تحریر : زاہد اعوان تاریخ اشاعت     02-08-2021

ہم اورہمارے محسن

میں نے عظیم کوہ پیما محمد علی سدپارہ مرحوم کے حوالے سے ابھی بات شروع ہی کی تھی کہ میرے دوست شمس عباسی کے دکھ بھرے شکوے نے مجھے خاموش کرا دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ زندہ قومیں اپنے ہیروز اور محسنوں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ہماری قوم کچھ عرصہ تو اپنے ہیروز کو سر پر اٹھا کر آسمان پر پہنچا دیتی ہے لیکن پھر آہستہ آہستہ سب کچھ بھلا دیتی ہے۔ علی سدپارہ کی نعش ملنے کا واقعہ تازہ تازہ ہے اس لئے سب کو یاد ہے لیکن سال بعد محمد علی سدپارہ کا نام سن کر لوگ پوچھیں گے کہ 'وہ کون تھا؟‘ اس کے ساتھ ہی شمس نے سوال کیا کہ پاکستان کا سب سے بڑا اعزاز کون سا ہے؟ میں نے نشانِ حیدر ابھی کہا ہی تھا تو وہ جھٹ بولا کہ پاک فوج کے عظیم سپوت اور پہلا نشان حیدر پانے والے کیپٹن راجہ محمد سرور شہید کا 73واں یوم شہادت چند روز قبل گزرا ہے۔ پاک فوج نے تو اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے ان کے آبائی گائوں سنگھوڑی، گوجرخان (راولپنڈی) میں واقع ان کے مزار پر خصوصی تقریب منعقد کی، میجر جنرل شاہد نذیر نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ کی جانب سے پھولوں کی چادر چڑھائی اور فاتحہ خوانی کی، لیکن باقی پوری قوم نے اپنے مایہ ناز ہیرو کو بھلا دیا ہے۔ اس نے شکوہ کیا کہ کسی گلوکار یا اداکار کی برسی آ جائے توبھی پورا پورا دن اس کی رپورٹیں چلتی رہتی ہیں لیکن کیپٹن راجہ سرور شہید جیسے عظیم ہیروز کی خبر بارش کی نذر ہو گئی۔ میں نے بتایا کہ کچھ ٹی وی چینلز نے ان کی خبر نشر کی تھی اورکچھ اخبارات میں بھی تصویر کے ساتھ خبر شائع ہوئی تھی لیکن وہ میری بات سے مطمئن نہ ہوا اورکہنے لگا کہ دشمن کے پرخچے اڑانے والے قومی ہیرو کو یاد رکھنا کیا صرف پاک فوج کی ذمہ داری ہے؟ اگر آئی ایس پی آر کی جانب سے پریس ریلیز جاری نہ ہوتی تو شاید اتنا کچھ بھی نہ ہوتا۔
میرے دوست کا گلہ بجا تھا کہ ملک کے لیے جان نثار کر کے سب سے پہلا نشان حیدر پانے والے عظیم قومی ہیرو کا حق اس سے کہیں زیادہ بنتا ہے اور ہم نے ان کے یوم شہادت پر جو خراجِ تحسین پیش کیا‘ وہ بہت کم ہے۔ یہاں ایسے قارئین کے لیے‘ جو قوم کے اس عظیم سپوت کے بارے نہیں جانتے، کیپٹن راجہ محمد سرور شہید نشانِ حیدر کا مختصر سا تعارف پیش کر رہا ہوں۔ راجہ محمد سرور بھٹی 10 نومبر 1910ء کو ضلع راولپنڈی‘ تحصیل گوجر خان کے نواح میں واقع سنگھوڑی گائوں میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد راجہ محمد حیات خان بھٹی برطانوی ہندوستانی فوج میں سارجنٹ حوالدار تھے۔ ان کا خاندان پنجابی راجپوت قبیلے سے تھا۔ انہوں نے ضلع راولپنڈی کے سرکاری سکولوں میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور 1928ء میں فیصل آباد کے ایک مقامی سکول سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ 1939ء میں انڈین ملٹری اکیڈمی جوائن کرنے کی دعوت دی گئی اور 1943ء میں برطانوی ہندوستانی فوج کی پہلی پنجاب رجمنٹ میں کمیشن حاصل کرنے سے قبل انہوں نے اپنی فوجی تربیت مکمل کی۔ 1944ء میں بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ برما میں خدمات انجام دیں۔ انہوں نے 1944 ء میں فوجی کارروائیوں میں امتیازی حیثیت سے کام کیا جس کی وجہ سے دہلی میں برطانوی انتظامیہ نے انہیں برما سٹار دیا۔ راجہ سرور ایک سنجیدہ آدمی اور پنج وقتہ نمازی تھے۔ 1946ء میں لیفٹیننٹ سرور کو کپتان کی حیثیت سے ترقی دی گئی اور 1947ء میں پاکستان آرمی کی سگنل کور میں دوبارہ کمیشن حاصل کیا اور انہیں ملٹری کالج آف سگنلز میں جانے کی ہدایت کی گئی۔ جموں و کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت کے مابین پہلی جنگ کی خبر سننے کے بعد‘ کیپٹن سرور فوری طور پر رضاکارانہ جنگی محاذ پر لڑنا چاہتے تھے لیکن اپنے افسران کی ہدایات کی وجہ سے وہ ایسا نہ کر سکے اور انہوں نے اپنی ٹریننگ مکمل کی۔ 1948ء میں کیپٹن سرور نے بطور کمانڈنگ آفیسر پاک فوج میں پنجاب رجمنٹ کی دوسری بٹالین کی کمان سنبھالی اور فرنٹ لائن پر تعینات کر دیے گئے۔ کیپٹن راجہ محمد سرور کی قیادت میں پاک فوج کے دستے نے جموں و کشمیر کے اوری قصبے کی طرف مارچ کا آغاز کیا اور ہندوستانی فوج پر حملہ کیا جس کی وجہ سے بھارتی فوجی 26 جولائی 1948ء کو گلگت بلتستان سے لداخ تک پیچھے ہٹ گئے۔کیپٹن سرور کی کمپنی نے پسپائی اختیار کرنے والی بھارتی فوجی دستوں کا پیچھا کیا جہاں ان کی یونٹ نے یوری سیکٹر میں واقع دشمن کی مضبوط پوزیشن کا مقابلہ کیا۔ پاک فوج کا دستہ دشمن کے مضبوط قلعے سے صرف پچاس گز کے فاصلے پر تھا۔ بھارتی فوج نے پاک فوج کی اس ٹکڑی پر مارٹر گولہ باری شروع کر دی۔ کیپٹن سرور کو ان کے بائیں جانب موجود بنکر‘ جہاں سے گولہ باری ہو رہی تھی‘ حملے کی رہنمائی کرنے کی ہدایت ملیں۔ نئی پوزیشن کی طرف بڑھتے ہوئے خاردار تاروں نے ان کا راستہ روک دیاْ انہوں نے محض چھ جوانوں کے ساتھ تاروں کو کاٹنے کا فیصلہ کیا۔ فائرنگ کے تبادلے میں کیپٹن سرور نے بولٹ کٹر سے دشمن کی خاردار تاروں کو کاٹا۔ اس دوران دشمن نے شدید گولہ باری شروع کر دی لیکن کیپٹن سرور نے پیش قدمی نہ روکی اور مشین گن کے فائر کا نشانہ بن گئے۔ 27 جولائی 1948ء کو کیپٹن سرور پاک فوج کے لیے راستہ کلیئر کرتے ہوئے شہید ہو گئے، شہادت کے وقت ان کی عمر محض 38 برس تھی۔ ان کی جرأت و بہادری پر انہیں پاکستان کے سب سے بڑے فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔
پاکستان کی تاریخ ایسے عظیم کرداروں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے اپنے کار ہائے نمایاں کی بدولت دنیا بھر میں سبز ہلالی پرچم بلند کیا لیکن بدقسمتی سے ہم نے ان کی صحیح قدر نہ کی اور انہیں وہ مقام و مرتبہ نہ دیا جس کے وہ مستحق تھے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نے اپنے کئی نامور ہیروز کو بالکل ہی فراموش کر دیا۔ ایسے ہی ایک ہیرو 'ایشیا کا تیز ترین انسان‘ اولمپین عبدالخالق بھی تھے جنہیں 1954ء میں بھارت کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے ''فلائنگ برڈ آف ایشیا‘‘ کا خطاب دیا تھا اور اسی نسبت سے آج تک ان کا خاندان 'پرندہ فیملی‘ کے نام سے مشہور ہے۔ عبدالخالق نے جہاں ایشیا میں 100 اور 200 میٹر تیز دوڑ کے کئی ریکارڈز اپنے نام کیے تو وہیں 36 انٹرنیشنل اور 70 نیشنل (مجموعی طور پر 100 سے زائد) طلائی تمغے جیت کر گولڈ میڈلز کی سنچری بناکر ایک ایسا ریکارڈ بھی قائم کیا جو شاید اگلے کئی برسوں تک بھی نہ ٹوٹ سکے۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے عالمی مقابلوں میں 15 بار چاندی اور 12 مرتبہ کانسی کا تمغہ حاصل کیا۔ پاکستانی ہیرو عبدالخالق نے تیز دوڑ کے سینکڑوں مقابلوں میں انڈیا کے سب سے بڑے اتھلیٹکس مِلکھا سنگھ کو شکست سے دوچار کیا جبکہ اپنے پورے کیریئر میں ملکھا سنگھ صرف ایک دوڑ میں عبدالخالق پر برتری حاصل کر پایا تھا جس پر پورے بھارت میں نہ صرف جشن منایا گیا بلکہ ملکھا سنگھ کی اس ایک جیت پر بالی ووڈ نے فلم ''بھاگ ملکھا بھاگ‘‘ بھی بنائی۔ (گزشتہ دنوں ملکھا سنگھ آنجہانی ہو گئے) بھارتی قوم خوش تھی کہ ان کے اتھلیٹ نے عبدالخالق کو ہرایا، وہ اس جیت کے نشے میں درجنوں بلکہ سینکڑوں شکستیں بھول گئے لیکن ہماری قوم نے ملکھا سنگھ سمیت دنیا بھر کے بہترین اتھلیٹس کو سینکڑوں بار شکست دینے اور گولڈ میڈلز کی سنچری مکمل کرنے والے عبدالخالق کو ہی بھلا دیا۔ ہم نے ان کے حوالے سے کوئی ڈاکیومنٹری بنائی اور نہ ہی آج تک سرکاری طور پر ان کی برسی کا اہتمام کیا گیا ہے جو ہمارے محسن کش رویے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
قوم کے جن سپوتوں نے زندگی بھر سبزہلالی پرچم کی سربلندی کے لیے اپنا تن، من، دھن نچاور کردیا اور ملکِ عزیز کا نام روشن کیا، ہمیں چاہئے کہ کم ازکم ان کی خدمات اور قربانیوں کو تو یاد رکھیں، شاندار طریقے سے انہیں خراجِ عقیدت پیش کریں اور ان کے کارناموں سے اپنی نئی نسل کو روشناس کرائیں۔ اپنے تمام قومی ہیروز خصوصاً نشان حیدر پانے والوں کی زندگی پر خصوصی ڈرامے، ڈاکیومنٹریز اور فلمیں بنائی جائیں تاکہ قوم کے نوجوانوں میں بھی ایسا جذبہ حب الوطنی پیدا ہو سکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved