تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     02-08-2021

جسٹس کی کہانی جسٹس کی زبانی

کئی حوالوں سے ہم بڑے مزے کی سوسائٹی ہیں‘ مقدمہ جیت جائیں تو اسے انصاف کی بالادستی کہتے ہیں‘ مقدمہ ہار جائیں تو وکیل ہار جاتا ہے۔
ہمارے کرمنل جسٹس سسٹم میں وکیل کو اپیل میں لکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ جج صاحب نے انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے‘ قانون کو پڑھے بغیر فیصلہ کردیا‘ فیصلہ آئین سے ماورا اور انصاف سے بے بہرہ ہے۔ اسی ماحول میں وکیل‘ جو فائل دیکھ کر مقدمہ لڑتے ہیں‘ موقع پر جاکر تفتیش کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔ اُنہیں کئی طرف سے غیظ و غضب کا نشانہ بھی بننا پڑتا ہے۔ ایسے غصے کی کم از کم قیمت عدالتی لائسنس کی معطلی یا توہینِ عدالت میں مشرف صاحب کے جاری شدہ آرڈیننس کے نیچے قید کی سزا ہے جبکہ زیادہ سے زیادہ قیمت جان کی بازی تک بھی جا پہنچتی ہے۔ دونوں طرح کے رپورٹ شدہ واقعات سے ہماری 73 سالہ تاریخ بھری پڑی ہے۔
جن لوگوں نے کبھی عدالتی کارروائی میں حصہ نہیں لیا‘ کسی مقدمے بازی کے فریق نہیں رہے یا عدالتی سماعت ٹی وی ٹکرز کے بجائے کمرۂ عدالت میں بیٹھ کر نہیں سن سکے‘ ایسے خواتین و حضرات کی دلچسپی کیلئے یہ بتانا ضروری ہوگا کہ اپیل کی سماعت کرنے والے فاضل منصف فردِ جرم اور گواہیاں پڑھتے ہوئے ملزم کو مخاطب نہیں کرتے بلکہ وکیل کو کہتے ہیں: آپ یہ بتائیں آپ نے یہ کیوں کیا اور وہ کیوں نہیں کیا؟ میرے والد صاحب کے ایک کولیگ وکیل دوست شہزاد جہانگیز صاحب تھے۔ مرحوم 11 نومبر 1996ء سے 9 اپریل1997ء تک پاکستان کے اٹارنی جنرل بھی رہے۔ والد صاحب کو مرحوم شہزاد جہانگیز اپنا یہ پسندیدہ شعر پروفیشنل لاء پریکٹس کرنے والے وکیلوں کے بارے میں سناتے تھے : ؎
سامنے آتے ہیں پڑھ پڑھ کے دعائیں اکثر
ماننا پڑتی ہیں ناکردہ خطائیں اکثر
جس طرح کسی شعبے‘ کسی ملک یا کرۂ ارض کے سارے انسان ایک جیسے نہیں ہو سکتے اسی طرح سارے وکیل اور جج صاحبان بھی ایک جیسے نہیں ہوتے۔ چند ہفتے پہلے مجھے وکالتی مصروفیات کیلئے سیالکوٹ جانا پڑا جہاں اینٹی نارکوٹکس کورٹ کے سپیشل جج صاحب ظفر یاب چدھڑ کے سامنے ایک مقدمے میں فائنل بحث کی۔ فاضل جج سپیشل عہدے کے اعتبار سے پنجاب جوڈیشری کے سیشن جج ہیں۔ خوشگوار حیرت کی بات یہ تھی کہ ڈرگ جیسے خشک موضوع پہ بحث سے پہلے فاضل جج نے معلوماتِ عامہ اور پاکستان سٹڈیز سے متعلقہ بہت اچھے کمنٹس کئے اور مجھ سے سوال بھی پوچھے۔
آج کا وکالت نامہ بھی ایک سوال ہی کے بارے میں ہے۔ حسنِ اتفاق سے یہ سوال بھی ایک فاضل جج صاحب نے ہی سنا تھا۔ یہ ہیں بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس نعیم اختر افغان صاحب۔ بلوچستان کے وکیلوں اور جوڈیشری کے ارکان سے خطاب کرتے ہوئے اُس سوال کی کہانی سنائی جو اُن سے خضدار کی جیل انسپکشن کے دوران ایک بے بس قیدی نے کیا تھا۔ اس خطاب کی ویڈیو کوئٹہ کے ایک وکیل دوست نے بھجوائی۔ آئیے یہ کہانی جسٹس صاحب کی زبانی سنتے ہیں:
''میں خضدار گیا جیل انسپکشن کیلئے۔ انسپکشن کے بعد باہر نکل رہا تھا کہ آخری بیرک سے ایک قیدی نے آواز دی: جج صاحب میری بات سنیں۔ میں رک گیا۔ کہا: جی میں آپ ہی سے ملنے آیا ہوں۔ میں جالی کے قریب گیا تو 55 سالہ قیدی رونا شروع ہوگیا۔ اچھے حلیے والے شخص کا رونا دیکھا تو میں روہانسا ہوگیا‘ اُن کو دلاسا دیا۔ میں نے پوچھا: کیا ہوا؟ کہا: میں کراچی کا ہوں۔ میں نے ان کا ہسٹری ٹکٹ دیکھا‘ انہیں عمر قید کی سزا تھی۔ میں حیران ہوا‘ شکل سے کرمنل نہیں لگتا‘ اسے سزا کیسے ہوگئی؟ پوچھا: کس میں قید ہو؟ بولے 9C میں سزا ہوئی۔ میں حیران ہوا‘ کہا: نارکوٹکس کا کام کریں گے تو سزا تو ہوگی۔ اُن صاحب کا رونا بند نہ ہوا۔کہا: میری بات سنیں۔ میں نے ہاں کی۔ بولے: میری ایک بھتیجی تھی جس کی شادی ہم نے کوئٹہ میں کی‘ جو ایک سال چلی پھر ڈائیورس ہوگئی۔ میں بھتیجی کو کراچی واپس لے آیا اور کوئٹہ فیملی کورٹ میں سوٹ فائل کیا‘ جہیز کی واپسی کا۔ وہ ڈگری ہوگیا۔ میں اٹارنی تھا‘ عدالت نے مجھے بچی کا سامان دلوا دیا‘ ناظم سے فہرست بنوائی۔ میں نے اڈے سے ٹرک ارینج کیا۔ اگلے دن صبح ٹرک والا آیا اسے کرایہ دیا‘ سامان لادا۔ میں ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ کر کراچی روانہ ہوگیا۔ جب ہم اوتھل کے قریب پہنچے تو چیک پوسٹ پر ٹرک روکا گیا۔ اُنہوں نے پوچھا: یہ ٹرک میں آپ کا سامان ہے؟ میں نے کہا: بچی کے جہیز کا سامان‘ پلنگ‘ بستر اور گھریلو چیزیں میری ہیں۔ میں نے رسید دکھائی‘ ناظم کی رپورٹ دکھائی‘ حجرہ‘ کورٹ کا حکم بھی دکھایا مگر مجھے پکڑ لیا گیا۔ ٹرک سے سامان اُتارا‘ اس کا فرش اکھیڑا تو 500 پیکٹ چرس فرش کے اندر چھپایا ہوا ملا۔ انہوں نے ڈرائیور کے ساتھ مجھے بھی بند کر دیا۔
اگلی کہانی بڑی عجیب سی ہے۔ تفتیشی نے 9C میں دونوں کا چالان کرڈالا‘ سیشن جج صاحب نے دونوں کو سزائے عمر قید دی۔ میں نے قیدی سے کہا: آپ نے ڈاکومنٹ ایگزیبٹ نہیں کرائے ہوں گے۔ وہ بولا: میری ڈیفنس پلی ہی یہی تھی۔ میں نے ساری رسیدیں/ ڈاکومنٹس ایگزیبٹ کرائے‘ اس کے باوجود سزا ہوگئی۔ مجھے بڑی تکلیف ہوئی۔ پوچھا: آپ کی پیشی؟ قیدی بولا‘ جی تین سال سے کیس شنوائی کیلئے نہیں لگا۔ مجھے اور تکلیف ہوئی۔ میں نظام کی بہتری کی بات کررہا ہوں‘ ذہن میں رکھیے گا۔ میں کوئٹہ پہنچا‘ چیف جسٹس سے کہا: سر انسپکشن سے آیا ہوں‘ اس طرح کا کیس ہے‘ آپ اجازت دیں تو اسے اپنے پاس لگوانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے میری ستائش کی اور بولے: ضرور‘ یہ کام تو کرنے کے ہیں‘ آپ مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہیں۔ روسٹر سے فائل لے کر میں نے کہاکہ صبح اپیل فکس کردو اور وکیل کو نوٹس کرو۔ اگر وکیل پنڈال میں بیٹھے ہیں تو ان کو یاد آجائے گا۔ نام نہیں لیتا۔ رات فائل پڑھی‘ یقین کیجئے تمام ڈاکومنٹس اور ہر ثبوت موجو د تھا‘ قیدی کی بے گناہی کا۔ بہت تکلیف ہوئی۔ جج صاحب نے عمر قید کی سزا کیسے سنا دی؟ اور 3سال سے ہائیکورٹ یہ اپیل نہیں چلا پارہا۔ آرڈر شیٹ پر وکیل صاحب کی بار بار غیر حاضری پائی۔ تکلیف دہ غیر ذمہ داری۔ اگلے دن پھر پیشی رکھی۔ وکیل صاحب نہیں آئے۔ نوٹس دیا تب بھی نہیں آئے۔ سٹاف سے کہا: وکیل صاحب جہاں ہیں‘ بلائیں۔ وکیل صاحب دوپہر کو مجھے نصیب ہوئے‘ کہا: یہ کیس آپ کا ہے‘ ظلم کررہے ہیں‘کیوں نہیں چلاتے‘ تین سال ہوگئے‘ تاریخ دے رہے ہیں۔ وکیل بولا: سر یہ ظالم میری فیس نہیں دیتا۔ مجھے اور تکلیف ہوئی۔ اگلی صبح ساڑھے نو بجے کیس فائل پڑھ کر آنے کو کہا۔ یقین کریں‘ میں جھوٹ نہ کہتا ہوں‘ نہ کہوں گا۔ صبح بھی انہوں نے فائل نہیں پڑھی تھی۔ میں نے پانچ منٹ میں قیدی بری کردیا‘‘۔
جسٹس نعیم اختر صاحب نے بڑی درد مندی سے کہا ''اس ایک کہانی میں بہت سارے سوال ہیں‘ بہت سارے کردار بھی۔ کس نے کہاں ٹھیک ہونا ہے‘ میری کیا ذمہ داری ہے‘ آپ کی کیا ذمہ داری ہے؟ میں قسم کھا رہا ہوں‘ میں اپنی ذمہ داری پوری کروں گا‘ چاہے مجھے اس کیلئے کتنے کڑوے گھونٹ کیوں نہ پینے پڑ جائیں‘‘۔ جسٹس صاحب نے سوال کیا ''آپ بتائیں‘ آپ اپنی ذمہ داری لیں گے؟؟؟‘‘
آج کا وکالت نامہ جاری ہے۔ یہ تب تک جاری رہے گا جب تک پاکستانی جیلوں سے آخری بے گناہ‘ بے بس اور بے وسیلہ قیدی کو انصاف نہیں مل جاتا۔ پاکستانی قیدی لندن والے قیدی جیسا علاج مانگتے ہیں‘ نہ ہی ویسا انصاف۔ جہاں طاقتور کے ہاتھ میں کرمنل جسٹس سسٹم موم کی ناک ہے۔ جب چاہا‘ جدھر موڑ لیا۔؎
اللہ کی غیرت سے تمسخر نہیں جائز
یہ جرم ہے وہ جس کی سزا اور ہی کچھ ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved