تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     31-07-2021

اگلی باری پھر پی ٹی آئی؟

میں اپنی لاعلمی پر شرمندہ ہوں‘ مجھے نہیں معلوم تھا کہ سیاست بھی کرشمات کا کھیل ہے۔ سیاست کا سورج کسی بھی وقت طلوع ہو سکتا ہے اور کسی بھی وقت غروب۔ اس کے لیے وقت کی قید معنی رکھتی ہے نہ دن اور رات کی ترتیب۔ اسی طرح سیاست کا چاند بھی آزاد طبع واقع ہوا ہے‘ وہ کسی بھی لمحے چڑھ سکتا ہے۔ دن کی روشنی اسے روک سکتی ہے نہ دوپہر کی حدت۔
سیالکوٹ اور آزاد کشمیر کے الیکشنز میں کیا ہوا؟ تحریک انصاف کا نظریہ مسلم لیگ (ن) کے بیانیے پر کیسے حاوی ہوا؟ تحریک انصاف ایک ساتھ آٹھ کے قریب ضمنی الیکشن ہارنے کے بعد دوبارہ مقبول کیسے ہو گئی؟ اور سب سے بڑھ کر پیپلز پارٹی کو تیرہ سال بعد سندھ کے باہر کی ہوا کیسے راس آئی؟ کیا مسلم لیگ (ن) ان تمام سوالات کے جوابات دے گی؟ کیا ان کے پاس ''گرتی‘‘ ہوئی مقبولیت کا کوئی عذر ہے؟ اور اگر کوئی تاویل موجود نہیں تو کوئی جائے اور میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کو بتائے کہ پاکستان جیسے ملک میں کبھی بھی ''آگ کا دریا‘‘ تیر کر عبور نہیں ہوتا، یہاں سیاسی ''کرشمات‘‘ کا سہارا لینا پڑتا ہے، طاقت کے تخت کے قریب دو زانوں بیٹھنا پڑتا ہے، پھر کہیں جا کر ''آگ کے دریا‘‘ کی طغیانی کم ہوتی ہے۔ پھر کہیں بھنور سے خلاصی ملتی ہے اور کنارہ دکھائی دیتا ہے۔ میر تقی میرؔ کا شعر مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی نذر ؎
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریٔ دل نے آخر کام تمام کیا
حیرانی کی کوئی بات نہیں‘ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ وہی ہوا جو نوشتۂ دیوار تھا، وہی ہوا جو اس طرح کے کاموں میں ہوا کرتا ہے۔ نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم۔ آپ خود فیصلہ کریں دریا میں مگرمچھ سے بیر رکھ کر کون جی سکتا ہے اور اگر کوئی جینے کی خواہش کرے تو کیا اس خواب کی تکمیل ممکن ہے؟اگر ملک میں طاقت کا توازن خراب ہوتا توتقریریں بھی کارآمد ہوتیں اور مریم نواز کی شعلہ بیانی بھی۔ کوئی پوچھے مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے کہ اس ساری ریاضت سے کیا ملا؟ میر ے نزدیک توکچھ بھی نہیں! سوائے تالیوں کی گونج اور چند بلند بانگ نعروں کے۔ کیا سیاست کی راہداریوں میں بھٹکتے چراغ روشن ہوئے؟ کیا حقیقی ''عوام‘‘ کی سوچوں پر جمی گرد کی تہہ صاف ہو سکی؟ کیا ووٹرز اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے؟ ووٹرز کامیاب ہوتے بھی کیسے؟ انہیں تو معلوم ہی نہیں ہو رہا کہ کب مفاہمت کرنی ہے اور کب مزاحمت۔ کب مریم نواز کے نعرے لگانے ہیں اور کب شہباز شریف کے۔ کب اپوزیشن اتحاد کی تعریف کرنی ہے اور کب تنقید۔ حکومتِ وقت کو ٹف ٹائم دینا ہے یا پیپلز پارٹی کو۔ اداروں کو ہدفِ الزام ٹھہرانا ہے یا ستائش کرنی ہے۔ جتنی مسلم لیگ (ن) کی قیادت کنفیوز ہے اس سے زیادہ ووٹرز۔ کہنے کو شہباز شریف پارٹی کے صدر ہیں مگرکیا وہ تمام فیصلے خود کر رہے ہیں؟ مریم نواز، شاہد خاقان عباسی، رانا ثناء اللہ اور احسن اقبال ان سے زیادہ پارٹی میں متحرک کیوں ہیں؟ میرا احساس ہے کہ مسلم لیگ (ن) پہلی بار دوراہے پر آن کھڑی ہوئی ہے۔ اسے سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ وہ کس جانب قدم بڑھائے۔ آگے کھائی ہے اور پیچھے کنواں۔ آگے بڑھیں تو پارٹی ختم ہوتی ہے اور اقتدار دور جاتا ہے جبکہ پیچھے ہٹیں تو ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ بیانیے کو لے کر پارٹی میں دراڑیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ یہ دراڑیں مزید بڑھیں تو 2023ء کے الیکشن میں پوری پارٹی ڈھیر ہو سکتی ہے۔ یقین نہ آئے تو کشمیر اور سیالکوٹ الیکشن کی جھلکیاں دیکھ لیں۔ ساری الجھنیں خود بخود دور ہو جائیں گی۔
کجھ اُنج وی راہواں اوکھیاں سَن
کجھ گل وچ غماں دا طوق وی سی
کجھ شہر دے لوگ وی ظالم سَن
کجھ مینوں مرن دا شوق وی سی
گزشتہ تین ماہ کا ٹھنڈے دل کے ساتھ تجزیہ کریں تو سیاسی ''کرشمات‘‘ جابجا نظر آئیں گے۔ حکومت بھی ان ''کرشمات‘‘ سے فیضیاب ہوتی دکھائی دے گی اور پیپلز پارٹی بھی۔ یوں گمان ہوتا ہے جیسے ایک ہی زمین سے دو فصلیں اٹھانے کی تیاری کی جا رہی ہے یا خسارے والی فصل کا متبادل تیار کیا جا رہا ہے۔ ان دنوں بظاہر حکومت بھی خوش ہے اور پیپلز پارٹی بھی شاد۔ حکومت جو تین ماہ پہلے تک مہنگائی، بدانتظامی، اقربا پروری اور معیشت کی بدحالی کے باعث شدید تنقید کی زد میں تھی‘ وہ اب پلک جھپکتے ہی ''مقبولیت‘‘ کی پگڈنڈی پر دوڑ نے لگی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے حکومت کے لیے ہر طرف سے اچھی خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ کبھی بتایا جاتا ہے کہ ملک کی اکانومی بہتری کی طرف گامزن ہے‘ جی ڈی پی کا حجم بڑھ چکا ہے اور ترقی کی رفتار بھی۔ زر مبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں ترسیلات ِز ر بھی۔ برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے اور فی کس آمدنی میں بھی۔ روپے کی قد ر مستحکم ہو رہی ہے اور کاروبار ی حالات بھی۔ ترقیاتی منصوبے بھی شروع ہونے کو ہیں اور شہروں کی تزئین و آرائش بھی۔ عوام کو یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ملک میں زراعت کا شعبہ ترقی کر رہا ہے اور صنعتی بھی۔ یہ ''کرشمات‘‘ ابھی جاری ہی تھے کہ پی ٹی آئی نے انتخابات میں بھی کمالات دکھانا شروع کر دیے۔ پہلے کشمیر کے الیکشن میں مخالفین کو چت کیا اور اب سیالکوٹ کے ضمنی انتخاب میں بھی میدان مار لیا۔ اتنے کم عرصے میں اتنی ترقی! عقل حیران رہ جاتی ہے۔ میرا جذباتی تاثر یہ ہے کہ حکمران جماعت کے ووٹر بہت کھلے ''دل و دماغ‘‘ کے مالک ہیں۔ انہیں شاید فرق ہی نہیں پڑتا کہ ملک میں مہنگائی کتنی ہے اور بے روزگاری کا کیا عالم ہے ؟ چینی کس بھاؤ بک رہی ہے اور پٹرول کی قیمت کیا ہے؟ ادویات کا مافیا عوام کوکیسے دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے اور راولپنڈی رنگ روڑ جیسے منصوبوں کے ذریعے عوام کی جیب کیسے کاٹی جا رہی ہے؟ ملک بھر میں آٹے، گھی، گوشت اور دودھ کے نرخ کیا ہیں؟ شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں گلیوں اور سڑکوں کی صورتِ حال کتنی خراب ہے؟ بجلی اور گیس کے بل عوام کو ہر مہینے کتنے آنسو رلاتے ہیں؟ افسر شاہی، پولیس اور پٹواری عام آدمی کی عزتِ نفس کیسے پامال کرتے ہیں؟ مجھے پورا یقین ہے تحریک انصاف کا ووٹر سیاسی ''کرشمات‘‘ پر بھروسہ زیادہ کرتا ہے اور زمینی حقائق پر کم۔ انہی کرشمات نے حکومت کو بھی اس زعم میں مبتلا کر دیا ہے کہ اگلی باری پھر تحریک انصاف کی ہو گی۔
دوسری طرف واقفانِ حال کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی کیاری میں اقتدار کا بیج بو دیا گیا ہے۔ باغبان نے بیج کی آبیاری کے لیے وعدے وعید بھی کیے ہیں۔ یہ اب پیپلز پارٹی پر منحصر ہے کہ بیج کب پودا بنتا ہے اور کب درخت۔ کتنی دیر میں اس پر برگ و بار آتا ہے اور کب پھل پکتا ہے۔ پیپلز پارٹی اگر یونہی ''راہ ِ راست‘‘ پر گامزن رہی تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ کراچی سے نکل کراسلام آباد میں ڈیرے نہ جما لے۔ ہاں! البتہ کے پی اور پنجاب کے بارے فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رویے میں اگر کوئی مثبت تبدیلی آئی تو عین ممکن ہے شہباز شریف پنجاب میں چوتھی بار بہار کا مزہ چکھ لیں ورنہ پی ٹی آئی تو آپشن ہے ہی۔ شہباز شریف اب اس نتظار میں ہیں کہ کب ان کے بڑے بھائی کا موڈ تبدیل ہو اور کب وہ اپنے دل کی بات ان سے منوائیں۔ شہباز شریف کو مکمل ادراک ہے کہ اگر میاں نواز شریف اپنے بیانیے سے نہ ہٹے تو اگلے الیکشن میں ان کی پکی پکائی کھیر پیپلز پارٹی کھا جائے گی یا تحریک انصاف۔ وہ اب ہرصورت اپنے بھائی کو منانا چاہتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved