کسی بھی انسان کا اپنے وجود کے حوالے سے عمومی رویہ ویسا ہی معاملہ ہوتا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے گھر کی مرغی دال برابر۔ جن چیزوں کو ہم روز دیکھتے ہیں، جو ہماری نفسی ساخت اور معمولات کا حصہ ہیں اُن کے حوالے سے ہم قدرے بے نیاز سے ہو جاتے ہیں۔ یہ کسی بھی درجے میں حیرت انگیز بات نہیں کیونکہ ع
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا
ہم چونکہ دن رات اپنے ساتھ ہیں‘ اس لیے اپنے بارے میں زیادہ سوچنے اور اپنے معاملات پر متوجہ ہونے کی زیادہ طلب نہیں ہوتی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے بارے میں ہماری طرزِ فکر و عمل بے فکری سے عبارت ہوتی جاتی ہے۔ حالانکہ مشہور مقولہ ہے کہ جس نے اپنے آپ کو پہچانا‘ اُس نے رب کو پہچانا۔ یہ بات حرف بحرف ایک آفاقی حقیقت کا درجہ رکھتی ہے۔ جس ہستی نے یہ کائنات خلق کی ہے اُس نے اپنی صناعی کے بہترین نمونے کے طور پر انسان کو روئے ارض پر زندگی بخشی ہے۔ دنیا میں ہمارا قیام اس لیے ہے کہ ہم رب کی مرضی سے آگاہ ہوں اور پھر اُس کی مرضی کے مطابق اپنے وجود کو بدلتے جائیں، یہاں تک کہ رب ہم سے راضی ہو جائے۔ اللہ نے انسان کو بہترین انداز پر خلق کیا ہے۔ انسان دوسری ہر مخلوق سے برتر ہے۔ یہ برتری محض اس بنیاد پر ہے کہ اُسے معاملات کو سمجھنے اور اُس تفہیم کی بنیاد پر سوچنے کی صفت سے نوازا گیا ہے۔ انسان کا کل امتحان یہی تو ہے کہ وہ اپنے آپ کو پہچانے یعنی اللہ نے جس مقصد کے تحت خلق کیا ہے‘ اُس مقصد سے آشنائی ممکن بنائے، اس کا حصول یقینی بنانے کے لیے کوشاں رہے۔
ہر دور کے انسان کی بنیادی اور حتمی آزمائش یہی رہی ہے کہ وہ اپنے وجود کو اچھی طرح پہچانے اور اپنے خالق و رب کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرنے کی بھرپور کوشش کرے۔ اگر اس معاملے میں تھوڑی بہت ناکامی بھی ہو تو نیت کے اخلاص کا ثواب بہرحال مل کر رہتا ہے۔ اپنے وجود کو پہچاننا اور اِس پہچان کے تقاضے نبھانا ایسا آسان نہیں جیسا سمجھ لیا جاتا ہے۔ اللہ نے انسان کو ایسا بہت کچھ بخشا ہے جو خود اُس کی یعنی انسان کی آنکھوں سے پوشیدہ ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے نہیں کہ پوشیدہ ہی رہے۔ ہمارے خالق و رب کی مرضی ہے کہ ہم اپنے وجود کو اچھی طرح پہچانیں تاکہ وہ سب کچھ کرسکیں جو رب کی مرضی کے مطابق ہے۔قدرت نے ہر انسان میں صلاحیتوں کا خزانہ رکھا ہے۔ انسان ایسا بہت کچھ کرسکتا ہے جو خود اُس کے علم میں بھی نہیں۔ بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ اپنے وجود کو اچھی طرح پہچانے، اپنی صلاحیتوں اور رجحانات سے واقف ہو اور دنیا کو کچھ دینے کا ذہن بنائے۔ اللہ نے ہر انسان کو یہ بنیادی فریضہ سونپا ہے کہ وہ اپنے وجود کو اچھی طرح پہچانے۔ اپنے آپ کو پہچاننے کی صورت ہی میں تو انسان کچھ کرنے کے قابل ہو پاتا ہے۔ عمومی سطح پر کبھی کبھی انسان اپنے ہی کہے اور کیے ہوئے کے بارے میں سوچ کر حیران رہ جاتا ہے۔ بہت سے مواقع پر ہماری طرزِ فکر و عمل خود ہمارے لیے بھی حیران کن حد تک مختلف ہوتی ہے۔ حالات انسان کو بہت کچھ کرنے کی تحریک بھی دیتے ہیں اور توفیق بھی۔ کبھی کبھی کوئی پیچیدہ صورتِ حال انسان کو الجھن سے دوچار کرتی ہے مگر اُس سے کہیں زیادہ پیچیدہ صورتِ حال کچھ نیا اور زیادہ کرنے کی ہمت بھی عطا کرتی ہے۔ یہ سب قدرت کے طے کردہ نظام کے تحت ہے۔
اللہ نے ہر انسان کو مختلف النوع صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ جب یہ طے کرلیا جاتا ہے کہ اللہ کی مرضی کے مطابق جینا ہے اور پہلے مرحلے میں اپنے وجود کو اچھی طرح پہچاننا ہے تب ہی کچھ کرنے کی تحریک ملتی ہے اور توفیق بھی۔ ہاں! یہ مرحلہ ایسا آسان نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے۔ حالات انسان کو اُس کے اپنے وجود سے دور لے جاتے ہیں۔ کسی بھی ماحول میں انسان کے لیے اپنے آپ سے جُڑے رہنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ سب کچھ غیر معمولی غور و فکر اور بلند درجے کی مشقّت کا طالب ہے۔ کسی بھی ماحول کے کامیاب ترین انسانوں کے معاملات کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ وہ دوسروں سے بلند اور نمایاں اُسی وقت ہو پائے جب انہوں نے اپنے وجود کو پہچاننے کی کوشش کی اور اِس کوشش کا حق ادا کرنے سے بھی مجتنب نہ رہے۔ اللہ کی طرف سے اپنے وجود کو کماحقہٗ پہچاننے کی توفیق اُسی وقت ودیعت ہوتی ہے جب یہ طے کرلیا جائے کہ اِس دنیا سے صرف لینا نہیں ہے بلکہ اِسے بہت کچھ دینا بھی ہے۔ جب انسان دنیا کو کچھ دینے کی نیت سے عرفانِ نفس کے سفر پر نکلتا ہے تب منزل پر منزل پاتا چلا جاتا ہے۔
اپنے وجود سے آشنائی انسان کو فکر و نظر کے ساتھ ساتھ ذوقِ عمل کی بلندی بھی عطا کرتی ہے۔ ہمارے رب نے ہمیں جو کچھ بخشا ہے وہ اُس وقت تک پردۂ اِخفا میں رہتا ہے جب تک ہم اپنے آپ کو کھوجنے کے سفر پر روانہ نہیں ہوتے۔ ایک بار یہ سفر شروع کیجیے تو پھر دیکھیے کہ زندگی قدم قدم پر ایک نیا رنگ دکھائے گی، ہر چیز میں کسی نہ کسی معنویت کا دیدار ہوگا۔ کسی بھی ماحول میں ایسا بہت کچھ پایا جاتا ہے جو فرد کو اُس کے اپنے وجود سے دور لے جانے پر تُلا رہتا ہے۔ بہت سے معاملات میں شدید دباؤ کی کیفیت انسان کو اپنے پاس نہیں رہنے دیتی۔ ہم عمومی سطح پر ایسی زندگی بسر کرتے ہیں جو اوّل و آخر دوسروں کے لیے ہوتی ہے۔ حالات کے دباؤ کا سامنا کرنے اور اپنے وجود کو نظر انداز نہ کرنے کی ہمت کم ہی لوگوں میں پائی جاتی ہے۔ یہ معاملہ چونکہ انسان سے غیر معمولی غور و فکر اور مشقّت کا طالب ہے اس لیے کم لوگ ہی اپنے آپ کو پہچاننے اور اِس پہچان کا حق ادا کرنے کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔
اپنے وجود سے مکمل آشنائی کئی دشوار گزار مراحل سے گزرنے کا معاملہ ہے مگر اطمینان رکھیے کہ اِن تمام مراحل سے گزرنے پر آپ کو احساس و اندازہ ہوگا کہ زندگی کی حقیقی معنویت ہم پر اُسی وقت بے نقاب ہوتی ہے جب ہم اپنے وجود سے آشنا ہونے کے بعد اِس آشنائی کا حق ادا کرنے کے بارے میں سنجیدہ ہوتے ہیں۔ زندگی اپنے حسین ترین رنگوں کے ساتھ کِھل کر اُسی وقت ہمارے سامنے آتی ہے جب ہم اپنے آپ کو کھوج کر اِس دنیا کے لیے بامعنی انداز سے کچھ کرنے کا ذہن بناتے ہیں۔ اپنے آپ کو پہچاننا رب کو پہچاننے کے مترادف یوں ہی قرار نہیں دیا گیا۔ انسان صلاحیت و سکت کا خزانہ ہے۔ ہر قدم پر ایک نئی دنیا ہماری منتظر رہتی ہے اور اِس دنیا سے ہم آہنگ رہتے ہوئے جینا ہمارے لیے کس قدر معنویت رکھتا ہے اِس کا اندازہ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب اپنے وجود کو مثبت رویے کے ساتھ بروئے کار لانے پر متوجہ ہوں۔ جو زندگی ہم بسر کر رہے ہیں وہ اگر معنویت کی حامل ہو تب بھی اُس کا معیار بلند کرنے کی کوشش ہم پر فرض ہے۔ اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ پہچاننا اور جن صلاحیتوں سے اللہ نے نوازا ہے اُنہیں بروئے کار لاتے ہوئے اپنی تخلیق کا حق ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرنا ہم پر لازم کردیا گیا ہے۔ یہ دشوار گزار مرحلہ ہے مگر یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ جینے کا سارا مزا اِسی بات میں ہے کہ جو کچھ بھی اچھا ہم کرسکتے ہیں وہ ضرور کر گزریں اور وہ بھی نیت کے اخلاص کے ساتھ۔ یہ نیت کا اخلاص ہی تو ہے جو ہماری طرزِ فکر و عمل کو تازہ دم رکھتا ہے اور ماحول بھی ہم سے ہم آہنگ ہوتا جاتا ہے۔
خود کو پہچاننا ایک بڑی آزمائش ہے۔ لوگ ابتدائی مرحلے ہی میں گھبراکر ''تائب‘‘ ہو جاتے ہیں۔ تھوڑی ثابت قدمی چاہیے، بس۔ جب اپنے وجود سے آشنائی کا مرحلہ مکمل ہوتا ہے تب جینے میں واقعی لطف آتا ہے اور تب انسان کسی بھی مرحلے سے گزرنے سے نہیں ڈرتا۔ حالات انسان کو بہت سے معاملات میں خوفزدہ رکھتے ہیں۔ اپنے وجود سے نمایاں آشنائی ہماری بہت سی مشکلات یوں دور کرتی ہے کہ خود ہمیں بھی یقین نہیں آتا۔ ہمارے خالق کی مرضی یہی ہے کہ ہم اپنے وجود سے آشنا ہوں اور اِس آشنائی کا حق ادا کریں۔