لانگ مارچ ایک دن کا نہیں‘ کئی دن
ٹھہرنا پڑے گا: مولانا فضل الرحمن
سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''لانگ مارچ ایک دن کا نہیں‘ کئی دن ٹھہرنا پڑے گا‘‘ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا کہ یہ ہمیشہ کے لیے ہے، یعنی جب تک یہ حکومت اپنی میعاد پوری نہیں کر لیتی بلکہ اگر اس کی دوسری میعاد شروع ہو گئی‘ یہ تب بھی جاری رہے گا کیونکہ حکومت گرانے کے کارِ خیر کے علاوہ اور کوئی کام ہی ہمارے لیے نہیں رہ گیا جبکہ میری تو یہ اس لیے بھی شدید ضرورت ہے کہ اس بہانے دال دلیہ چلا ہوا ہے جبکہ یہ کورونا بھی جلدی جانے والا نہیں ہے، اس لیے حکومت کیخلاف یہ طویل المدتی لائحہ عمل تیار کیا گیا ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
مریم نواز اور شہباز کا بیانیہ الگ الگ ہے: شاہ محمود
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ''مریم نواز اور شہباز شریف کا بیانیہ الگ الگ ہے‘‘ اور یہ انکشاف میرے کئی روز کے گہرے غور و خوض کا نتیجہ ہے جس سے عوام اور خود حکومت کو آگاہ کر رہا ہوں اگرچہ بطورِ وزیرخارجہ یہ میرے فرائض میں شامل نہیں ہے لیکن ایک گتھی جو کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی، میں نے اسے سلجھا دیا ہے اور بڑے فخر کے ساتھ اس راز سے پردہ اٹھا رہا ہوں جس کے لیے خصوصی داد کا طلبگار ہوں اور حکومت اضافی طور پر ایسے راز افشا کرنے کا چارج بھی مجھے دے سکتی ہے کیونکہ وزارتِ خارجہ ویسے بھی اپنے آپ ہی چل رہی ہے اور کسی قسم کی سردردی اس کے لیے درکار نہیں ہے۔ آپ اگلے روز ملتان میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
حکمرانوں کومہنگائی کا سونامی بنی گالا
کے پہاڑوں سے نظر نہیں آتی: شیری رحمن
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما سینیٹر شیری رحمن نے کہا ہے کہ ''حکمرانوں کو مہنگائی کا سونامی بنی گالا کے پہاڑوں سے نظر نہیں آتی‘‘ حالانکہ اونچی جگہ سے ہر چیز صاف نظر آ جاتی ہے لیکن شاید دھند یا برف باری کی وجہ سے ایسا ہوتا ہو ورنہ جہاں تک میں سمجھتی ہوں حکومت کی بینائی میں کوئی خلل موجود نہیں ہے؛ تاہم اس کے لیے ایک آپشن یہ بھی موجود ہے کہ ان پہاڑوں سے نیچے اتر کر اس کا نظارہ کر سکتی ہے کیونکہ نیچے سے یہ منظر صاف نظر آ رہا ہے اور مجھے یہ سونامی کئی بار نظر آیا ہے اور اس کے زور و شور اور تیز بہائو سے میں خاصی متاثر بھی ہوئی ہوں حالانکہ میں ایسی عام چیزوں سے متاثر ہونے والی ہرگز نہیں ہوں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کررہی تھیں۔
پیپلز پارٹی ملک کی معیشت تباہ
کرنے پر عمل پیرا ہے: شہباز گل
وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی ابلاغ ڈاکٹر شہباز گل نے کہا ہے کہ ''پیپلز پارٹی ملک کی معیشت تباہ کرنے پر عمل پیرا ہے‘‘ اور اس سے پیشتر کہ وہ اسے مکمل طور پر تباہ کر دے، وفاقی حکومت کو آگے بڑھ کر اسے بچا لینا چاہیے کیونکہ ہم یہ کام زیادہ خوش اسلوبی کے ساتھ کر سکتے ہیں، اور اسی بہانے سندھ پر حکومت کا خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہو جائے ورنہ تعبیر کے بجائے خود ہم شرمندہ ہوتے رہیں گے اور حقیقت میں تو یہ ایک دلچسپ اور صحت مندانہ مقابلہ ہے کہ پیپلز پارٹی ہماری حکومت کو گرا کر اس پر قبضہ کرنا چاہتی ہے اور ہم سندھ کی خدمت کی فکر میں روز بروز دبلے ہوتے چلے جا رہے ہیں، اور یہ میچ کب ختم ہوگا، اس کا انتظار ہی کیا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ کے ذریعے بیان نشر کر رہے تھے۔
امریکاکا فلیٹ میری ملکیت نہیں: آصف زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''امریکا کا فلیٹ میری ملکیت نہیں‘‘ جبکہ اسی طرح ہم نے سرے محل کی ملکیت سے بھی انکار کیا تھا لیکن وہ پُراسرار طریقے سے بعد میں ہمارا نکل آیا جس پر ہم آج تک حیران ہیں اور یہ حیرانی بھی اُس تعجب سے ملتی جلتی ہے جو یہاں بعض غریب لوگوں کو اپنے اکائونٹس میں کروڑوں، اربوں روپے پائے جانے سے ہوتی ہے اور ہو سکتا ہے کہ امریکی فلیٹ بھی کسی کرشمے کے تحت خاکسار ہی کا نکل آئے جو فی الحال میرا ہرگز نہیں ہے اور اگرچہ آج کل کرشمے نہیں ہوتے لیکن یہ سارے قدرت کے کھیل ہیں اور کسی وقت بھی کایا پلٹ سکتی ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا کے سوالوں کا جواب دے رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں ابرار احمد کی نظم:
کچھ پتا چلتا نہیں
آبائی شہر کو جاتی گاڑی
کو دیکھتا ہوں
اس میں سوار نہیں ہوتا
اور نہ ہی ہاتھ ہلاتا ہوں
دنیا۔۔۔۔
عجیب و غریب لوگوں اور چیزوں
سے بھری پڑی ہے
میں بھی بچتا بچاتا
ان میں سے گزرتا ہوں
بغیر کسی یاد کے
بغیر کسی خواب کے
ایک دھند ہے
جو دماغ پر جم گئی ہے
ایک افتاد ہے
جو کچھ دیکھنے نہیں دیتی
خالی جگہیں پُر نہیں ہوتیں
لیکن بادل دوڑے چلے جاتے ہیں
پتھروں اور دیواروں کے درمیان
ہم۔۔۔۔ سایوں کی طرح
بھٹکتے پھرتے ہیں
دن ہے یا رات، جیت ہے یا مات
سفر ہے یا قیام، کچھ پتا نہیں چلتا
بس یوں ہے کہ
جب میرے پائوں کو ٹھوکر لگتی ہے
یا میرا ماتھا اچانک کسی دیوار سے ٹکراتا ہے
مجھے لگتا ہے، جیسے کوئی کہتا ہو
''بیٹے۔۔۔۔ میرے بیٹے!!!‘‘
آج کا مقطع
اُسی زرد پھول کی بددعا ہے ظفرؔ یہ دل کی فسردگی
مرا منتظر رہا مدتوں جو پسِ نقاب کھِلا ہوا