275 کیسز حل طلب تھے۔ ہیڈکوارٹر نے تقریباً ایک بلین ڈالرز مالیت کے کیسز کراچی زون کو بھجوائے تھے جن سے صرف 19 ملین ڈالرز کی وصولی ہو سکی۔ اسی طرح اسلام آباد زون کو 365 ملین ڈالرز کے کیسز دیے گئے جس میں سے صرف 3 ملین ڈالرز روصول کیے گئے ۔ میں نے اپریل میںبھی اپنے ایک کالم کے ذریعے اس ایشو کی نشاندہی کی تھی۔ اب اس معاملے نے نیا رخ اختیار کر لیا ہے اور آج اس نئی پیش رفت کے بارے میں بات کریں گے۔ یاد رکھیے کہ ایف ٹی او کا مقصد اس بات پر تحقیق اور تفتیش کرنا تھا کہ اتنی کم وصولی ہونے کی وجہ کیا ہے۔ کیا یہ لاپروائی کا نتیجہ ہے یا پھر ملی بھگت سے قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔
ایف ٹی او کا یہ شک بے بنیاد نہیں ہے۔ ایف بی آر میں ایسا طریقۂ واردات بہت عام ہے۔ کسی نوٹس کے جواب میں تھوڑا بہت ٹیکس جمع کروا کر خانہ پوری کر دی جاتی ہے۔ بعض معاملات میں سرکاری ملازمین خود ہی سارے چور راستے بتا دیتے ہیں۔ کروڑوں روپوں کے ٹیکس کو ہزاروں میں بدل دیا جاتا ہے۔ جعلی کاغذات کیسے تیار کیے جاتے ہیں‘ اس بارے میں بھی مکمل رہنمائی کی جاتی ہے۔ کسی بھی طرح فائلوں کا پیٹ بھر دیا جاتاہے۔ فائلیں اسی نظریے سے تیار کی جاتی ہیں کہ اگر آڈٹ ہو جائے یا انکوائری کرنی پڑ جائے تو اس میں سے بآسانی نکل جائیں۔ یہ پریکٹس عام ہونے کی وجہ سے وفاقی ٹیکس محتسب پاکستان نے مذکورہ کم ریکوریز کے حوالے سے انکوائری کا حکم دیا۔آن لائن شکایات ملنے کے بعد سوموٹو نوٹس لیا گیا۔ یہ کارروائی یکطرفہ نہیں تھی بلکہ اس میں ایف بی آر کو پورا موقع دیا گیا کہ ان کا ایک نمائندہ انکوائری ٹیم میں شامل ہو‘ تاکہ مستقبل میں اعتراض نہ اٹھایا جا سکے کہ تحقیقاتی رپورٹ تعصب پر مبنی ہے۔ جواب نہ آنے پر چیئرمین ایف بی آر اور ممبر ان لینڈ ریونیو کو نوٹس بھیجا گیا۔ ایف بی آر نے جواب دیا کہ ایف ٹی او کے پاس اختیار ہے کہ وہ ایف بی آر کے نمائندے کے بغیر بھی انکوائری کر سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایف بی آر نے اپنا نمائندہ مقرر کرنے کے بجائے ایف ٹی او کے نوٹس کے خلاف سٹے لے لیا جس میں یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ ایف ٹی او کے مطابق وزیراعظم کے شکایت پورٹل پر عوام نے ایف بی آر کے خلاف شکایات کی ہیں لیکن کیا شکایات کی گئیں اور کن لوگوں نے شکایات کیں‘ اس بارے میں کوئی تفصیل نہیں دی گئی۔ ممکنہ طور پر اسی دلیل کی بنا پر سٹے آرڈر جاری کر دیا گیا۔ بعدازاں ایف ٹی او کو یہ جواب بھجوا دیا گیا کہ جب عدالت فیصلہ کرے گی تب آپ کے نوٹس پر عمل درآمد کرنے کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جس طرح مسابقتی کمیشن آف پاکستان کے خلاف سٹے لے کر اسے غیر فعال کر دیا گیا تھا‘ اسی طرح وفاقی ٹیکس محتسب پاکستان کو بھی بے اثر کیا جا رہا ہے جس سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو کھلی چھوٹ مل سکتی ہے اور آئی ایم ایف کا تجویزکر دہ ٹیکس کا سالانہ ہدف حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل انٹرنیشنل ٹیکسز اور ممبر ایف بی آر ڈاکٹر محمد اشفاق کے مطابق‘ ایف ٹی او کے خلاف پٹیشن دائر کرنے کا فیصلہ بورڈ کا نہیں تھا بلکہ یہ دونوں زونز کے کمشنرز کا ذاتی فیصلہ تھا۔ اشفاق صاحب کی رائے محترم ہے لیکن میرے مطابق بیسویں گریڈ کا آفیسر اپنے باس کے اشیرباد کے بغیر اتنا بڑا قدم نہیں اٹھا سکتا اور جس خود اعتمادی اور پروفیشنل انداز میں پٹیشن فائل کی گئی ہے‘ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سب کی مشاورت اس میں شامل ہے۔ اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ قانونی طور پر ایف بی آر کو وفاقی ٹیکس محتسب کے خلاف اپیل صدر مملکت کو کرنی چاہیے تھی لیکن انہوں نے عدالت کا راستہ منتخب کیا۔ دوسری طرف ذرائع کے مطابق وفاقی ٹیکس محتسب کے سربراہ نے اس مدعے کو ایوانِ صدر میں بھی اٹھایا مگر اس مسئلے میں زیادہ دلچسپی نہیں لی گئی بلکہ یہ مشورے دیا گیا کہ وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے آمدن ڈاکٹر وقار مسعود کے سامنے اس مدعے کو رکھا جائے، ممکن ہے کہ وہ اس کا بہتر حل تجویز کر سکیں۔ بظاہر یہ دکھائی دے رہا ہے کہ گونگلوئوں پر سے مٹی جھاڑی جا رہی ہے۔ اپنے کاندھوں سے اتار کر بوجھ کسی اور پر لادنے کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ اس طریقہ کار سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ ڈور مزید الجھ جاتی ہے‘ بعد میں جس کا سرا ڈھونڈنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
ایف بی آر احتساب کروانے کو تیار نہیں ہے اور دوسری طرف بیرونِ ملک سے آنے والے پاکستانیوں کو تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا۔ مسافر کے سامان کے حوالے سے بنائے گئے قانون کے مطابق رول 2006 کہتا ہے کہ جو بیرونِ ملک پاکستانی فارن ایکسچینج ریمیٹنس کارڈ کے ذریعے درآمدات پر ڈیوٹی اور ٹیکس ادا کریں گے‘ انہیں مخصوص کسٹم اور ٹیکس چھوٹ دی جائے گی لیکن وزیراعظم کے شکایت پورٹل پر ہزاروں شکایات موصول ہوئی ہیں کہ ایف بی آر کا کسٹم ڈیپارٹمنٹ مطلوبہ سہولت نہیں دے رہا۔ بعض شکایات میں رشوت لینے کے الزامات بھی لگائے گئے ہیں جن کی تحقیقات ہونا ضروری ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ احتساب کون کرے گا۔ اگر ایف بی آر کے اپنے ہی لوگ پوچھ گچھ کریں گے تو بچ نکلنے کے کئی راستے نکل آئیں گے۔ اگر وفاقی ٹیکس محتسب سوال پوچھے گا تو اس کے خلاف سٹے آرڈر آ سکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان پاکستان سے لوٹا ہواپیسہ واپس لانا چاہتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹیکس اور احتساب کے موجودہ نظام کے تحت کیا یہ ممکن ہے؟ وزیراعظم کو اس حوالے سے سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔