''کَچھ‘‘ ؛ جزیرہ نما گجرات‘ جو بھارت کے کنارے پر واقع ہے‘ کے لفظ کش کا بگڑا ہوا ہے۔ نمرود کی حکومت کش حکومت کہلاتی تھی۔ اس کی حکومت اُدھر ایشیائے کوچک سے ہندوستان تک پھیلی ہوئی تھی۔ دماغ تو اس کا خراب ہونا تھا کہ خدائی دعویٰ کر دیا۔ ابنائے زمانہ اور ابنائے سیاست اب بھی ایسے چلتے ہیں گویا دھرتی کو ہلا کر رکھ دیں گے۔ ایسی اکڑ اور ایسی اکڑ فوں۔ نمرود کا نام بیلوس اور قوم کا مغل یعنی منگول تھا۔ بیلوس کو ہی بلوچ کا مآخذ بتایا جاتا ہے‘ جو درست نہیں۔ اس کا اصل وطن ایران کا شمال مغربی‘ وہی یاجوج ماجوج والا‘ کوہ قاف والا اور ذوالقرنین والا خطہ ہے۔ نمرود بابل شہر کی بنیاد رکھنے والا‘ حام کا پوتا اور روم تک حکومت کرنے والا۔ مورخ اس روم کو خالدیہ کہتا ہے اور رومیوں کو خالدین۔ ہمارے فارسی کے استاد بابر نسیم آسی کے پسندیدہ شاعر نظیری نیشاپوری نے کہا تھا:
چہ خوش است از دو یک دل سر حرف باز کردن
سخنِ گزشتہ گفتن گلہ را دراز کردن
(کیا ہی اچھا ہوتا ہے دو گہرے دوستوں کا آپس میں گفتگو کا آغاز کرنا، گزری باتیں کرنا اور گلے شکوئوں کو دراز کرنا)
بابر نسیم سے انٹرویو میں محمود شیرانی کے پوتے‘ اختر شیرانی کے صاحبزادے مظہر محمود شیرانی نے پسندیدہ شاعر کا پوچھا تو نظیری کا نام لیا۔ شیرانی فرمانے لگے: شکر ہے کسی نے تو سعدی اور حافظ کے علاوہ بھی کسی کا نام لیا اور نظیری کا کوئی شعر سنانے کو کہا۔ وہی نظیری جن کا شعر اوپر لکھ دیا ہے۔
سربراہِ حکومت کو دو خانوادوں کے متعلق باتیں یاد آتی ہیں تو کہتے ہی چلے جاتے ہیں۔ اب وہ بارہ سال قبل شائع ہونے والی ایک کتاب کا ذکر لے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے Ron Suskind کی کتاب کا ذکر کر کے ملکی سیاست میں پھر ہلچل پیدا کر دی ہے۔ کتاب کا محض ذکر ہی نہیں کیا بلکہ صفحہ نمبر بھی بتا دیا۔ ان کو پتا ہے کہ ہماری ماضی قریب کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ''جتھے اِٹ پُٹو اوتھے لعل‘‘۔ انہیں بھی‘ آپ کو بھی اور مجھے بھی علم ہے کہ سارے مال بنانے کے لیے ایک ہو گئے تھے‘ کیا قانون والے‘ کیا قانون بنانے والے اور کیا اس پر عمل در آمد کروانے والے۔
رون سسکنڈ کی کتاب‘ جس کو اردو میں ترجمہ کریں تو ''دستور ِ دنیا‘‘ کہہ کر بات زیادہ سمجھ آتی ہے۔(The Way of the World کا ترجمہ ''دستور ِ دنیا‘‘‘ ہمارے دوست طاہر فاروقی کا عنایت کردہ ہے )۔ وزیراعظم صاحب اب بھی سابقہ قیادت کے لتے لیتے رہتے ہیں کہ ان کے کارہائے نمایاں کے لیے ایک صفحہ 292 ناکافی ہے۔ ان کے لیے پوری کتاب ''صفحہ 292‘‘ کے نام سے لکھی جانی چاہیے۔ مذکورہ کتاب عثمان کھوسہ اور اس کے دو دوستوں کے ذکر سے شروع ہوتی ہے: یہ واشنگٹن کی صبح ہے۔ عثمان کھوسہ سویا ہوا ہے۔ کھوسہ کے ذکر سے ہمارے کان کھڑے ہوئے مگر مصنف تو یہاں ہمارے ملک آ دھمکا اور بتانے لگا کہ طارق کھوسہ پنجاب کے شہر لاہور میں ہیں اور ایک اہم عہدے پر فائز ہیں۔ عثمان جو واشنگٹن میں ہے‘ اس کو ایجنسیاں اٹھا کر لے جاتی ہیں۔ کتاب کے آغاز سے غرض نہیں‘ ذکر کرنے والوں کو صرف محترمہ بینظیر بھٹو کی اپنے بیٹے بلاول کی گفتگو سے سروکار ہے۔ وہ اپنے بیٹے کو اپنی دولت کی تفصیل بتاتی ہیں۔ جن لوگوں کے ذمے ان اکائونٹس کی غیر قانونی رقم سرکاری خزانے میں جمع کرانا تھی‘ وہ بھی کچھ نہ کر سکے۔ یہ مال بنانے کا مقابلہ تھا۔ طارق کھوسہ کو سپریم کورٹ نے ایک کیس کی تفتیش کا حکم دیا تھا۔ اس کیس کا ذکر اب اس لیے کیا جا رہا ہے کہ ہم دل کے پھپھولے پھوڑ سکیں اور قوم کا حافظہ بھی زندہ رہے۔ اس کیس کی عدالتِ عظمیٰ میں دو دن کی عدالتی کارروائی بعینہٖ پیش کی جا رہی ہے۔
ستائیس مئی 2010: عدالت کے حکم پر طارق کھوسہ کو ایک بینک کے ایک مبینہ فراڈ کی تفتیش سونپی گئی تھی۔ پیپلز پارٹی کے ایک ممبر قومی اسمبلی نے لوگوں کے جعلی ناموں پر 9 ارب کی مار دھاڑ کی تھی۔ یہ کہانی صفحہ 292 سے بھی زیادہ عبرت کشا ہے۔ عدالت کی سربراہی افتخار محمد چوہدری کے پاس تھی۔ تین رکنی بنچ مشہورِ زمانہ حارث سٹیل ملز کا کیس بھی سن رہا تھا۔ کیس کی سماعت کے دوران نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وہ کچھ اہم معاملات عدالت عالیہ کے نوٹس میں لانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ حارث سٹیل ملز کے ایک ڈائریکٹر نے سارا کیس ٹھپ کرانے کے لیے وزیر قانون کو چار کروڑ روپے دیے ہیں۔ اور بھی بے شمار لوگوں کی مقدور بھر سیوا کی گئی تھی۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ وہ ان مبینہ رقوم کی تقسیم پر تحقیقات کر رہے ہیں۔ نیب چونکہ وزارت ِ قانون کا ماتحت ادارہ ہے‘ اس لیے عین ممکن ہے یہ الزام یا مبینہ الزام درست ہو۔ افتخار محمد چیف جسٹس نے جو کچھ کہا وہ اب عدالت کے ریکارڈ میں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا: جس ادارے کا کام تفتیش ہے کہ پیسہ کدھر سے کدھر جا رہا ہے اگر وہ بذاتِ خود ہی اس کار ِخیر میں ملوث ہو جائے گا تو اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔
اسی کیس سے متعلق ایک مرکزی صاحب کے بارے میں بتایا گیا کہ جب جیل سے انہوں نے اپنے کپڑے دھلوانے کے لیے اپنے گھر بھجوائے تو ساتھ یہ خفیہ پیغام بھی بھیجا کہ ان کے سارے خطوط اور ساری ای میلز ضائع کر دی جائیں۔ وزیراعظم ایک صفحہ 292 کو لے کر کوس رہے ہیں‘ جدھر نظر اٹھائیں یہی حال ہے۔ ابھی حارث سٹیل کے مقدمے کی ایک دن کی سماعت کی روداد ختم نہیں ہوئی۔ رون سسکنڈ اس پر بھی ایک کتاب تحریر کر سکتا ہے۔ ہم تو اس کتاب کو ناول ہی کہیں گے کہ اسلوب سارا ادیبانہ اور نثریہ انداز ِغضب کا ہے۔
جس سماعت کا ذکر کیا وہ ستائیس مئی 2010ء کی ہے۔ کیس چل رہا ہے اور 2013ء کے جنوری کی نو تاریخ آ جاتی ہے:
عدالت عالیہ کو بتایا جاتا ہے کہ سٹیل مل کے ایک ڈائریکٹر‘ جس نے مقتدر شخصیات کو رقم دی تھی‘پلی بارگین کرنا چاہتا ہے۔ پہلے نیب کے چیئرمین نوید احسن تھے‘ اب تین سال بعد فصیح بخاری تھے۔ جسٹس خلیل الرحمن رمدے نے اسی کیس کی سماعت کے دوران بہت سے پردے چاک کیے تھے۔ ان کے ہو بہو الفاظ نقل کیے جا رہے ہیں‘ جو دورانِ سماعت انہوں نے ارشاد فرمائے ـ:عدالت جب بھی کسی شخص کو سزا دیتی ہے تو اُس کو بڑے عہدے پر لگایا دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب تو لوگ سفارش کرواتے ہیں کہ اُن کے خلاف کوئی مقدمہ ڈھونڈیں تاکہ اُن کو بھی بڑے عہدے پر تعینات کیا جاسکے۔
کہانی جاری ہے‘ ڈائریکٹر صاحب کے وکیل عدالت میں کہتے ہیں کہ ان کے موکل کی جانب سے تین ارب چھیاسٹھ کروڑ ستر لاکھ کی ادائیگی کی جا چکی ہے۔ پلی بارگین جاری ہے اور چار ارب تہتر کروڑ ستر لاکھ چیکوں کی صورت میں دیے جا رہے ہیں‘ جو ایک سال میں کیش ہو جائیں گے۔ عدالت کی یہ کارروائی جلی سرخیوں میں اخباروں میں شائع ہوتی رہی۔اب جب احتسابی ادارے کے سابقہ ادوار کے افسران اگر ایک دوسرے سے واشنگٹن یا ایسے کسی اور شہر میں ملتے ہوں گے تو نظیری کے اوپر درج شعر کی عملی تفسیر بن جاتے ہوں گے اور قہقہے لگاتے ہوں گے۔ کہانی جاری ہے۔