تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     06-08-2021

بندر اور گدھا

ان چند برسوں میں درجن بھر کالم اسلام آباد پر لکھے ہوں گے کہ یہ شہر اب دھیرے دھیرے اپنے رنگ، کلچر، خوبصورتی اور روایتی سکون سے محروم ہونے کی راہ پر گامزن ہے۔ جہاں انسان بستے ہوں وہاں جرائم ختم تو نہیں ہوتے لیکن جرائم کی شرح اور شدت کو کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔ جتنی تیزی سے اسلام آباد کی آبادی ان برسوں میں پھیلی ہے دوسرے شہر اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اسلام آباد کی جو بری حالت ہو رہی ہے یہ ابھی شروعات ہیں‘ حالات مزید خراب ہوں گے اور حکمرانوں اور اداروں کو اس کا احساس تک نہیں ہے۔ سیاستدانوں اور بیوروکریسی نے پہلے دوسرے شہروں کا بیڑا غرق کیا‘ اب اسلام آباد زد پہ ہے۔ ایف نائن پارک کے سامنے جو نیا بلیو ایریا بنایا جا رہا ہے‘ وہ شہر کی تباہی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔ ابھی سے ٹریفک کا برا حال ہے۔ سوچتا ہوں‘ نیا بلیو ایریا بننے بعد کیا حال ہوگا؟ معاشی ترقی کے نام پر شہروں کو جس طرح تباہ کیا جارہا ہے وہ المیہ ہے۔ ہر حکومت بتاتی ہے‘ گاڑیوں کی سیل بڑھ گئی ہے جو معاشی ترقی کی نشانی بتائی جا رہی ہے۔ موٹر سائیکلوں کی فروخت بڑھ گئی ہے۔ جب سے میرے دوست ناصر محمود شیخ نے پنجاب میں ہونیوالے حادثوں اور ہلاکتوں کے اعدادوشمار مجھے بھیجنے شروع کیے ہیں‘دل چاہتا ہے موٹر سائیکل سواری پر پابندی لگا دوں تاکہ گھروں کو اجڑنے سے تو بچایا جا سکتا۔
ناصر شیخ کے مطابق پچھلے ماہ جولائی میں پنجاب میں ٹریفک حادثات کی وجہ سے ریسکیو 1122 کے ریکارڈ کے مطابق ان کی گاڑیاں موٹر سائیکلوں کے 32551 ٹریفک حادثات کی اطلاع پر روانہ ہوئیں‘ 35626 زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا گیا‘ 498 لاشوں کو گھر والوں کے سپرد کیا گیا۔ سب سے زیادہ لاہور‘ جہاں وسائل کا انبار ہے‘ 150 افراد کی زندگی کے سفر کا اختتام سڑکوں پر ہوا۔ ڈیرہ غازیخان 37‘ فیصل آباد 25‘ اوکاڑہ 23‘ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے 14 شہری لاشیں بن گئے۔ موٹر سائیکل سواروں کے 27758 اور رکشہ ڈرائیورز کے 3910 حادثات۔ کم عمر ڈرائیورز کے 1176 حادثات۔ ناصر شیخ کے بقول اتوار یکم اگست کی شام تک پنجاب میں 12 لاشیں ٹریفک حادثات کی وجہ سے 1122 والوں کے کندھوں پر گھروں کو آئیں۔ عوام اپنی جیبیں کاٹ کر ٹیکس دے رہے ہیں کہ حکمران انکی حفاظت کیلئے اقدامات کریں گے‘ لیکن وہ اپنے پروٹوکول پر اربوں روپے خرچ کررہے ہیں۔
کابینہ کے ایک پچھلے اجلاس میں وزارت داخلہ نے بریفنگ میں انکشاف کیا کہ پاکستان کے ٹاپ VIPs کی حفاظت اور پروٹوکول پر اربوں روپے خرچ ہورہے ہیں۔ یہی پنجاب جہاں پانچ سو لوگ ایک ماہ میں حادثوں میں مارے گئے‘ وہاں ڈھائی ارب روپے وی آئی پیز کے پروٹوکول اور سکیورٹی کے نام پر خرچ ہوئے کہ انہیں کوئی نقصان نہ ہو جبکہ وفاقی پولیس، رینجرز اور ایف سی کے وزیر اعظم، صدر اور وزرا کی سکیو رٹی پر سالانہ 1098.08 ملین کے اخراجات کا انکشاف ہوا ہے۔ اسی طرح وزیراعظم، صدر، وزرا کی سکیورٹی پر اسلام آباد پولیس اور رینجرز کے 700.92 ملین روپے سالانہ کے اخراجات ہیں۔ عدلیہ کی سکیورٹی پر اسلام آباد پولیس‘رینجرز‘ایف سی کے 287.4 ملین روپے سالانہ کے اخراجات۔ پبلک آفس ہولڈرز اور دیگر پر 109.7 ملین روپے کے اخراجات۔ وزیراعظم، وزیراعلیٰ، ججز، گورنرز اور سابق وزرائے اعلیٰ کی سکیورٹی پر 2529.5 ملین سالانہ کے اخراجات کا انکشاف ہوا ہے۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیران کی سکیورٹی پر 105.87 ملین کے اخراجات۔ عدلیہ کی سکیورٹی پر پنجاب پولیس نے ایک ارب سے زائد خرچ کیا ہے۔ حاضر سروس، ریٹائرڈ افسران اور دیگر افراد کی سکیورٹی پر 833.16 ملین کے اخراجات ہوئے۔ پنجاب پولیس کے 53 اہلکار اور 3 گاڑیاں وزیراعظم ہاؤس کی سکیورٹی پر مامور ہیں‘ جن پر 33.67 ملین روپے کے اخراجات ہوئے۔ زمان پارک لاہور میں عمران خان صاحب کی رہائشگاہ پر 38 اہلکار تعینات ہیں‘ جن پر 22.8 ملین کے اخراجات ہوئے۔ 3 سابق وزرائے اعظم کی سکیورٹی پر پنجاب پولیس کے 36 اہلکار تعینات ہیں‘ جن پر سالانہ 17.4 ملین روپے کے اخراجات ہوئے۔ گورنر ہاؤس پنجاب کی سکیورٹی پر 152 اہلکار اور 9 گاڑیاں تعینات ہیں۔ اس گورنر ہائوس کی سکیورٹی پر سالانہ 96.85 ملین روپے کے اخراجات ہوتے ہیں۔ ڈی ایچ اے لاہور میں گورنر پنجاب کی رہائشگاہ پر 39 پولیس اہلکار تعینات ہیں‘ جن پر 7.8 ملین روپے کے اخراجات ہوئے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے آفس کی سکیورٹی پر 275 پولیس اہلکار اور 4 گاڑیاں تعینات ہیں‘ جن پر 167.5 ملین روپے کے اخراجات ہوئے۔ وزیراعلیٰ پنجاب ہائوس کی سکیورٹی کیلیے 67 پولیس اہلکار تعینات ہیں‘ سکیورٹی پر 40 ملین روپے کے سالانہ اخراجات۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی تونسہ میں رہائشگاہ پر 7 پولیس اہلکار تعینات‘ اخراجات 4.2 ملین۔ انہی کی ڈیرہ غازی خان کی رہائشگاہ پر 50 پولیس اہلکار اور گاڑی تعینات‘ اس رہائشگاہ کی سکیورٹی پر 30.64 ملین کے اخراجات۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی ملتان کی رہائشگاہ پر 4 پولیس اہلکار تعینات‘ 2.4 ملین کا خرچہ۔ دو سابق وزرائے اعلیٰ پنجاب کے سکیورٹی پر 9 پولیس اہلکار تعینات‘ اخراجات 5.4 ملین روپے۔ 39 وفاقی اور صوبائی وزرا کی سکیورٹی پر پنجاب پولیس کے 115 اہلکار اور 9 گاڑیاں تعینات‘ 74.62 ملین سالانہ کے اخراجات۔11 معاون خصوصی اور مشیروں کی سکیورٹی پر پنجاب پولیس کے 41 اہلکار اور 2 گاڑیاں تعینات‘ 25.85 ملین کے اخراجات‘ 430 حاضر سروس اور ریٹائرڈ ججز کی سکیورٹی پر 1820 اہلکار اور 82 گاڑیاں تعینات‘ سالانہ 1143.17 ملین روپے کے اخراجات۔ 174 سرکاری افسران کی سکیورٹی پر پولیس کے 759 اہلکار اور 34 گاڑیاں تعینات‘ اخراجات سالانہ 476.616 ملین روپے۔ 107 ریٹائرڈ سرکاری افسران کی سکیورٹی پر 339 پولیس اہلکار اور ایک گاڑی تعینات‘ 204 ملین کے اخراجات۔ 39 مختلف پبلک ہولڈرز کیلئے پولیس کے 85 اہلکار تعینات‘ سالانہ 51 ملین کا خرچہ۔ 96 دیگر اشخاص کی سکیورٹی پر 168 پولیس اہلکار اور 2 گاڑیاں تعینات‘ 102 ملین روپے اخراجات۔
وہ پیسہ جو عوام کی حفاظت پر لگنا تھا وہ اب بھی اس ملک کے وی آئی پیز پر لگ رہا ہے جبکہ عوام سڑکوں پر مارے جا رہے ہیں۔ اگر سوال اٹھائیں تو جواب ملتا ہے‘ پولیس کے پاس سہولتیں اور فنڈز نہیں ہیں‘ وسائل نہیں ہیں۔ VIPs کو سکیورٹی دینی ہو، اپنے آگے پیچھے پروٹوکول کی گاڑیاں رکھنی ہوں تو ان کے پاس بجٹ بھی ہے، وسائل بھی ہیں اور اپنی حفاظت کا بندوبست بھی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جن عوام کے اربوں روپوں سے یہ اپنے پروٹوکول اور سکیورٹی پر خرچ کرتے ہیں‘ انہی عوام کو روز ذلیل کرنا بھی نہیں بھولتے کہ یہ ٹیکس نہیں دیتے۔ ٹیکس نہیں دیتے تو یہ اربوں کے سکیورٹی پروٹوکول کے اخراجات کہاں سے پورے ہورہے ہیں؟
پرانا لطیفہ یاد آگیا کہ ایک کسان کے پاس ایک بندر اور ایک گدھا تھا۔ بندر رات کو کچن میں جا کر آٹا کھا جاتا اور واپسی پر کچھ آٹا لا کر گدھے کے منہ پر مل دیتا۔ صبح مالک اٹھ کر گدھے کی چھترول کرتا جبکہ بندر دور بیٹھا دانتوں میں خلال کررہا ہوتا۔ یہی عوام ساتھ ہورہا ہے۔ حکمران اور سرکاری بابوز ان عوام کے پیسوں پر عیاشی کرتے ہوئے دور بیٹھے دانتوں میں خلال کررہے ہیں۔ پٹرول سے اکٹھے ہونے والے اربوں روپے کے ٹیکس اپنے پروٹوکول اور سکیورٹی پر خرچ کرنے کے بعد بھی عوام کو یہ کہہ کر ذلیل کر رہے ہیں کہ یہ ٹیکس نہیں دیتے۔ وہی عوام اربوں روپے ان حکمرانوں کی سکیورٹی اور پروٹوکول پر خرچ کرنے کے بعد کسی حادثے کی صورت میں اپنے لیے کسی چیریٹی کی ایمبولینس ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved