پاکستان اور بھارت کا بطور ریاست وجود تو 14 اگست 1947ء سے قائم ہوا تاہم نظریاتی اعتبار سے دونوں میں کشیدگی بہت پہلے ہی شروع ہو چکی تھی‘ مگر تقسیم ہند کے بعد بھارتی حکومت نے جس طرح کشمیر سمیت کئی آزاد ریاستوں پر بزورِ قوت قبضہ کر لیا تو اس سے یہ نظریاتی کشیدگی باقاعدہ تصادم کی صورت اختیار کر گئی۔ مقبوضہ جموں کشمیر کا مسئلہ دونوں ملکوں میں کشیدگی کا بنیادی نقطہ ہے۔اس صورتحال میں بہت سے ممالک بھارت کا ساتھ دے رہے ہیں۔ سردجنگ کبھی جمہوری امریکہ اور کمیونسٹ سوویت یونین کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی سے جانی جاتی تھی مگر آج سرد جنگ کا مغربی فریق چین اور پاکستان کے اتحاد اور دونوں ممالک کے مفادات کو نشانہ بنائے ہوئے ہے۔اس سلسلے میں بھارت اور امریکہ سمیت بہت سے ممالک کو ایک طرح سے جو بڑی کامیابی حاصل رہی ہے وہ یہ ہے کہ انہیں پاکستان کے اندر کشیدگی کو ہوا دینے کے لیے ٹھکانے بہت قریب ہی مل گئے ہیں۔ پاک افغان انٹر نیشنل سرحد ‘ جو ڈیورنڈ لائن کے نام سے جانی جاتی تھی قیام پاکستان کے بعد بھی برائے نام سرحد کے طور پر برقرار رہی۔دنیا بھر میں بین الاقوامی سرحدیں‘ جو ممالک کے درمیان حدِ فاصل قائم کرتی ہیں‘ کے دونوں جانب عام طور پر ملتے جلتے کلچر‘ زبان اور رنگ و نسل کے لوگ پائے جاتے ہیں ‘ یہی صورت پاک افغان سرحد پر بھی ہے مگر عالمی دستور سے ہٹ کر یہاں جو سرحدی بندوبست کیا گیا تھا اس میں سرحد پار ہر قسم کی آمدورفت کو باقاعدہ بنانا ماضی میں ناممکن رہا‘ اس کا نقصان پاکستان نے اٹھایا اور نہ صرف پناہ گزینوں بلکہ دہشت گردوں‘ سمگلروں اور ہر طرح کے جرائم پیشہ افراد کی آمدورفت بلا روک ٹوک جاری رہی۔پاک افغان سرحد کے اس ڈھیلے ڈھالے بلکہ نہ ہونے کے برابر بندوبست نے پاکستان کے دشمنوں کو خاصا فائدہ پہنچایا۔
بلوچستان اور وزیرستان سمیت پاکستان کے اندر پنپنے والی ملک دشمن اور فرقہ وارانہ تنظیموں کو کہیں امریکہ اور اسرائیل نے تو کہیں بھارت اور کچھ دیگر ممالک نے اپنے سایۂ عاطفت میں لیتے ہوئے اپنے اپنے مشنز اور مقاصد کے لیے استعمال کرنا جاری رکھا ہوا ہے‘ جس کی پاکستان کو گزشتہ چالیس برس سے بڑی بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔ پاکستان کے عسکری اور سول خفیہ ادارے خصوصی خراجِ عقیدت کے حق دار ہیں کہ انہوں نے ملک کے اندر سے کم قیمت میں بک جانے والے غیر ملکی ایجنٹوں اور دنیا کی وحشت ناک قسم کی ایجنسیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ان کے80 فیصد سے زائد دہشت گردی کے منصوبے ناکام بنائے۔بلوچستان پاکستان مخالف قوتوں کیلئے آسان ٹارگٹ بنا ہوا ہے اور یہ سچائی تسلیم کرنا ہو گی کہ دشمن ہر روز کہیں نہ کہیں کبھی معمولی تو کبھی بھر پور موجود گی کا احساس دلا رہا ہے۔ملک کے دیگر حصوں کی طرح وفاقی دارالحکومت اسلام آباد بھی ان کاٹارگٹ ہے‘ ابھی چند ہفتے ہوئے کہ موٹر سائیکل پرگشت کر نے والے ایگل سکواڈ کے دو ہیڈ کانسٹیبلز کو نا معلوم افراد نے فائرنگ کرکے شہید کر دیا۔یہ صورتحال تو وفاقی دارالحکومت کی ہے جبکہ جون میں لاہور میں ہونے والا دھماکہ بھی بیرونی دہشت گردی کا ایک منہ بولتا ثبوت تھا ‘اس دوران بلوچستان میں بھی دہشت گردی کے کئی واقعات ہوئے اور داسو میں چینی انجینئرز پر حملے کا واقعہ بھی بیرونی دہشت گردی کا واقعہ ثابت ہوا ہے۔
پاکستان میں بیرونی دہشت گردوں کی لاجسٹک سپورٹ میں افغان سر زمین کا استعمال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ بلوچستان لبریشن آرمی کا کمانڈر‘بد نام زمانہ دہشت گردڈاکٹر اﷲ نذر جوپاکستان سکیورٹی فورسز‘ پولیس اور عام شہریوں کو دہشت گرد کارروائیوں میں شہید کر چکا ہے اسے اشرف غنی اور بھارت نے کابل میں مشترکہ مہمان بنا کر رکھا ہوا ہے۔امریکہ اور بھارت اگر یہ کہتے ہیں کہ ان کے ملک اور شہریوں کے خلاف دہشت گردی میں ملوث کسی شخص کے متعلق اگر انہیں پتہ چلے کہ وہ فلاں ملک میں ہے تو وہ اپنے مطلوب مجرم کے خلاف اس جگہ پر کارروائی کا حق رکھتے ہیں تو پاکستان کو اس حق سے کیسے محروم کیا جاسکتا ہے؟ پاکستان کو مطلوب بد نام زمانہ دہشت گرد ہمارے دائیں بائیں یا سامنے کسی پڑوسی کے گھر میں موج مستیاں کر رہے ہیں اور پاکستان کو اس کا علم ہو جاتا ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایم آئی سکس اور سی آئی اے کو یہ پتہ نہ چل سکا ہو کہ پاکستان میں دہشت گردی کے محرک اور مطلوب دہشت گرد افغان حکومت اور اس کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کے سیف ہائوسز میں ہیں۔ ایسے میں اُس ملک کی حفاطت پر مامور امریکی اور نیٹو افواج اور ایجنسیوں کیلئے یہ لازم ہو جاتا ہے کہ اس دہشت گرد کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے پاکستان کی مدد کی جائے اوراپنے زیر اثر علاقے میں‘ جس کے چپے چپے پر ان کی افواج موجود ہیں‘ دہشت گردی کے اس ناسور کی سرکوبی کرتے ہوئے اسے اقوام متحدہ کے احکامات کے تحت کیفر کردار تک پہنچادیا جائے ۔ سوئے ہوئے کو تو جگایا جا سکتا ہے لیکن جو آنکھ میچ کر سو رہے ہوں ان پر کوئی بھی آواز یا اطلاع اثر انداز نہیں ہو سکتی ۔وہ جو دنیا بھر کومطلوب ہے وہ افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کے ایک سیف ہائوس میں جو کابل میں ایک گیسٹ ہائوس کے طور پر مشہور ہے ‘ میں شاہانہ انداز سے قیام پذیر ہیں اور کوئی ان کی جانب دیکھنے کی ہمت ہی نہ کرے تو اس کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے یہ محرکات ان سب کے مشترکہ مہمان ہیں ۔ا نتہائی اعلیٰ پائے کے گیسٹ ہائوس کے جس حصے میں پاکستان کو مطلوب دہشت گردوں کو ٹھہرایا گیا ہے وہ کوئی معمولی کمرے نہیں تھا بلکہ شاہانہ سویٹ ہیں اور ان کے مہمان درجنوں انسانی جانوں اور پاکستان کی کروڑوں مالیت کی سرکاری اور نجی انسٹالیشنز کو بم دھماکوں اورحملوںمیں نقصان پہنچانے والے عالمی دہشت گرد ہیں۔
تو کیا ایسے دہشت گردوں کو پناہ دینے والوں کیلئےFATF کا کوئی قانون اور ضابطہ نہیں؟ مغربی ممالک اور امریکہ سمیت بھارت تو اٹھتے بیٹھتے ٹیرر فنانسنگ کی روک تھام کے دعوے کرتے ہیں اورپاکستان کے معاملے میں ان کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگتے ہیں لیکن جب ایک مسلمان ملک کی سالمیت اور اس کے سرکاری اہلکاروں اور معصوم شہریوں کو بے دردی سے قتل کر نے والوں کی بات آتی ہے‘ جب ان دہشت گردوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کی گرفتاری کی اپیلیں کی جاتی ہیں تو کسی کے کان میں یہ آواز نہ جانے کیوں نہیں پڑتی۔ جب وہ ایف اے ٹی ایف کے کرتا دھرتا لوگوں کی جھولیوں میں آرام کر رہے ہوتے ہیں اور انہیں جگانے کی بات کی جائے‘ انہیں پکڑ نے کی بات کی جائے تو ان کی قوت ِسماعت ہی بند ہو جاتی ہے‘ ان کے اعصاب ہی شل ہو جاتے ہیں۔ اسامہ بن لادن کا الزام تو لگا دیا جاتا ہے کہ وہ ایبٹ آباد میں چھپا ہوا تھا لیکن براہمداغ بگٹی کے بعد سب سے زیا دہ مطلوب دہشت گرد جب آپ کے پہلو میں واقع شاہراہ کابل پر واقع گیسٹ ہائوس میں مقیم ہو تو کس طرح ممکن ہے کہ افغان حکومت اور امریکی سی آئی اے اس سے بے خبر رہیں
جب ہماری سکیورٹی فورسز اور معصوم شہریوں کے قاتلوں کو کورنش بجا کر شاہانہ استقبال دیا جائے گا تو پھرآواز تو اٹھے گی ‘احتجاج تو ہو گا‘ جواب تو مانگا ہی جائے گا۔ آئے روز اپنی لاشوں پر ماتم کرنے والوں کیلئے اس قدر ضبط لاز م تو نہیں۔