تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     01-08-2021

برف پگھلتی رہے تو اچھا

افغانستان کا بحران بہ طریقِ احسن ختم کرنے کے حوالے سے پاکستان کی کوششیں بھی کم نہیں۔ ایک زمانے سے پاکستان کوشاں رہا ہے کہ طالبان سے جامع اور وسیع البنیاد مذاکرات کیے جائیں۔ امریکا اور یورپ کو طالبان سے بات چیت پر آمادہ کرنے میں جن ممالک نے غیر معمولی کوششیں کی ہیں اُن میں پاکستان سب سے نمایاں رہا ہے۔ افغانستان میں حالات کے پُرامن رہنے سے پاکستان کا مفاد سب سے زیادہ وابستہ ہے۔ افغانستان کا عدم استحکام پاکستان پر براہِ راست اثر انداز ہوتا رہا ہے۔ اس وقت بھی یہ خطرہ موجود ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگ چِھڑنے کی صورت میں پاکستان کو بہت کچھ برداشت کرنا پڑے گا۔ کورونا کی وبا نے پہلے ہی معاملات بہت بگاڑ دیے ہیں۔ ایسے میں افغانستان سے پناہ گزینوں کا نیا ریلا آیا تو بہت کچھ بہا لے جائے گا۔ اس حوالے سے صرف پاکستان ہی فکر مند نہیں بلکہ تاجکستان‘ ازبکستان اور قازقستان بھی شدید پریشانی سے دوچار ہیں۔
افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال سے بہتر طور پر نمٹنے کے حوالے سے اس وقت جنوبی ایشیا میں آنیاں جانیاں لگی ہوئی ہیں۔ رابطے بڑھ گئے ہیں اور بات چیت کے ادوار شروع ہوتے جارہے ہیں۔ امریکا اور بھارت کے درمیان بڑھتے ہوئے روابط نے طالبان کو چین کی طرف دیکھنے اور اُس سے رابطہ کرنے پر مجبور کیا ہے۔ پاکستان بھی گفت و شنید کی راہیں ہموار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ امریکی صدر کے منصب پر جو بائیڈن کے فائز ہونے کے بعد سے امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں سرد مہری سی رہی ہے۔ جنیوا میں اعلیٰ سطح کا رابطہ ضرور ہوا تھا مگر اُس کے بعد سے خاموشی تھی۔ اب برف کے پگھلنے کا عمل شروع ہوا ہے۔ قومی سلامتی کے امور میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی معیدیوسف نے واشنگٹن میں اپنے ہم منصب جیک سلیوان سے ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات میں ''افغانستان میں مذاکرات کے ذریعے سیاسی تصفیے اور تشدد میں فوری کمی کی ضرورت‘‘ کے موضوع پر تبادلۂ خیالات ہوا۔ معید یوسف نے ملاقات کو مثبت فالو اپ قرار دیا۔ ملاقات کے بعد جاری کردہ بیان میں معید یوسف نے افغانستان کا ذکر نہیں کیا جبکہ جیک سلیوان نے اپنے ٹوئٹ کا نصف افغانستان میں امن کے قیام اور استحکام یقینی بنانے کی اہمیت کی نذر کیا۔ جیک سلیوان کے مطابق معید یوسف سے ملاقات میں افغانستان میں تشدد کا گراف نیچے لانے اور سیاسی تصفیہ یقینی بنانے کے حوالے سے بھی بات ہوئی۔
یہ بات کسی طور نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ معید یوسف نے احتیاط برتنے کی بھی حد کردی یعنی اپنے بیان میں اُس کام کا ذکر ہی نہیں کیا جس کے لیے انہیں امریکا بھیجا گیا تھا۔ سارا قصہ یہی تو ہے کہ افغانستان میں امن ہو اور امریکا اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرے‘ بلکہ امریکا سے استدعا کی جانی چاہیے کہ کوئی کردار ادا نہ کرو تو زیادہ اچھا! وہ جب بگاڑ دور کرنے پر مائل ہوتا ہے تو بگاڑ کا دائرہ وسعت اختیار کرلیتا ہے۔ پاکستان کو اب جو بھی بات کہنی ہے کھل کر کہنی ہے۔ گول مول باتیں کرنے کا زمانہ گیا۔ اب اس کی کچھ خاص ضرورت نہیں۔ افغانستان میں امن ہی پر تو ہمارے سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی استحکام کا بھی مدار ہے۔ اب ہم کسی بھی معاملے میں گول مول باتوں کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ امریکا سے بات چیت کرنی ہے تو لگی لپٹی رکھے بغیر کی جائے اور جو کچھ بھی طے پائے وہ سامنے بھی لایا جائے تاکہ اہلِ وطن کے ساتھ ساتھ پورے خطے بلکہ ساری دنیا کو معلوم ہو کہ ہم اپنے آپ سے کس حد تک مخلص ہیں۔ وزیر اعظم نے افغانستان میں پائی جانے والی صورتحال کی نزاکت کو بروقت محسوس کرتے ہوئے رابطے بڑھانے پر توجہ دی ہے۔ وہ خود بھی وسطی ایشیا گئے ہیں تاکہ اعتماد کی فضا پیدا ہو۔ ایسا کوئی بھی قدم اٹھانے میں تاخیر نہیں کی جانی چاہیے جس سے خطے میں مجموعی طور پر سبھی کا مورال بلند ہوسکتا ہو۔
افغانستان کے حوالے سے پاکستان میں سیاسی و عسکری قیادت ایک پیج پر ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ دشمنوں کو کسی بھی طور امن سبوتاژ کرنے نہیں دیا جائے گا۔ آئی ایس پی آر کے جاری کردہ بیان کے مطابق افغانستان سے تعلق رکھنے والے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں آرمی چیف نے کہا کہ امن پاکستان اور افغانستان کا مشترکہ معاملہ ہے۔ میڈیا کو امن کے دشمنوں کی نشاندہی کرکے اُنہیں کیفرِ کردار تک پہنچانا چاہیے۔ آرمی چیف نے یہ بھی کہا کہ پاک افغان یوتھ فورم کے توسط سے دو طرفہ تعلقات کو فروغ ملے گا۔ افغانستان میں پائیدار امن سے پورا خطہ ترقی کرے گا۔ دونوں ممالک کے درمیان عوامی سطح پر رابطے اور تقافتی و معاشرتی تعلقات بہتر بنانے میں میڈیا کا نمایاں کردار ہوسکتا ہے۔
آرمی چیف نے ایک اہم موقع پر افغانسان کے میڈیا نمائندوں سے بات کی ہے۔ اس سے ایک اچھا پیغام یہ جائے گا کہ پاکستان معاملات کو سلجھانا چاہتا ہے۔ افغانستان کے معاملات درست کرنے کے حوالے سے کی جانے والی پاکستانی کوششوں کے بارے میں دنیا کو بھی کچھ نہ کچھ معلوم ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے میڈیا کے محاذ پر بھی اچھا خاصا کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی میڈیا کے علاوہ دوست اور ہم خیال ممالک کے میڈیا کو بھی اس حوالے سے متحرک کیا جانا چاہیے۔ چین سے بھی بات کی جاسکتی ہے تاکہ افغانستان میں امن کے حوالے سے ہماری کوششیں عالمی سطح پر جانی اور مانی جائیں۔ افغانستان کے امن عمل کو دوسروں کے ساتھ ساتھ خود افغانستان کے چند سٹیک ہولڈرز سبوتاژ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ بھارت اس معاملے میں پہلے قدرے ڈھکا چھپا معاملہ کر رہا تھا‘ اب کھل کر کھیل رہا ہے۔ یہ سب کچھ بہت خطرناک ہے۔ اس سے افغانستان میں خانہ جنگی اور پھر خطے میں جنگ کی آگ بھڑک سکتی ہے۔ خطے کے ممالک مل کر بھارت کو افغانستان کے معاملات سے دور رکھنے کی بھرپور کوشش کریں۔ بھارت اپنی بات منوانے کے لیے بے تاب ہے۔ اس کی بے تابی معاملات کو تیزی سے بگاڑ رہی ہے۔ نئی دہلی کو اس بات کی بھی کچھ خاص پروا نہیں کہ اس عمل میں اُس کا اپنا بھی تھوڑا بہت نقصان ہو جائے۔ اس حوالے سے بھارت سے رابطہ کیا جانا چاہیے۔ اگر گفت و شنید کا سلسلہ نچلی سطح پر بھی شروع ہو تو کچھ ہرج نہیں۔ سوال رابطے بحال کرنے کا ہے۔ ایک بار ایسا ہو جائے تو کچھ کرنے کی گنجائش نکلے۔
پاکستان اور امریکا کے درمیان برف کا پگھلنا اچھی علامت ہے۔ دو طرفہ سرد مہری کا دور کیا جانا ناگزیر ہے۔ دونوں ممالک مختلف معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ رہے ہیں۔ پاکستان نے متعدد مواقع پر امریکا کے لیے محض سہولت کار کا نہیں بلکہ دوست کا بھی کردار ادا کیا ہے۔ دو طرفہ سرد مہری دور کرنے کا عمل تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے مزید تاخیر کی گنجائش بالکل نہیں۔ اعلیٰ ترین سطح پر رابطے بڑھائے جانے چاہئیں اور ہر سٹیک ہولڈر کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے۔ افغانستان ہمارے لیے ناگزیر حیثیت رکھتا ہے۔ وہاں رونما ہونے والی تبدیلیاں ہم پر لازماً اثر انداز ہوتی ہیں۔ افغانستان میں اپنے ہم نوا تلاش کرنا ہماری مجبوری ہے مگر اس مجبوری کو مستقل نوعیت کا دردِ سر بنانے سے گریز کیا جانا چاہیے۔ سوویت یونین کی لشکر کشی کے بعد افغانستان میں جو کچھ ہوا وہ ہمارے لیے سنگین ترین نتائج کا حامل تھا۔ افغانستان میں جاری رہنے والے بحران کو ہم چار عشروں سے بھگت رہے ہیں۔ یہ سلسلہ اب کسی نہ کسی طور ختم ہونا چاہیے۔
ہم نے افغانستان کے حوالے سے معتدل پالیسیاں تیار کرنے سے ہمیشہ گریز کیا ہے۔ بڑی طاقتوں کی بات مان کر ہم اپنے ہی پاؤں پر کلہاڑی مارتے رہے ہیں۔ امریکا سے ہمارے تعلقات سرد مہری پر مبنی ضرور ہیں مگر ہم اب بھی اپنی مرضی کے مطابق کچھ کرنے سے گریزاں ہی ہیں۔ یہ سلسلہ زیادہ دیر چلایا نہیں جاسکتا۔ کوشش کی جانی چاہیے کہ معاملات تیزی سے سلجھیں اور ہم ایک ایسے ماحول کی طرف بڑھیں جس میں خطہ عدم استحکام سے دوچار نہ ہو اور تمام علاقائی سٹیک ہولڈرز معاملات کو سمجھتے ہوئے ایسی پالیسیاں ترتیب دیں جن کے ذریعے ترقی و استحکام کو یقینی بنانا ممکن ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved