نبی اکرمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔ بلاشبہ قرآنِ مجید امت مسلمہ کے لیے ایک بہت بڑا خزانہ ہے۔ اللہ کے خوش نصیب بندے قرآنِ حکیم سے اپنا تعلق ہمیشہ قائم رکھتے ہیں۔ میری پیاری ہمشیرہ ام ذوالنون 23 جولائی 2021ء بروز جمعہ چونسٹھ سال کی عمر میں اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ اللہ کا فیصلہ بصد اطمینان سر آنکھوں پر! وہ مالک و مختار ہے، رحیم و حکیم ہے۔ جوان سال اور انتہائی قابل بیٹے ہارون ادریس کی وفات کے چند دنوں بعد یہ المناک سانحہ بہت تکلیف کا باعث بنا مگر اللہ کے فیصلے پرسرِتسلیم خم کیا اور اللہ سے یہی دعا کی کہ پروردگار! اپنی بندی کو اپنی رحمتوں سے ڈھانپ لینا اور ہم کمزور بندوں کو حوصلہ اور صبر عطا فرمانا۔ اللہ دعائیں قبول کرتا ہے، ستر مائوں کی مامتا سے زیادہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے۔ بندے کا بھی فرض ہے کہ اس کے ہر فیصلے پر راضی رہے۔ اے اللہ تیرا شکر ہے کہ تُو نے صبر عطافرمایا۔ تیری عطا کردہ توفیق کے بغیر بندۂ ناتواں کچھ بھی نہیں کر سکتا۔
ہمشیرہ مرحومہ چھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھیں۔ بچپن میں قرآن پاک ناظرہ پڑھا اور پھر اپنے شوق سے خود حفظ کرنا شروع کردیا۔ اللہ نے اعلیٰ ذہانت اور حافظہ بخشا تھا۔ قرآنِ مجید کو یاد کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ اس عرصے میں اپنے گھر میں گائوں اور گردونواح کی بستیوں کی بچیوں کو قرآن پڑھانا شروع کیا اور اللہ کی توفیق سے سینکڑوں بچیاں اس درسگاہ سے فیض یاب ہوئیں۔ ترجمہ و تفسیر خود بھی پڑھی اور ذہین بچیوں کو بھی اس میں سے حسبِ نصیب استفادہ کا موقع ملا۔ قرآن پڑھنے والی بچیاں ادب و احترام سے اپنی معلمہ کو ''باجی جی‘‘ کہا کرتی تھیں۔ یہ نام اتنا معروف ہوا کہ سب بہن بھائی بھی انہیں باجی کہہ کر ہی پکارتے۔ سب بہن بھائیوں میں چھوٹی ہونے کی وجہ سے ماں باپ اور عزیز و اقارب کو زیادہ محبوب تھیں۔ اے اللہ تُو اپنی کتاب کی حافظہ اور معلمہ کو اپنی رحمتوں کے سائے میں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرما، آمین!
عزیزہ ہمشیرہ کی شادی ہمارے ماموں زاد میاں عبدالماجد کے ساتھ ہوئی۔ شادی کے دس سال بعد اللہ تعالیٰ نے پہلا بیٹا عطا فرمایا۔ اس سال والد محترم اور میں اکٹھے حج ادا کر رہے تھے۔ والدہ محترمہ وفات پا چکی تھیں۔ میں انہی کی طرف سے حج بدل کر رہا تھا۔ والد مرحوم حرمین شریفین میں پُرسوز لہجے کے ساتھ بڑی جامع قرآنی اور مسنون دعائیں مانگا کرتے تھے۔ وہ ہر دعا کے بعد اپنی بیٹی کے لیے نیک اولاد کی دعا مانگتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حج سے واپس آنے کے ایک سال بعد مرحومہ کو بیٹے کی نعمت سے نوازا۔ پھر یکے بعد دیگرے تین مزید فرزند عطا فرما ئے۔ سبھی بچے تندرست و توانا تھے۔ بیٹی کی رحمت سے اللہ نے محروم رکھا۔ اللہ کی اپنی مرضی ہوتی ہے کہ وہ بیٹا دے یا بیٹی۔ اس نے اپنی یہ قدرت کاملہ سورہ شوریٰ میں بہت دل نشین انداز میں ہم تک پہنچا دی ہے۔
خود حافظ ہونا بہت بڑا اعزاز ہے اور حفاظ کے ماں باپ کا بھی بہت اعلیٰ درجہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ مرحومہ خود حافظہ ہونے کے ساتھ چار حفاظ کی والدہ بھی تھیں۔ چاروں بیٹے بہت پختہ حافظ ہیں اور سبھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ چھوٹے دونوں بیٹے ذوالکفل اور ذوالنون اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن رہے، اب تیسرے بھائی سعد عبدالماجد کے ساتھ جماعت اسلامی کے رکن ہیں۔ بڑا بیٹاحافظ ضیغم عبدالماجد جماعت کا محض متفق ہے۔ چھوٹے بیٹے ذوالنون کے علاوہ سب بھائی شادی شدہ ہیں۔ میں نے 2003ء سے غالباً 2012ء تک جامع مسجد دارالہدیٰ مرکز ماڈل ٹائون میں قرآنِ مجید سنایا۔ اس کے بعد حافظ سعد ہر سال یہ ذمہ داری بطریق احسن ادا کر رہا ہے۔ اس کی تلاوت سوزوگداز سے مالامال اور اس کا خلاصہ بیان کرنے کا انداز دل نشین ہے۔
میاں عبدالماجد صاحب سکول ٹیچر تھے۔ کچھ عرصہ تدریس کے بعد یو اے ای چلے گئے۔ وہاں ملازمت کرتے رہے۔ چند سال اکیلے ہی وہاں مقیم رہے، پھر اپنے اہل و عیال کو بھی وہاں بلا لیا۔ میرا جب بھی یو اے ای کا دورہ ہوتا تو ان کے پاس العین میں جانا ہوتا۔ ام ذوالنون وہاں بھی پاکستانی خواتین کو اپنے گرد جمع کر کے دین کی تعلیمات سے مزین کرتی رہتی تھیں۔ میں ایک آدھ دن وہاں قیام کرتا تو رخصتی کے وقت عزیزہ کا اصرار ہوتا کہ بھائی جان ایک آدھ دن اور ہمارے پاس رک جائیں۔ عزیز از جان بہن کی فرمائش کا انکار میرے لیے ممکن نہ ہوتا؛ چنانچہ ایک دو دن مزید ان کے پاس قیام ہو جاتا۔ ذوالنون اس زمانے میں بہت چھوٹا تھا۔ ایک رات عشا کی نماز کے بعد میں گھر آیا تو وہ اپنی ماں سے کوئی سرگوشی کر رہا تھا اور وہ مسکرا رہی تھیں۔ میں نے پوچھا شہزادہ کیا کہتا ہے؟ تو ہنستے ہوئے کہنے لگیں '' اس کا مطالبہ ہے میں آج ماموں جی کے پاس سوئوں گا‘‘۔ میں نے کہا یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے۔ چنانچہ وہ رات کو میرے ساتھ سویا اور کچھ دیر تک ہم آپس میں باتیں کرتے رہے، جس سے اس کی سنجیدگی اور ذہانت کا اندازہ ہوا۔ الحمدللہ! اب بھی اس کی وہی سنجیدگی و متانت اور ذہانت قائم ہے۔ اللہ اسے سلامت رکھے۔
کچھ عرصہ بعد میاں عبدالماجد صاحب نے اپنی فیملی کو منصورہ میں منتقل کر دیا۔ شروع میں ہمارے گھر کے بالائی حصے میں قیام رہا۔ اس دوران انہوں نے اپنا پلاٹ خریدا اور اس پر گھر تعمیر کرنے کی ذمہ داری مجھے سونپ کر واپس یو اے ای چلے گئے۔ منصورہ میں ان کا گھر تعمیر ہوگیا اور الحمدللہ یہ خاندان اپنے گھر میں قیام پذیر ہوا۔ ذوالنون سکول کے زمانے میں ایک جلوس کے دوران گرفتار ہوا اور دیگر اسیران کے ساتھ اسے میانوالی جیل بھیج دیا گیا۔ وہاں پر اس نے جس استقامت کا مظاہرہ کیا وہ یادگار ہے۔ وہاں پر کچھ تحریریں لکھیں، جس سے اندازہ ہوا کہ اللہ نے اسے لکھنے کی صلاحیت بھی خوب دی ہے۔ جب جمعیت کا رکن بنا، تو بہت جلد قیادت میں شامل ہو گیا۔ پہلے لاہور جمعیت کا معتمد اور پھر دو سال تک ناظم رہا۔ اس عرصے میں اس کی والدہ اس کی ہر ضرورت کو بڑے شوق و محبت سے پورا کرتیں۔ جتنی رقم درکار ہوتی وہ اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں اس کا مطالبہ کرتا اور ماں بغیر کسی سوال و جواب کے اس کا مطالبہ پورا کر دیتیں۔
زندگی اور موت اللہ کے اختیار میں ہے۔ عزیزم ہارون ادریس کی بیماری اور وفات پر پوری فیملی ہل کر رہ گئی تھی۔ عزیزہ ام ذوالنون نے تو اس صدمے کو زیادہ ہی محسوس کیا اور پھر اپنے پیارے بھتیجے کے پیچھے پیچھے وہ بھی اس سے جا ملیں۔ ہارون کی وفات پر اس نے بے ساختہ کہا ''جانا مجھے تھا اور تم جلدی جلدی چلے گئے ہو‘‘۔ اسی دوران سانس کی تکلیف محسوس ہوئی۔ کورونا کا ٹیسٹ کروایاتو مثبت آیا۔ جناح ہسپتال میں داخل کرائی گئیں۔ علاج شروع ہو گیا۔ میں عزیزم ہارون کی فیملی کے پاس عید گزارنے کے لیے سرگودھا چلا گیا۔ عید کے اگلے روز لاہور واپسی ہوئی۔ اس دوران بیماری اور علاج کی پوری رپورٹ عزیزم سعددیتارہا۔ میں مغرب کی نماز پر لاہور پہنچااور ہسپتال جانے کا ارادہ کیا۔ بچوں نے کہا صبح چلے جانا۔ میں نے کہا نہیں میں ابھی جائوں گا۔
ہسپتال گیا، تو ہمشیرہ سخت تکلیف میں تھیں۔ آکسیجن لگی ہوئی تھی۔ میں نے دو مرتبہ السلام علیکم کہا، مگر کوئی جواب نہ دیا۔ سعد بیٹے نے کہا ''امی جی ! ماموں جان آئے ہیں‘‘۔
بس ایک بارآنکھیں کھولیں، میری طرف دیکھا اور آنکھیں بند کر لیں۔میں کچھ دیر ان کے پاس بیٹھا، پھر واپس آگیا۔ رات ایک بجے کے قریب سعد بیٹے کا ٹیلی فون آیا، جس میں یہ اطلاع تھی کہ مریضہ تکلیفوں سے نجات پا کر اللہ کے دربار میں چلی گئی ہیں۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون!
یہ جمعرات اور جمعہ کی درمیان رات تھی۔ میں نے اسی وقت عزیزو اقارب کو اطلاع دی اور ساتھ ہی بتایا کہ ان شاء اللہ نمازِ جمعہ کے ساتھ نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی۔
مصطفی ٹائون کے قبرستان میں تدفین ہوئی۔ عجیب اتفاق کہ بھتیجے کی قبر ایک لائن میں ہے اور دوسری لائن میں اس کے بالکل پائنتی میں پھوپھی کی قبر بن گئی۔ ہارون کی وفات کے بعد جب میرے بچے خواتین کو لے کر قبرستان گئے، تو ہارون کی ماں نے کہا ''یہ جگہ میری قبر کے لیے بک کرا دیں‘‘۔ کسے معلوم تھا کہ وہاں کس کی قبر بننی ہے۔ ہمشیرہ کی وفات پر پورا خاندان انتہائی غم میں ڈوب گیا۔ ہارون کی جدائی کا زخم سب کے دلوں میں تازہ تھا اور یہ سانحہ بھی سب کو رلا رہا تھا۔ ہارون کی ماں جو عمر میں ام ذوالنون سے کئی سال بڑی ہیں‘ روتے ہوئے کہنے لگیں : ''ہائے زہرا تُو بھی داغ مفارقت دے گئی، جانا تو میں نے تھا، تُو نے یہ کیا کیا‘‘۔یہ بے ساختہ جذبات و ردعمل فطری ہے ، مگر سب جانتے ہیں کہ جاتا وہی ہے جس کو بلایا جائے۔ جس کا بلاوا نہ آئے وہ کیسے جا سکتا ہے؟ یہ اختیار بندے کے پاس نہیں بلکہ خالق و مالک کے پاس ہے۔ اللہ ہم سب کو صبر عطا فرمائے اور مرحومین کی قبروں کو نور سے منور فرمائے، آمین!