تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     05-08-2021

مائنس نواز شریف؟

طویل عرصہ تک قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے والے نیلسن منڈیلا 1994ء سے 1999ء تک جنوبی افریقہ کے صدر رہے۔ صدارت چھوڑی تو عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ ان کے دوستوں کا اصرار تھا کہ وہ سیاست سے دور مت ہوں مگر نیلسن منڈیلا نہ مانے۔ انہوں نے اپنی پارٹی اور دوستوں کو تاریخی جواب دیا۔ ''سیاست یہ نہیں کہ میں کرسیٔ صدارت کے ساتھ چمٹا رہوں۔ میرا مقصد اپنے لوگوں کی خدمت کرنا ہے جو سرکاری عہدے کے بغیر بھی ممکن ہے۔ اب بھی دنیا بھر کے لوگوں کے میرے ملک کے بارے میں خیالات اچھے نہیں ہیں، مجھے ان کے نظریات کو بدلنا ہے۔ میں جنوبی افریقہ کا سفیر بن کر وہ کام کروں گا جو میں صدر بن کر بھی نہیں کر سکا۔ ویسے بھی میں بوڑھا ہو رہا ہوں اور سیاست کو نئے چہروں کی زیادہ ضرورت ہے‘‘۔ منڈیلا کے ایک فیصلے نے جنوبی افریقہ کے مقدر کو بدل کر رکھ دیا۔
میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ نیلسن منڈیلا ایسا سوچ سکتے ہیں تو میاں نواز شریف کیوں نہیں؟ نیلسن منڈیلا ایک بار صدر بن کر سیاست کو خیرباد کہہ سکتے ہیں تو میاں نواز شریف ایسا کیوں نہیں کرتے؟ وہ تو تین بار وزیراعظم بنے اور دو بار وزیراعلیٰ پنجاب۔ نیلسن مینڈیلا ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے ملک کی نیک نامی میں اضافہ کر سکتے ہیں تو اپنے میاں نواز شریف ایسا کرنے سے گریز کیوں کر رہے ہیں؟ ایک نیلسن مینڈیلا کیا‘ امریکہ کے کتنے ہی صدور مدت ختم ہونے کے بعد سیاست کی چکا چوند روشنیوں سے اوجھل ہو گئے۔ زیادہ دور مت جائیں‘ آپ بل کلنٹن‘ جارج بش اور بارک اوباما کو دیکھ لیں‘ یہ سب اب اپنی دنیا میں مگن نظر آئیں گے۔ سیاست کی جستجو نہ اقتدار کا خیال۔ برطانیہ کی آئرن لیڈی مارگریٹ تھیچر ہوں یا بھارت کے اٹل بہاری واجپائی‘ یہ دونوں بھی اپنے عروج کے زمانے میں سیاست کو خیرباد کہہ گئے اور پھر مڑ کر نہ دیکھا۔ نجانے کیوں ہمارے سیاستدان بھول جاتے ہیں کہ اقتدار سے زیادہ اقدار اہم ہوتی ہیں اور طاقت سے زیادہ عزت۔ کاش! ہمارے سیاستدان بھی ریٹائرمنٹ کی روش اپنا سکیں۔ کاش! انہیں بھی ادراک ہو جائے کہ اقتدار ختم ہو جاتا ہے مگر اقدار زندہ رہتی ہیں‘ جو سیاستدان کو کبھی مرنے نہیں دیتیں۔
نواب زادہ نصراللہ مرحوم کہا کرتے تھے ''سیاست کا اپنا مزہ ہے۔ سیاست تب تک جاری رکھنی چاہیے جب تک لذت برقرار رہے مگر جب سیاست بدمزہ ہو جائے تو چھوڑ کر گھر چلے جانا چاہیے‘‘۔ اب فیصلہ میاں نواز شریف کو کرنا ہے‘ یہ فیصلہ کہ سیاست میں ان کے لیے لذت برقرار ہے یا نہیں۔ مسلم لیگ نون کے قائد کو یہ بھی دیکھنا ہے کہ وقت کی ناؤ انہیں ''بھنور‘‘ میں چھوڑ کر آگے تو نہیں بڑھ گئی؟ میرے نزدیک اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک بھرمیں میاں صاحب کا ووٹ بینک موجود ہے۔ بہت سے پاکستانی آج بھی ان کو دل و جان سے چاہتے ہیں۔ دو مقدمات میں سزا ہونے کے باوجود بھی‘ ان کی کشش کم نہیں ہوئی۔ وہ کوٹ لکھپت جیل سے نکل کر لندن چلے گئے مگر ووٹرز کے دلوں سے نہیں اتر سکے۔ یہ ایک ایسی سیاسی حقیقت ہے جس کو جھٹلانا ناممکن ہے‘ مگر کیا کریں پاکستان کی سیاست کے ''زمینی حقائق‘‘ تبدیل ہو چکے ہیں۔ ووٹرز میاں صاحب کے ساتھ بھلے ہوں مگر ''بادِ مخالف‘‘ تیز تر ہے۔ غالباً وہ چاہ کر بھی اقتدار کی راہ داریوں میں واپس نہیں لوٹ سکتے۔ وہ کوشش کرکے بھی مسلم لیگ نون کو اس کا مقام واپس نہیں دلا سکتے۔ میاں نواز شریف لندن میں موجود ہیں مگر پاکستان میں ان کی طرزِسیاست کا زمانہ لد چکا ہے۔ شوکت واسطی یاد آتے ہیں ؎
شوکتؔ ہمارے ساتھ بڑا حادثہ ہوا
ہم رہ گئے ہمارا زمانہ چلا گیا
اس لیے میرے خیال میں میاں نواز شریف کو غور کرنا ہو گا کہ لندن میں رہ کر ان کے مقام میں اضافہ ہو رہا ہے یا کمی؟ لندن میں مقیم پاکستانی ان کو کس نظرسے دیکھتے ہیں؟ کیا وہ پارک میں جاکر بہ آسانی واک کر سکتے ہیں؟ کیا ان کے خاندان کے لوگ کسی بھی ریسٹورنٹ میں ''بدمزگی‘‘ کے بغیر کھانا کھا سکتے ہیں؟ لوگ آپ کے گھر کے باہر کھڑے ہوکر مظاہرہ تو نہیں کرتے؟ اور اگر یہ سب کچھ وہاں ہو رہا ہے تو پھر آپ پاکستان واپس کیوں نہیں آ جاتے؟ میاں صاحب کو خود سوچنا چاہیے کہ کب تک وہاں رہ سکتے ہیں؟ ایک نہ ایک دن تو لوٹ کر آنا ہی ہے۔ پھر کیوں نہ وہ دن ابھی آ جائے۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟ اب فیصلہ انہوں نے کرنا ہے، عزت چاہیے یا لندن کی آسائش۔
میاں صاحب کو گھبرانے کی ضرورت نہیں، وہ جیل چلے بھی گئے تو پارٹی کی صدارت ان کے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف کے پاس ہی رہے گی۔ ایک موقع انہیں بھی ملنا چاہیے اور ان کی مفاہمتی سیاست کو بھی۔ ہو سکتا ہے کہ وہ پارٹی کی مشکلات کم کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ یہ بھی ممکن ہے نواز شریف صاحب کے مصائب کی ''خلاصی‘‘ کا انتظام بھی ان کے ہاتھوں ہی ہونا لکھا ہو۔ اگر پارٹی کے معاملات نواز شریف اپنے ہاتھوں میں رکھیں گے اور شہباز شریف ایسے ہی کاغذی صدر بنے رہیں گے اور میری نظر میں یہ فیصلہ لڑائی کے بعد یاد آنے والا مکا ثابت ہو گا۔ پھر سوائے پچھتاوے کے اور کیا بچے گا؟محسوس ہوتا ہے کہ وہ اب بڑے میاں صاحب کے بیانیے کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے تھک چکے ہیں اور کشمیر الیکشن کے بعد ان کی ہمت جواب دے چکی ہے۔ ویسے تو شہباز شریف نے ان تمام خبروں کی نفی کی ہے مگر ''خبر‘‘ رکھنے والے دوست مصر ہیں کہ پارٹی میں سب اچھا نہیں ہے۔ مسلم لیگ نون میں جو لوگ اختلافات کی تردید کرتے ہیں وہ صرف اس بات کا کھوج لگا لیں کہ شہباز شریف کی ناراضی اور صدارت سے مستعفی ہونے کی دھمکی کی خبر کس نے لیک کی ہے۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔
سیاست کی باریکیوں کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ شہباز شریف نے 2018ء کے الیکشن میں ہار کو ''حکمت عملی‘‘ کی ناکامی کیوں قرار دیا اور انہو ں نے پارٹی کے لیے اپنی خدمات بار بار کیوں گنوائیں؟ سب سے بڑھ کر انہوں نے ماضی کو بھلا کر آگے بڑھنے کی بات کیوں کی اور پھر اس کے بعد میاں نواز شریف نے ٹویٹ کر کے ان تمام باتوں کی نفی کیوں کی؟ یہ تمام ایسے بھید ہیں جو ہمیشہ کے لیے پوشیدہ نہیں رہ سکتے، ایک دن منظر عام پر ضرور آئیں گے۔ شہباز شریف نے اپنے بھائی کو صاف الفاظ میں کہا ہے ''بار بار جیل جانا ہماری ترجیح نہیں ہونی چاہیے۔ ہمیں مزاحمت کا راستہ چھوڑ کر مفاہمت کی راہ اختیار کرنا ہوگی ورنہ 2023ء کا الیکشن لڑنا اور نہ لڑنا ایک برابر ہوگا‘‘۔ اس کے بعد نون لیگ کے سینئر رہنما بھی مضطرب ہیں اور انہیں سمجھ نہیں آ رہی کہ نواز شریف کی طرف دیکھیں یا شہباز شریف کی امامت قبول کریں۔ اگلے الیکشن پر نظریں جمائیں یا انقلاب کی لمبی اور کٹھن راہ پر چل نکلیں۔
وقت آ گیا ہے کہ مسلم لیگ نون کی مرجھاتی بیلوں کی نئے انداز میں آبیاری کی جائے۔ اب دو ٹوک اور واضح فیصلہ ہو جانا چاہیے کہ پارٹی کی قیادت کس نے کرنی ہے‘ پارٹی نے کون سی لائن لینی ہے۔ اگر اس فیصلے میں تاخیر ہوئی تو مائنس نواز شریف کا آپشن بھی استعمال ہو سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved