نفتالی بینیٹ (Naftali Bennett) کے نام سے کون واقف نہیں؟ یہ اسرائیل کے وزیر خارجہ رہے ہیں۔ 2013ء سے جون 2021ء تک یہ مختلف وزارتوں کے سربراہ کی حیثیت سے کام کرتے رہے اور اب اسرائیل کے 13ویں وزیراعظم کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ یہ سابق اسرائیلی وزیر خارجہ موشے دایان کی طرح کے ایک ایسے عفریت کی مانند ہیں جو پاکستان کے خلاف ہمہ وقت سازشوں کے تانے بانے بننے میں جتا رہتا ہے۔ موصوف کے نزدیک اسرائیل کا سب سے بڑا دشمن عرب بلاک ہے اور نہ ہی ایران یا ترکی بلکہ اس کی دشمنی کا محور صرف پاکستان ہے۔ بھلے یہ شخص اب اسرائیل کا وزیراعظم بن چکا ہے مگر اس کی سازشی سوچ کا محور اب بھی پاکستان ہی ہے۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے دنیا بھر میں پھیلے نیٹ ورک سے سبھی واقف ہیں بلکہ اکثر و بیشتر خوف زدہ بھی رہتے ہیں کیونکہ دنیا کے کسی بھی کونے میں کسی بھی حیثیت میں آباد اسرائیلی اپنے ملک کی خفیہ ایجنسیوں کی آنکھ‘ ناک اور کان بن کر رہ رہا ہوتا ہے۔ یہ افراد اپنے نزدیک سے گزرنے والی ہوا میں چھپی ہوئی سرگوشیوں کا بھی تجزیہ کرکے اپنے ملک بھیجنا اپنا اعزاز سمجھتے ہیں۔ اسرائیل کے مقابلے میں اگر ہم پاکستان کی طرف دیکھیں تو ہمارے اندر سے ہی نجانے کتنے ایسے لوگ ہیں جو اپنے ہی ملک، اس کے اداروں اور اس کے تحفظ کی قسم نبھانے والوں کو اپنا نشانۂ ستم بنانے سے باز نہیں آتے۔ نہ صرف یہ کہ وہ اپنے کیے پر پشیمان نہیں ہوتے بلکہ خود پر بے باک، جمہوریت پسند اور لبرل کی تختی لگا کر پھولے نہیں سماتے۔ ان کی طرف سے اٹھنے والی ہر آواز پر سارا مغرب اور امریکا یک زبان ہو کر چیخنا شروع کر دیتا ہے لیکن مجال ہے کہ مغرب کے ان پالتو طوطوں نے کبھی پاکستان کیلئے کٹ مرنے والوں‘ اس کی نظریاتی اور سرحدی آن، بان اور شان کیلئے اپنے خون سے عہدِ وفا نبھانے والوں کیلئے کوئی کلمہ خیر منہ سے نکالا ہو۔ اسرائیل جس کے نام اور جس کی طاقت کا خوب غوغا بلند ہوتا ہے‘ کی پاکستان سے نفرت انگیز دشمنی ہم پر ہی نہیں‘ پوری دنیا پر واضح ہے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل اب تک نجانے کتنی مرتبہ بھارت کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے اور اس کا ساتھ دیتے ہوئے بھارت کو نہ صرف پاکستان کے حساس مراکز کو نشانہ بنانے کی ترغیب اور لالچ دے چکا ہے بلکہ خود بھی ایسے مشنز کا حصہ بن چکا ہے۔ اس سلسلے میں بھارت اور اسرائیل کی سبھی کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئیں اور اللہ کی نصرت کے سبب ملکِ خداداد کا حفاظتی حصار پار کرنے کی انہیں توفیق نہ ہو سکی۔
اسرائیل کے موجودہ وزیراعظم نے چند ماہ قبل‘ اسرائیلی وزارتِ دفاع کے عہدے سے فارغ ہونے کے بعد‘ سوشل میڈیا پر دو عمارات کی تصویر شیئر کی تھی اور اپنی ایک وڈیو بھی جس میں مذکورہ عمارتوں کو حماس کے ''دہشت گردی کے مراکز‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب تک اسرائیل ان عمارات کو تباہ نہیں کرتا‘ اسرائیل اپنے دفاع کا حق ادا نہیں کر سکے گا۔ دنیا بھر کو گمراہ کرنے کیلئے بنائی گئی اس وڈیو میں جو دو عمارات دکھائی گئی تھیں‘ ان میں سے ایک اسلام آباد کے الشفا انٹرنیشنل ہسپتال کی تھی۔ وڈیو میں اسرائیل کے موجودہ وزیراعظم کا استدلال تھا کہ غزہ کے علاقے میں قائم یہ عمارتیں حماس کا ہیڈ کوارٹر ہیں اور یہی عمارتیں ''معصوم اسرائیلی شہریوں‘‘ پر حملوں کا باعث بن رہی ہیں۔
دو منٹ کی اس وڈیو میں نفتالی بینیٹ نے اپنے تئیں ایسے اداروں، تنظیموں اور مختلف لوگوں کو‘ جو فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کی مذمت میں انسانی ہمدردی کے ناتے سے دن رات ایک کئے ہوئے تھے‘ تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی کوشش کی مگر اس بھدی کوشش میں پوری ڈھٹائی سے جھوٹ کا سہارا لینے کی کوشش کی۔ جیسے ہی دنیا بھر میں موجود اسرائیلیوں کے تبصروں کے ساتھ یہ وڈیو وائرل ہوئی‘ چاروں جانب پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف ایک طوفان مچ گیا۔ اس میں دو درجن کے قریب امریکا، جرمنی سویڈن اور برطانیہ میں پناہ لیے ہوئے افراد نے بھی تیل چھڑکنے کی بھرپور کوشش کی۔ دنیا کے معروف سکالرز، دانشوروں اور عالمی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے جان اولیور، Trevor Noah اور بیلا حدید کو‘ جو اسرائیل کے فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف انسانی ہمدردی کی موثر آواز بنے ہوئے تھے‘ جواب دیتے ہوئے نفتالی بینیٹ کہتا ہے ''آپ ہمیشہ پُرامن شہریوں‘ جو کراس فائرنگ میں مارے جاتے ہیں‘ کی حمایت کرتے ہوئے اسرائیل کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ سچ جاننے کیلئے آپ کو اس سائن بورڈ کو غور سے دیکھنا ہو گا جس پر''الشفاء‘‘ لکھا ہوا ہے، یہی وہ جگہ ہے جسے حماس کے دہشت گرد اپنے ٹھکانے کے طور پر استعمال میں لاتے ہیں اور جہاں پر ''دہشت گردوں‘‘ کا علاج کیا جاتا ہے بلکہ اب تو یہ بھی معلوم ہو چکا ہے کہ اسے حماس کے ہیڈ کوارٹر کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے‘‘۔ واضح رہے کہ اس وڈیو کے ذریعے اسرائیل کی جانب سے ہسپتالوں پر حملے اور بمباری کرنے کی وضاحت پیش کی جا رہی تھی۔ ایسا شخص اب اسرائیل کا وزیراعظم ہے۔
اسلام آباد‘ جہاں دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے سفارت کار رہتے ہیں‘ کے لیے یہ جاننا کوئی مشکل کام نہیں کہ اسلام آباد کا ہسپتال کون سا ہے اور غزہ کا کون سا۔درحقیقت غزہ میں بھی ایک الشفا نامی ہسپتال موجود ہے جو ایک بہت بڑے میڈیکل کمپلیکس اور مرکزی ہسپتال کے طور پر محصور غزہ پٹی میں کام کر رہا ہے۔ حالیہ غزہ اسرائیل جنگ میں مسلسل گیارہ روز تک اسرائیلی افواج کی فائرنگ اور بمباری سے زخمی ہونے والے سینکڑوں لوگوں کو یہیں پر طبی سہولتیں فراہم کی گئی تھیں۔ ماہِ رمضان میں مسلمانوںکو مسجد اقصیٰ میں عبادت کرنے سے روکے جانے پر جب مظاہرے شروع ہوئے تھے تو اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ اور بمباری سے 285 فلسطینی مرد، عورتیں اور بچے شہید ہوئے جبکہ وحشیانہ اسرائیلی بمباری سے 1912 افراد زخمی ہوئے جن میں سے تین درجن سے زائد بچے‘ بوڑھے اور عورتیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اپاہج ہو چکے ہیں جبکہ بہت سے اب بھی شدید زخمی حالت میں ہسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔ غزہ سٹی میں ''دار الشفاء‘‘ کے نام سے قائم اس ہسپتال‘ جسے اسلام آباد کا ہسپتال دکھانے کی ناکام اور بھونڈی کوشش کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان حماس کی سر پرستی کر رہا ہے‘ کی تاریخ یہ ہے کہ اس کی تعمیر سے بہت پہلے یہ جگہ انگریز فوج کی بیرکوں کے طور پر استعمال ہوتی تھی لیکن 1946ء میں متعدی بخار کی وبا پھیلے پر برٹش حکومت نے وائرل بخار کا شکار ہونے والے فوجیوں کو عام لوگوں اور فوج سے علیحدہ رکھنے کیلئے اس جگہ کو استعمال میں لانے کا فیصلہ کیا اور یہاں ایک عارضی ہسپتال بنا کر ان کا علاج شروع کر دیا جبکہ اسلام آباد کا ہسپتال تو بہت بعد میں تعمیر ہوا۔ یہاں باقاعدہ ہسپتال 1948ء کی پہلی عرب اسرائیل جنگ کے بعد قائم ہوا تھا۔ اس جنگ کے بعد جب یہاں مصر کا کنٹرول قائم ہوا تو مصر نے متعدی بخار کا مرکز یہاں سے منتقل کرنے کے بعد اسے دارالشفا کا نام دیتے ہوئے یہاں مریضوں کا علاج شروع کر دیا۔ 1956ء میں جب نہر سویز کے مسئلے پر دوسری عرب اسرائیل جنگ چھڑی تو اس کے بعد مصری صدر جمال عبد الناصر نے غزہ میں قائم اس ہسپتال کیلئے مزید فنڈز اور سہولتوں کا انتظام کیا، اس طرح اس ہسپتال میں اس وقت کی انتہائی جدید سہولتوں سے لیس 250 بیڈز پر مشتمل نئے بلاک تعمیر کیے گئے۔ اس وقت بھی غزہ کے اس ہسپتال میں ناروے کے مشہور انسانی حقوق کے علمبردار ڈاکٹر Mads Gilbert اور ناروے کے ہی ڈاکٹر Eric Fosse بھی کام کر رہے ہیں ۔
یہ بات تسلیم نہیں کی جا سکتی کہ اسرائیل کے انتہائی اہم عہدوں پر فائز شخصیت اس قدر لاپروا اور بے خبر ہو گی کہ اسے اسلام آباد اور غزہ کے ہسپتال کا فرق ہی معلوم نہیں۔ اسے پاکستان دشمنی سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔یہ پاکستان سے نفرت میں اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ ان کے دل و دماغ پر ہر وقت اسلام آباد ہی چھایا ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک نہیں‘ نجانے کتنے ہزار ٹویٹس اور کمنٹس میں تصحیح کروائی گئی لیکن مجال ہے کہ اسرائیلی حکومت، موساد، وزارتِ دفاع یا خود نفتالی بینیٹ نے یہ وڈیو ڈیلیٹ کرنے کی زحمت گوارہ کی ہو۔