جنگوں کے فیصلے تاریخ میں ہمیشہ مرد حضرات نے کئے ہیں۔ عہدِ قدیم سے آج تک طاقت صرف اسی صنف میں مرکوز ہے۔ قوموں کی تقدیر کے بارے میں حکمت عملی ہو یا طاقت کا حصول اور اس کا استعمال‘ خواتین‘ یعنی آبادی کا کم و بیش نصف حصہ کسی کھاتے میں شمار نہیں کیا گیا۔ تقریباً ڈیڑھ صدی سے بھی زیادہ عرصے کی جدوجہد کے بعد اب کہیں ان کی آواز سنی جا رہی ہے‘ مگر کسی بھی قابلِ ذکر قومی ادارے‘ مغرب میں ہو یا مشرق میں‘ ان کی نمائندگی خال خال ہی نظر آتی ہے۔ ہمارے ہاں تو اپنے جائز حقوق اور کچھ سماجی آزادیوں کے لیے ''مارچ‘‘ بھی کریں تو ہماری روایات کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ یہاں بھی کچھ پیش رفت نظر آتی ہے‘ مگر صنفی امتیاز کے حوالے سے ہمارا ملک ہم پلہ ملکوں کی صف میں آگے ہے۔ بات جنگوں کے بارے میں فیصلوں اور اس کے اثرات کے بارے میں کرنا چاہ رہا ہوں۔ بڑی جنگوں‘ نہ جانے انہیں ''عظیم‘‘ کا نام کیوں دیا جاتا ہے‘ نے گزشتہ صدی میں ہر جگہ تباہی پھیلائی تو امن پسند مفکروں نے دو وجوہات دنیا کے سامنے رکھیں‘ اور انہیں دور کرنے کا مشورہ دیا۔ پہلی‘ نوآبادیاتی نظام اور دوسری‘ شخصی آمریت۔ ایک نے کمزور قوموں کو مغلوب کیا اور ان کی منشا اور مفادات کے خلاف استحصالی حکومتیں جبراً قائم کیں۔ ان کی تقدیر کے فیصلے لندن‘ پیرس میں ہوتے رہے۔ ان کا سرمایہ اور افرادی قوت‘ دونوں دنیا بھر میں جنگوں کے لیے استعمال کئے گئے۔ پہلی اور دوسری‘ دونوں عالمی جنگوں میں ہمارے خطے سے لاکھوں کی تعداد میں انگریز ہمارے نوجوان اپنی فوج میں لے گئے‘ بہت کم واپس آئے۔ بے چاری مائیں‘ باپ‘ بھائی اور بہنیں ان کی یادوں میں تڑپتے زندگیاں گزار گئے۔ مفادات انگریزوں کے‘ فیصلے ان کے‘ جنگیں ان کی‘ اور گھر ہمارے برباد ہوئے۔
آمریت میں فیصلے ایک شخص یا اس کے قریب کے چند حواری کرتے ہیں۔ امن کے فلسفے کا بنیادی نکتہ وسیع تر مشاورتی عمل ہے۔ اس سے جمہوریت اور امن کا رشتہ بنتا ہے اور اب یہ بات بالکل پکی ہو چکی ہے کہ جمہوریت‘ جمہوریت کے خلاف جنگ نہیں کرتی۔ ہم فرضی جمہوریت کی بات نہیں کر رہے‘ اس جمہوریت کی کر رہے ہیں جس کی معاشرے میں جڑیں ہوں اور فیصلہ سازی عوام کے نمائندوں کے پاس ہو۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہ نکالیں کہ مغرب کے طاقت ور جمہوری ممالک کی دنیا کے دیگر حصوں میں جنگیں جائز ہیں‘ ہرگز نہیں۔ انہی جنگوں نے تو گزشتہ بیس سالوں میں مشرقِ وسطیٰ اور افغانستان میں تباہی مچا دی ہے۔ برائون یونیورسٹی امریکہ کی بہترین جامعات میں سے ہے‘ وہاں ایک ادارہ واٹسن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اینڈ پبلک افیئرز ہے۔ اس کی تحقیق کے مطابق افغانستان اور عراق کی جنگوں میں آٹھ لاکھ مقامی لوگ مارے گئے ہیں۔ اس سے کئی گنا زیادہ بے گھر ہوئے ہیں۔ شام کی جنگ‘ جو داخلی بھی ہے اور بڑی طاقتوں کی مداخلت کا نتیجہ بھی‘ کی تباہی کا سوچتا ہوں تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس انسانی المیے میں ہم مذہب‘ ہمسایہ ممالک کی مداخلت سرفہرست ہے۔ شہر کے شہر زمین بوس کر دیئے گئے ہیں۔ تین چوتھائی آبادی بے گھر اور تتر بتر ہو چکی ہے‘ اکثر قریبی ممالک میں کسمپرسی کی زندگی خیموں میں گزار رہے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کُشی اور جبراً بے دخلی کی المناک داستان ہے۔
ہماری زبانیں اور کلام ہی ایسا ہے کہ جب ہم جنگوں کے بارے میں بات کرتے یا لکھتے ہیں تو آبادی کے کمزور طبقے‘ عورتوں اور بچوں‘ پر یہ جنگیں کیا اثرات چھوڑتی ہیں‘ یہ معاملات تاریک پردوں میں اوجھل کر دیئے جاتے ہیں۔ تاریخ فتح اور شکست‘ بہادری اور جنگی معرکوں پر محیط رہی ہے۔ اس کے سماجی اثرات کیا مرتب ہوتے ہیں اور بے گھر آبادیوں پر کیا بیتتی ہے‘ یہ معاملہ کسی سنجیدہ علمی بحث کا کبھی موضوع نہیں بن سکا۔ افغانستان کی جنگ کا کم و بیش چالیس برس سے مطالعہ ہے‘ مگر کچھ زیادہ جانکاری کا کوئی دعویٰ نہیں۔ 1984کے اوائل میں جب اس جنگ کو موضوع بنایا تو پشاور کے ارد گرد کے علاقے اور شہر کے کئی بار چکر لگائے‘ مجاہدین سے کئی بار ملا اور مہاجرین کے کیمپوں کو بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ تب ہزاروں کی تعداد میں بیوہ عورتیں اور یتیم بچے خیموں میں بھیڑ بکریوں کی طرح بند‘ کھانے کے انتظار میں بیٹھے نظر آئے۔ بعد میں تو ان کی بستیاں اور کچی آبادیاں قائم ہونے لگیں۔ امریکہ بہادر اور دیگر ممالک تو سوویت یونین کو شکست سے دوچار کر کے میدان سے نکل گئے‘ افغانستان کے لاکھوں یتیموں اور بیوائوں نے سسک سسک کر دیارِ غیر میں یا اپنے ہی ملک میں بے گھر رہ کر زندگیاں گزار دیں۔ آج بھی لاکھوں کی تعداد میں در بدر ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
سردی ہو یا گرمی‘ طلوع آفتاب سے پہلے قریبی پارک میں واک کے لیے نکلنے کی بیماری لاحق ہے۔ یہ تقریباً روزانہ کا معمول ہے۔ مجھ سے پہلے کئی ٹکڑیوں میں افغان بچے‘ کچھ بغیر جوتوں کے‘ میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس‘ گندی بدبودار بوریاں اٹھائے تیزی سے پارک سے گزر رہے ہوتے ہیں‘ جیسے بھوکے پرندے رزق کی تلاش میں پر مار رہے ہوتے ہیں۔ ایک دن سوچا‘ کسی ایک سے بات ہی کر لیں کہ مغالطہ نہ رہے کہ یہ افغان بچے نہیں ہیں۔ ایک دن ان میں سے ایک سڑک پر اکیلا جا رہا تھا۔ روک کر پوچھا: کیا نام ہے؟ ''علی یار‘‘ اس نے جواب دیا۔ بہت خوبصورت چہرہ‘ صحت مند‘ چاق و چوبند۔ کچھ اور باتیں کیں تو شک بٹ گیا۔ ہمارے اسلام آبادی محلے سے کچھ فاصلے پر ان مہاجروں کی آبادیاں ہیں۔ یہ بچے صبح سویرے پارکوں‘ مارکیٹوں اور نکڑوں پہ رکھے کوڑے دانوں کا رخ کرتے ہیں۔ زمین پر پڑی پلاسٹک کی بوتلیں‘ گتے کے ڈبے‘ پولی تھین کے بڑے تھیلے اکٹھے کرتے ہیں۔ اس کام سے فارغ ہو کر چوکوں پر رکی گاڑیوں کے پیچھے بھاگتے ہیں اور ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ بھکاری بچوں کا قضیہ اور ان کے پیچھے بھکاری مافیا کا قصہ کسی اگلے کالم پر چھوڑتے ہیں۔ یہ افغانستان کی سوویت جنگ کی اب تیسری نسل ہے۔ وہاں ایک بوڑھی عورت سر پر دودھ کا ڈبہ اٹھائے مارکیٹ کی طرف جاتی یا واپس آتی بھی دکھائی دیتی ہے۔ ایک روز میں نے اسے سلام کیا اور پوچھا: کہاں سے ہیں؟ اس کا آبائی ضلع غزنی تھا‘ وہی محمود عزنوی والا غزنی۔ چہرے پر جھریاں اور منہ میں دانت نصف سے بھی کم تھے‘ اور جو تھے‘ وہ بھی بات کرتے وقت لرز رہے تھے۔ یہ وہ خواتین ہیں جو وقت سے پہلے بوڑھی ہو جاتی ہیں۔ جرأت کر کے پوچھ ہی لیا ''واپس غزنی کیوں نہیں جاتیں؟‘‘ اس کی اردو ایسے ہی تھی جیسے ہم انگریزی نہ جانتے ہوئے بولنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں کہا: وہاں جا کر کیا کریں گے؟ کون ہے وہاں ہمارا؟ یہاں خوش ہیں‘ گزارہ ہو رہا ہے۔ ان کی آبادیوں میں نہ پانی‘ نہ بجلی‘ نہ سڑک اور نہ پکی چھت‘ اور نہ آبادی اپنی جگہ پر زیادہ دیر ٹھہر سکتی ہے۔
جنگوں سے آبادیاں افغانستان میں دو بڑی طاقتوں نے تباہ کی ہیں۔ ایک دفعہ بکھر جائیں تو دوبارہ اصلی آبائی مقام پر جانا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ یمن‘ شام‘ عراق کی جنگوں کے بھی لاکھوں یتیم بچے اور بیوائیں کس جرم کی پاداش میں بے گھر ہیں اور خیرات کے ٹکڑوں پر زندگیاں گزار رہے ہیں؟ حالیہ دنوں میں مغربی چینلز کی دستاویزی فلمیں داعش کے جنگجوئوں کی‘ بیوائوں اور چھوٹے چھوٹے یتیم بچوں کی دیکھیں تو دل لرز گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں غیر انسانی حالات میں رہنے پر مجبور ہیں۔ مغربی ممالک ان میں سے قانونی طور پر اپنے شہریوں کو پناہ دینے سے بھی انکار کر رہے ہیں۔ بچوں کا کیا قصور ہے؟ وہ اپنی مرضی سے اس دنیا میں نہیں آئے۔ جنگیں سب کے لیے تباہ کن ہیں‘ مگر پس ماندگان میں شامل عورتیں اور بچے ساری زندگی ناکردہ جرم کی سزا بھگتتے ہیں۔