تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     30-07-2021

’’نچلا ترین ایشیا‘‘

گزشتہ کالم میں ذکر ہوا تھا کہ لاہور شہر کی ماحولیاتی زندگی پانچ سال بچی ہے‘ اس کے بعد یہ شہر تو باقی رہے گا مگر ایک انتہائی آلودہ یا ماحولیاتی اعتبار سے پسماندہ علاقہ رہ جائے گا۔ اس تحریر کے حوالے سے سوال و جواب میں لوگوں نے باقی شہروں اور ملک کے دیگر علاقوں کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے ہیں تو آج اسی تناظر میں بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ صورتِ حال کچھ اس طرح سے ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت اور بنگلہ دیش بھی زہریلی اور آلودہ آب وہوا کی تباہی کا شکار ہیں۔ سب سے پہلے ہم ایک پیمانہ پانی کا لیتے ہیں‘دنیا کے دیگر ملکوں سے موازنہ کرتے ہوئے پتا چلتا ہے کہ پاکستان اور بھارت‘ ان دونوں ممالک کا شمار دنیا کے ان پندرہ ممالک میں ہوتا ہے جہاں مستقبل قریب میں پانی کی کمی ایک شدید بحران کی شکل اختیار کر لے گی۔ واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت سے زیادہ شدید بحران والے ممالک میں مشرق وسطیٰ کے صحرائی ممالک آتے ہیں۔ البتہ ان دونوں ممالک میں پانی کی قلت کے علاوہ دستیاب پانی کی آلودگی‘ بحران کی ایک علیحدہ اور بھیانک تصویر ہے۔ مطلب یہ کہ جو پانی دستیاب ہے وہ بھی آلودہ ہے اور مزید آلودگی کی طرف بڑھ رہا ہے۔
دوسرا پیمانہ جنوبی ایشیا میں ہوا کی آلودگی کا ہے۔ اس طرف نظر ڈالیں تو مزید کٹھن اور دم گھٹنے والی تصویر نظر آتی ہے۔ ہوا کے صاف ہونے کا براہِ راست تعلق درختوں سے ہے‘ درختوں یعنی ماحولیات کا اندازہ کرنے کے لیے کسی بھی ملک میں موجود درختوں کی تعدا د کو کل آبادی پر تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں کینیڈا دنیا کا سب سے مضبوط اور محفوظ ملک نظر آتا ہے جہاں فی کس یعنی ایک شخص کے حصے آنے والے درختوں کی تعدا دآٹھ ہزار سے بھی زیادہ ہے۔ اس سلسلے میں بنائے گئے دنیا کے ایڈیکس میں ایسے ممالک کو فی کس پانچ ہزار درخت والی کیٹیگری میں رکھا گیا ہے۔ اس سے اگلی کیٹیگری میں وہ ممالک ہیں جہاں فی کس درختوں کی تعداد ایک ہزار سے پانچ ہزار کے درمیان ہے۔ دنیا کے تقریباً بیس ممالک اس کیٹیگری میں شامل ہیں۔ اس سے اگلے درجے میں اُن ممالک کو رکھا گیا ہے جہاں فی کس درختوں کی تعدا د پانچ سو سے ایک ہزار کے درمیان ہے۔ اس درجے میں بھی دنیا کے بیس خوش قسمت ممالک شامل ہیں۔ اس کے بعد باری آتی ہے ایسے ممالک کی جہاں فی کس درخت ایک سو سے پانچ سو تک ہیں جو بجا طور ایک بہتر صورتِ حال یا صحت مند ماحول کا پتا دیتے ہیں ‘اس کیٹیگری میں دنیا کے سب سے زیادہ یعنی پچاس ممالک آتے ہیں۔تقریباً پورا یورپ،چین،سری لنکا اور بھوٹان اس میں شامل ہیں۔ اس سے آگے ان ممالک کی فہرست ہے جہاں فی کس درختوں کی تعداد پچاس سے سو کے درمیان ہے۔ اس درجے میں بھی تقریباً پندرہ ممالک آتے ہیں۔ اور اس کے بعد ان بدقسمت ممالک کی فہرست شروع ہو جاتی ہے جہاں آبادی کے لحاظ سے فی کس درختوں کی تعداد پچاس سے بھی کم ہے۔ دنیا میں ایسے ممالک کی تعداد تقریباً 35ہے لیکن اس انڈیکس کے انتہائی آخری درجے پر وہ ممالک ہیں جہاں فی کس درختوں کی تعداد دس حتیٰ کہ پانچ سے بھی کم ہے۔ معذرت چاہتا ہوں کہ آپ کی پریشانی میں اضافہ ہو گا کہ پاکستان کا شمار فی کس چار سے پانچ درختوں والے ملکوں میں ہوتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ پاکستان سے کم فی کس درختوں والے ممالک کی تعداد محض آٹھ ہے، یعنی درختوں کی فی کس آبادی کی تعداد کے حوالے سے پاکستان دنیا کا نواں پسماندہ ترین ملک ہے۔ پہلے بھی ذکر ہوا تھا کہ درخت آکسیجن پیدا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں، جبکہ زہریلی اور آلودہ گیسوں جیسے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کھا جانے کا ذریعہ بھی درخت ہی ہیں، سو واضح ہوا کہ درختوں کی فی کس تعداد جتنی زیادہ ہو گی‘ ہوا اتنی ہی صاف ہو گی۔ آپ اگر عالمی سطح پر موسم کی صورتِ حال بتانے والے اداروں کی ویب سائٹ پر جائیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ پاکستان سمیت بھارت اور بنگلہ دیش کے اکثر شہروں کے درجہ حرارت اور بارش کے ساتھ ہوا کی کوالٹی بھی بتائی جاتی ہے اور اکثر ان سے متعلق PoorیاVery Poor کے الفاظ ہی پڑھنے کو ملتے ہیں جو ایک قیامت خیز قدرتی آفت کی غمازی کرتے ہیں،لیکن دیکھا جائے تو اِن ممالک میںاس امر کا ذکر ہرگز اس کی شدت سے نہیں کیا جاتا اور جب ذکر ہی نہیں ہوتا تو اس معاملے سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہوں گے‘ یہ قطعاً سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے۔
درختوں کی کل تعداد کے حوالے سے ریسرچ بتاتی ہے کہ اس وقت دنیا میں تقریباً تین ٹریلین درخت موجود ہیں جبکہ اس کرۂ ارض پر انسان کی بڑھتی معاشی سرگرمیوں سے پہلے ان کی تعدا ڈبل‘ یعنی چھ ٹریلین ہوا کرتی تھی، واضح رہے کہ ایک ٹریلین میں ایک ہزار ارب ہوتے ہیں۔ یہ بات یقینا دلچسپی کا باعث ہو گی کہ دنیا کے کل درختوں میں سے پچاس فیصد دنیا کے پانچ بڑے جنگلوں میں پائے جاتے ہیں ۔ بات ہو رہی تھی جنوبی ایشیا کے تین بڑے ممالک کی تو یہ تین ممالک آبادی میں سالانہ دو کروڑ پچاس لاکھ افرادکا اضافہ کرتے ہیں جو دنیا کی کل آبادی میں سالانہ اضافے کا لگ بھگ تیس فیصد بنتا ہے جبکہ یہ بات بھی واضح ہے کہ آبادی میں اضافے سے درختوں کے کٹنے یا کم ہونے کا براہِ راست تعلق ہے۔ بھارت آبادی میں سالانہ اضافے کے اعتبار سے ایک کروڑ ستر لاکھ کے ساتھ دنیا کا سب سے بڑامجرم گردانا جائے گا جبکہ پاکستان سالانہ پچاس لاکھ اضافے کے ساتھ دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ اب ان دونوں ملکوں کو سوچنا ہو گا کہ ایٹم بم تو شاید چلیں یا نہ چلیں مگر آبادی کا بم جسے Slow but Solid Bomb کہا جاتا ہے‘ اپنا کام دکھاتا جا رہا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کے اعتبار سے بھارت،پاکستان اور بنگلہ دیش دنیا کے پہلے تین ممالک میں شمار کیے جاتے ہیں۔ جس طرح اس خطے میں لڑائیاں اور جنگیں ہمیشہ سے جاری ہیں‘ عین اسی طرح ان تین ممالک میں آلودگی کے اعتبار سے پہلے،دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے کی دوڑ بھی جاری رہتی ہے؛ یعنی کبھی بھارت پہلے نمبر پر،کبھی پاکستان اور کبھی بنگلہ دیش۔ یہ خطہ‘ جسے جنوبی ایشیا کہا جاتا ہے‘ ایشیا کے نچلی جانب واقع ہے اور جنوب کا درجہ اس ملک کو دیا جاتا ہے جو نقشے کے نچلی طرف واقع ہو، لیکن ماہرین اب اس خطے کی دیگر پسماندگیوں کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی طور پر پسماندہ ترین ہونے کی وجہ سے اسے جنوبی ایشیا کے بجائے نچلاترین ایشیا کا نام دے رہے ہیں،جو تلخ اور بھدا ضرور ہے مگر بالکل بجا ہے۔
ماضی گواہ ہے کہ یہ خطہ صنعتی انقلاب سے پہلے تک معاشی طور پر دنیا کا سب سے امیر علاقہ تھا اور سونے کی چڑیا کہلاتا تھا،پھر یہاں گورا ایک انتہائی درجے کے غاصب کے طور قابض ہوا اور یہاں کے وسائل کی بدولت دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن گیا۔گورا یہاں سے جاتے وقت انتہائی غیر منصفانہ اور متنازع تقسیم کرکے گیا‘ اس کے بعد سے اس خطے میں بھارت کے جارحانہ عزائم کی بدولت ایک جنگی فضا شروع ہوئی اور آج تک قائم ہے۔ اس وقت بھی بھارت مغرب کے ایما پر چین کے ساتھ الجھائو جاری رکھتے ہوئے ایک پراکسی جنگ میں مصروف ہے۔ افغانستان کے معاملات میں بھی بھارت محض پاکستان مخالفت کی ضد میں اپنے وسائل جھونک رہا ہے۔ آج قدرتی ماحول کے جو حقائق بیان ہوئے ہیں ان کو مد نظر رکھا جائے تو اس خطے کو کم از کم پانچ سال جنگی بنیادوں پر صرف قدرتی ماحول کو بچانے،بہتر کرنے اور پھر مضبوط کرنے پر صرف کرنے چاہئیں۔ بات شروع ہوئی تھی لاہور شہر سے تو ذہن میں یہ بات نقش کر لیں کہ جنوبی ایشیا کے پورے خطے کے پاس ہی قدرتی ماحول کی عمر کے حساب سے مزید پانچ سے دس سال ہی بچے ہیں۔ اب اس خطے کے فیصلہ سازوں کو سیاسی راگ الاپنے کے بجائے سر پر منڈلاتی اس آفت سے بچنے کے لیے کچھ نہ کچھ نہیں‘ بلکہ سب کچھ کرنا ہوگا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved