تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     03-08-2021

مصر میں پھانسیاں

جب کسی ملک میں اہلِ علم و دانش سے پھانسی گھاٹ آباد اور منتخب ایوان ویران ہونے لگیں تو سمجھ لیجئے کہ اس ملک کے منصفوں سے بہت بڑی بھول ہو رہی ہے۔ بالعموم تیسری دنیا اور بالخصوص اسلامی دنیا میں یہ ''بھول‘‘ حکومتی دبائو پر کی جاتی ہے۔ دو تین روز قبل مصری سپریم کورٹ نے 24 اخوانی قائدین کی سزائے موت کی تصدیق کی ہے۔ جدید مصر کی تقریباً ساٹھ سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ آزادانہ انتخابات کے ذریعے جسٹس اینڈ فریڈم پارٹی کے نمائندے محمد مرسی 2012ء میں صدر منتخب ہوئے تو اس پر دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں اور جمہوریت کے حقیقی علمبرداروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ جسٹس اینڈ فریڈم پارٹی مصر کی مقبول ترین جماعت الاخوان المسلمون کے انتخابی ونگ کا نام تھا۔ یہ نام جلد ہی مصر میں زبانِ زدِ خاص و عام ہو گیا۔الاخوان المسلمون کی بنیاد حسن البنّا نے 1928ء میں رکھی تھی۔ سیاست اور خدمت پر مبنی اس جماعت کے پُرکشش دعوتی منشور نے مصر میں ہی نہیں‘ عرب دنیا کے کئی ممالک میں عوام اور خواص کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق 1940ء کی دہائی میں تنظیم کی ممبرشپ 20 لاکھ سے بڑھ چکی تھی۔ اگرچہ اپنے آغاز سے ہی الاخوان المسلمون اپنے ارکان کی اخلاقی و ذہنی تربیت کو اپنی اوّلین ترجیح سمجھتی تھی اور دعوت و تربیت کے زیور سے آراستہ ہو کر جمہوریت کے ذریعے مصر میں اسلامی نظام کے قیام کو اپنی منزل قرار دیتی تھی۔ اگرچہ مصر کو 1922ء میں برطانوی استعمار سے آزادی مل گئی؛ تاہم آزادی کے بعد اقتدار بادشاہت کے ہاتھوں میں آگیا۔ بادشاہت تو نام ہی من مانی کا ہے۔ 1952ء تک بادشاہ کی نظر ِکرم سے برطانوی فوجیں مصر میں براجمان رہیں۔ 1952ء میں عوامی دبائو کی بنا پر برطانوی فوجیں مصر سے رخصت ہوئیں اور مصر ایک جمہوریہ بن گیا۔ مگر ایسا جمہوریہ کہ بادشاہت کے بعد فوجی آمریت کے زیرسایہ چلا گیا۔ عوام کو بادشاہت میں اور نہ ہی کسی فوجی حکومت کے دور میں اپنی رائے کے اظہار کا موقع مل سکا۔
مصر میں ریاستی و حکومتی قوتیں الاخوان المسلمون کی عوامی مقبولیت اور اخلاقی فوقیت سے خوفزدہ رہیں لہٰذا اخوان کی قیادت کو بزورِ شمشیر راستے سے ہٹانے کے لیے کئی حربے استعمال کیے گئے۔ الاخوان المسلمون کے بانی حسن البنّا کو فروری 1949ء میں سربازار گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ دسمبر 1954ء میں جسٹس عبدالقادر عودہ سمیت کئی قائدین کو پھانسی دے دی گئی اور ہزاروں کارکنوں کو جیل کی کال کوٹھڑیوں میں ٹھونس دیا گیا۔ اگست 1966ء میں صدر جمال عبدالناصر کے زمانے میں تفسیر ''فی ظلال القرآن‘‘ کے مفسر سید قطب کو بھی پھانسی دے دی گئی۔ اس پھانسی پر ساری دنیا میں بہت احتجاج ہوا تھا۔ 1970ء میں مصر کے مطلق العنان حکمران جمال عبدالناصر کا انتقال ہوا تو انورالسادات نئے حکمران بن گئے۔ انہوں نے الاخوان المسلمون کو قدرے آزادی دی مگر اخوان کے تمام تر تعاون کے باوجود انورالسادات نے بھی پرانی آمرانہ روش کو ہی ترجیح دی۔ 1981ء میں ایک افسوسناک سانحہ پیش آیا اور السادات اپنے ہی ایک فوجی کے ہاتھوں قتل ہوگئے۔ السادات کے بعد حسنی مبارک نے اقتدار سنبھال لیا۔ وہ 32 برس تک مصر کے سیاہ و سفید کے مالک رہے۔ 2011ء میںکی عوامی بیداری کی تحریک کے نتیجے میں حسنی مبارک کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔
30 جون 2012ء کو آزادانہ انتخابات کے نتیجے میں پہلے منتخب صدر محمد مرسی برسراقتدار آئے تو انہوں نے اسلامی طرزِ حیات کی شہرت رکھنے والے جنرل عبدالفتاح السیسی کو نہ صرف نیا آرمی چیف مقرر کیا بلکہ انہیں اپنا وزیر دفاع بھی نامزد کر دیا۔ مصر کی فوجی روایات‘ بعض علاقائی طاقتوں اور کچھ عالمی قوتوں سے مصر میں منتخب جمہوری حکومت ایک سال کے لیے بھی ہضم نہ ہو سکی اور محمد مرسی کے اپنے ہی مقرر کردہ آرمی چیف نے 3 جولائی 2013ء کو فوجی انقلاب کے ذریعے اپنے صدر کا تختہ الٹ دیا اور اقتدار پر قبضہ کر لیا۔صدر محمد مرسی کے حامیوں اور جسٹس اینڈ فریڈم پارٹی کے کارکنوں نے مختلف شہروں میں پُرامن احتجاج کیا۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق قاہرہ کے رابعہ العدویہ کے میدان اور النہضہ چوک میں 14 اگست 2013ء کو ٹینکوں اور مشین گنوں سے 900 افراد کو شہید کر دیا گیا تھا۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کی طرف سے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق موجودہ دورِ حکومت میں اب تک درجنوں افراد کو سزائے موت دی گئی ہے اور ہزاروں کو بھاری سزائیں سنا کر جیلوں میں ڈالا جا چکا ہے۔ جولائی 2019ء میں قید تنہائی‘ علاج معالجے کی عدم دستیابی اور جیل میں بنیادی انسانی سہولتوں کے فقدان کے باعث سابق صدر محمد مرسی عدالت میں ایک پیشی کے دوران جان کی بازی ہار گئے اور اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔
اب جون اور جولائی 2021ء میں الاخوان المسلمون کے 24 قائدین کو دی جانے والی سزائے موت کی مصری سپریم کورٹ نے توثیق کر دی ہے۔ سزائے موت پانے والے سبھی حضرات اعلیٰ تعلیم یافتہ اور پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں۔ یہ معروف علمی شخصیات مصر کے اعلیٰ تعلیمی اداروں اور دیگر محکموں میں خدمات انجام دے رہی تھیں۔انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لیے ڈائریکٹر تحقیق اور ایڈوکیسی فلپ لوتھر نے الاخوان المسلمون کے قائدین و ارکان کو سنائی جانے والی پھانسی کی حالیہ سزائوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2018ء سے لے کر اب تک مصری عدالتوں کی طرف سے سنائی جانے والی بے رحمانہ سزائوں نے مصر کے مجموعی عدالتی نظام پر سوالیہ نشان اٹھا دیے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مصری عدالتوں میں چلنے والے ان مقدمات کو غیرشفاف قرار دیا ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ہیومن رائٹس واچ گروپ نے بھی ان سزائوں کو ''خوفناک‘‘ کہا ہے۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے تو ایسی غیرشفاف سزائوں پر سوالات اٹھائے ہیں اور انہیں واپس لینے کا مطالبہ بھی کیا ہے مگر امریکہ جیسے جمہوریت اور بنیادی حقوق کے علمبردار نے نہ تو مصر کے خلاف کسی قسم کی مالی و سفارتی پابندیاں عائد کی ہیں اور نہ ہی وہاں کی حکومت کے ان غیرجمہوری اقدامات کے بارے میں زبانی طور پر کوئی حرفِ اختلاف ریکارڈ کروایا ہے۔
اب ذرا امریکی قول و فعل کے تضاد کی ایک جھلک دیکھیے۔ کونڈولیزارائس جارج ڈبلیو بش کے زمانے کی وزیرخارجہ تھیں۔ اُنہوں نے جون 2005ء میں امریکن یونیورسٹی قاہرہ میں پرجوش خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مجھے پوری طرح احساس ہے کہ مصر سمیت اکثر عرب ممالک میں تمنائے جمہوریت پروان چڑھ رہی ہے۔ ڈاکٹر کونڈولیزا نے تالیوں کی گونج میں اعلان کیا کہ آزادی اور جمہوریت آج کے ہر شہری کا حق ہے۔ آپ کو بھی اس حق سے محروم نہیں رہنا چاہئے۔ ہم آپ کے حق کی مکمل طور پر تائید کرتے ہیں۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ جمہوریت کے سفر میں امریکہ سمیت تمام آزاد ممالک آپ کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔ مصر کے جمہوریت پسندوں نے کونڈولیزا کے قول کو سچ جانا۔ انہوں نے 2012ء میں اپنے حق رائے دہی کا آزادانہ استعمال کیا اور محمد مرسی کو اپنا صدر منتخب کرلیا؛ تاہم اس ''جرم‘‘ کی پاداش میں ہزاروں مصریوں کو خون کے سمندر سے گزرنا پڑا۔ چند روز پہلے ہی عرب ملکوں کو بہارِ عرب کا مژدہ جانفزا سنانے والے تیونس میں بھی وہاں کے صدر قیس بن سعید نے پارلیمنٹ کو معطل کر دیا ہے اور منتخب وزیراعظم کو اپنے عہدے سے ہٹا دیا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ بہارِ عرب ہر طرح کی خزاں سے محفوظ رہے۔ عالمی قوتیں اپنے جمہوری قول و قرار کا پاس لحاظ کریں یا نہ کریں مگر مسلمان ممالک کے حکمرانوں کو مصر میں اپنے مسلمان بھائیوں کی جان بچانے کے لیے صدر السیسی سے اپیل کرنی چاہئے کہ وہ ان ممتاز شخصیات کی سزائے موت کا خاتمہ کرنے کا اعلان کریں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved