تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     05-08-2021

5 اگست: بلیک ڈے

مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے غیر قانونی فوجی محاصرے کو پورے 730 روز گزر چکے ہیں۔گزشتہ روز مقبوضہ کشمیر کے مختلف علاقوں میں کشمیریوں کی جانب سے ایسے پوسٹر چسپاں کیے گئے جن میں بھارتی حکومت کے 5 اگست 2019ء کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کو مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ اس دن کو بلیک ڈے کے طور پر منایا جائے۔ اس سے قبل گزشتہ برس بھی پانچ برس کو پاکستان نے اس دن کو یوم استحصال کے طور پر منایا تھا۔ اس بھارتی اقدام کے دو سال بعد‘ ایک مرتبہ پھر بھارت کے اس غیر قانونی اقدام کے خلاف پاکستان اور کشمیر سمیت دنیا بھر میں کشمیری عوام سے یکجہتی کیلئے آج کے دن کو یومِ احتجاج کے طور پر منایا جا رہا ہے تا کہ دنیا کے سامنے کشمیر میں بھارت کے مظالم اور جارحیت کو آشکار کیا جا سکے۔ بھارتی حکومت نے پانچ اگست 2019 ء کو مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی۔ اس کیلئے بھارتی پارلیمنٹ نے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کرکے کشمیر کو تقسیم کرنے کا فارمولا پیش کیا اور قرارداد اکثریت کی بنیاد پر منظور کر لی گئی۔ اس اقدام کے فوراً بعد بھارتی فوج نے علاقے کا سخت فوجی محاصرہ کر لیا تھا۔ وادی میں انٹرنیٹ اور ٹیلی فون سروسز منقطع کر دی گئی تھیں۔ جہاں ہیں‘جیسے ہیں‘ کی بنیاد پر لاک ڈائون نافذ کر کے لوگوں کو گھروں میں قید کر دیا گیا اور کسی ضرورت کے تحت باہر نکلنے والوں کو بھی عقوبت خانوں میں منتقل کر دیا گیا۔ جو لوگ اپنے رشتہ داروں کے ہاں تھے‘ کسی دوسرے علاقے میں کام یا سفر کیلئے گئے ہوئے تھے‘ انہیں بھی اپنے گھر واپس جانے کی مہلت نہیں دی گئی۔ یہ اقدام بھارت نے ایسے وقت میں کیا جب پوری دنیا میں انسانی حقوق کا ڈنکا بجایا جا رہا تھا۔ امریکا سمیت خوشحال مغربی ممالک اور ترقی یافتہ قومیں اور ان کی این جی اوز ہر شخص کی مادر پدر آزادی کے حق میں تقریریں کرتے نہیں تھکتے تھے اور چڑیوں اور بلیوں کو بھی ان کے حقوق دلانے کیلئے سرگرداں تھے‘ وہیں مقبوضہ کشمیر میں جنم لینے والے اس اندوہناک المیے پر ان ممالک میں سے کوئی آواز اٹھانے کو تیار نہ تھا۔ دنیا نے مکمل لاک ڈائون کا شاید پہلی مرتبہ نہ سنا ہو لیکن اس کا ایسا نفاذ پہلے نہیں دیکھا تھا کہ جس میں بچوں کو سکول جانے‘ بیماروں کو ہسپتال اور مردوں کو سودا سلف لانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ اتنے بڑے المیے پر بھی دنیا منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھی رہی لیکن کشمیریوں کی آواز کو دنیا تک پہنچانے کا فیصلہ ہر اس غیرت مند پاکستانی نے کر لیا جس کیلئے کشمیری مائیں اس کی اپنی مائوں کی طرح تھیں‘ جو کشمیری بہنوں کی عزت کو اپنی عزت سمجھتا تھا اور جو کشمیری بچوں کے ساتھ ہونے والے ظلم کو اپنے بچوں پر ظلم کے برابر خیال کرتا تھا۔ سوشل میڈیا پر بھارت کے خلاف احتجاج کا ایک طوفان اٹھا جس میں بھارت کے اس جبری اقدام کی شدید مذمت کی گئی۔ بھارت‘ جو سوشل میڈیا پر کافی زیادہ اثر و رسوخ رکھتا ہے‘ نے فیس بک اور دیگر پلیٹ فارمز پر آرٹیکل پینتیس اے اور تین سو ستر کے خاتمے کے خلاف آواز اٹھانے والے اکائونٹس بلاک کرنا شروع کر دیے۔ یہ بھارت کی شکست اور پسپائی کی ایک واضح مثال تھی کہ وہ اپنے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو دبانے کیلئے ہر حربہ استعمال کرنے لگا؛ تاہم لوگوں نے اپنے اکائونٹس بند کرانا گوارا کر لیے لیکن کشمیریوں کے حق کیلئے آواز بلند کرنا بند نہ کی۔ ایک پاکستانی شہری‘ جس کے سوشل میڈیا پیج کے لاکھوں فالوورز تھے ‘ نے کہا کہ وہ ایسے ہزار بیج قربان کر سکتا ہے لیکن بھارت کے غاصبانہ قبضے اور پانچ اگست کے بزدلانہ اقدام کے خلاف احتجاج کرنا بند نہیں کرے گا۔ لوگوں نے نئے نام سے سوشل میڈیا پیجز بنائے اور ان پر آوازِ حق بلند کرنا جاری رکھی۔ کشمیر اور پاکستان کے عوام کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں کیونکہ دونوں نے ایک دوسرے کیلئے ہر موقع پر جدوجہد کا عَلم بلند کیا۔ کسے معلوم نہیں کہ کشمیریوں نے جدوجہدِ آزادی کا آغاز 1931ء میں ہی کر دیا تھا ۔ تحریک پاکستان میں بھی کشمیریوں کا بہت زیادہ حصہ تھا اور سری نگر میں کشمیریوں نے آزادی کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا تھا۔ آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے زیر انتظام 14 اگست 1931 ء کو سیالکوٹ کے جلسے میں کم و بیش ایک لاکھ افراد نے شرکت کی تھی اور کشمیریوں کی حریت کی حمایت کا اعلان کیا تھا جبکہ 14 اگست 1931 ء کا دن یومِ کشمیر کے طور پر بھی منایا گیا تھا؛ چنانچہ اس پس منظر میں پاکستانی اور کشمیری عوام کی آپس میں قربت اور بھائی چارے کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
بھارت نے 17 نومبر 1956ء کو جموں و کشمیر کا آئین نافذ کیا تھا اور آرٹیکل 35 اے کو خود اس کا حصہ بنایا تھا مگر دو سال قبل‘ اس آرٹیکل کو ختم کر دیا۔ آرٹیکل 35 اے ایک خصوصی قانون تھا جس کے خاتمے کے بعد بھارت بھر کے رہائشی مقبوضہ جموں و کشمیر میں جائیداد خرید کر مقبوضہ وادی میں مستقل طور پر رہائش اختیار کر سکتے ہیں۔ اس اقدام کے بعد ہندوئوں کو مقبوضہ کشمیر کا رخ کرنے اور وہاں رہائش اختیار کرنے کا قانونی جواز دے دیا گیا ہے اور اس کی آر میں مسلم اکثریتی خطے میں جغرافیائی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔ اس کا مقصد مقبوضہ کشمیر کو ہندو اکثریتی علاقے میں تبدیل کرنا ہے۔ بھارت کو احساس بلکہ یقین تھا کہ اس شر انگیز اقدام کے خلاف کشمیری سیاسی قیادت متحرک ہو جائے گی اور کشمیریوں کو احتجاج کے لیے آمادہ کرے گی‘ اسی لیے بھارتی حکومت نے فوری طور پر حریت رہنمائوں سید علی گیلانی‘ میر واعظ عمر فاروق اور دیگر سیاسی کارکنوں کو گرفتار کر لیا جبکہ احتجاج کے خوف سے بھارت نواز سیاسی رہنمائوں اور سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی، فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کو بھی نظر بند کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی قابض بھارتی انتظامیہ نے پوری وادی میں فون اور انٹرنیٹ سروسز معطل کر دیں جبکہ سرینگر میں تمام تعلیمی ادارے بند کرنے کے احکامات بھی جاری کر دیے گئے۔ مقبوضہ کشمیر میں جوان، بزرگ اور خواتین سمیت ہر عمر کے افراد نے بھارتی احکامات ماننے سے انکار کر دیا اور احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے، اس پر غاصب فوج نے اندھا دھند فائرنگ کا سلسلہ شروع کر دیا جس کے نتیجے میں 7 اگست کو کم از کم 6 کشمیری شہید اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔ سخت کرفیو اور بڑی تعداد میں فوج کی تعیناتی جیسے اقدامات کے باوجود کشمیری عوام سڑکوں پر نکلے اور بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے کے خاتمے کے خلاف احتجاج کیا۔
بھارت نے 5 اگست کے اقدام کا فیصلہ راتوں رات نہیں کیا تھا بلکہ وہ پوری تیار کے ساتھ آیا تھا۔ اس نے اس اقدام سے دو روز قبل دہشت گردی کے خطرے کا ڈھنڈورا پیٹا اور تمام غیر ملکی اور ملکی سیاحوں کو کشمیر چھوڑنے کی ہدایت کی اور ساتھ ہی اضافی فوج بھی وادی میں بھیجنا شروع کر دی۔ بھارتی حکومت کے اس اعلان پر ہزاروں سیاحوں نے سری نگر ایئرپورٹ کا رخ کیا جن میں سے اکثریت کے پاس ٹکٹ بھی نہیں تھے۔ مودی کے اس اقدام کی وجہ سے 80 لاکھ سے زائد آبادی کا حامل یہ خطہ متنازع طور پر تقسیم کرکے رکھ دیا گیا، یوں مقبوضہ کشمیر میں اسلحے کے زور پر ظلم و جبر کا نیا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ بھارت کی ماضی میں جتنی بھی حکومتیں رہی ہیں‘ انہوں نے آرٹیکل 35 اے اور 370 کے تحت مقبوضہ کشمیر کی امتیازی حیثیت کو کبھی نہیں چھیڑا۔ یہ اور بات ہے کہ مقبوضہ وادی میں بھارت کے ریاستی ظلم و ستم میں کمی نہیں آئی لیکن مقبوضہ کشمیر کو حاصل استثنا ختم نہیں کیا گیا مگر نریندر مودی جیسے وزیراعظم سے شاید ہر برائی کی توقع کی جا سکتی ہے کہ جس شخص نے گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کو زندہ جلا دیا تھا‘ وہ آر ایس ایس کی انسانیت سوز پالیسیوں کے نفاذ کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ آج دو سال گزرنے کے بعد بھی کشمیریوں نے اس ناجائز اقدام کو تسلیم نہیں کیا اور پاکستان کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے اور اس احتجاج کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ خدا کرے یہ کاوشیں رنگ لائیں اور کشمیریوں کو ان کا حق جلد از جلد مل سکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved