تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     06-08-2021

ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو

میں آج صبح چائے کی پیالی سامنے میز پر رکھے اخبارات کے صفحات الٹ پلٹ رہا تھا تاکہ جمعۃ المبارک کے کالم کے لیے موضوع کا انتخاب کر سکوں۔ اس دوران میری آنکھیں کئی دل چسپ موضوعات پر اٹکیں۔ ایک موضوع اولمپکس کھیلوں میں ہماری ناقص کارکردگی ہو سکتا تھا۔ میرے بہت سے قارئین نے توجہ بھی دلائی تھی کہ اس کے بارے میں اظہارِ خیال کروں۔ ٹورنٹو سے فون پر میرے دوست سید احسان اللہ وقاص نے بہ اصرار کہا کہ میں ٹوکیو میں پاکستان کی انتہائی مایوس کن کارکردگی کے بارے میں لکھوں۔ میں نے عرض کیا کہ شاہ صاحب! کھیلوں کے بارے میں یہ فقیر اناڑی ہے۔ اس پر اُن کا بے ساختہ جواب تھا کہ اولمپکس میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے بھی اکثر کھلاڑی نہیں، اناڑی ہیں۔ میں نے شاہ صاحب کو خوش خبری سنائی کہ ابھی رشتۂ امید ٹوٹا نہیں اور نیزہ چیمپئن ارشد ندیم انشاء اللہ اولمپکس سے اکلوتا میڈل لے کر ارضِ پاک لوٹیں گے۔
اس موضوع میں مزید دلچسپی کا رنگ وزیر اعظم کے اس دعوے نے بھر دیا ہے کہ وہ کھیلوں میں ٹرپل پی ایچ ڈی ہیں۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ جو وقت انہیں کھیلوں کو دینا چاہئے تھا‘ نہیں دے پائے۔ پاکستان کے کھلاڑیوں کی سوائے ارشد ندیم کے ٹوکیو اولمپکس میں پرفارمنس بڑی حوصلہ شکن تھی۔ نیز پاکستان کی ہاکی ٹیم لگاتار دوسرے اولمپکس مقابلوں میں کوالیفائی ہی نہیں کر پائی۔ جناب وزیر اعظم سے ان کے دعوے اور کھیلوں میں ہماری کارکردگی کے حوالے سے پوچھنے والے کئی دلچسپ سوالات ہیں مگر ہم صرف ایک سوال پر اکتفا کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ گزشتہ تین برس کے دوران جن شعبوں پر خان صاحب نے بہت توجہ دی‘ اُن میں بھی حکومت کی کوئی نمایاں کارکردگی دکھائی نہیں دیتی۔ کمرتوڑ مہنگائی اور بیروزگاری پر لوگ بلبلا رہے ہیں‘ امن و امان کی خستہ حالت سے بھی لوگ بہت نالاں ہیں۔
آج میری نگہِ انتخاب جس موضوع پر جا ٹھہری ہے وہ پاکستان کے مشیر برائے قومی سلامتی جناب معید یوسف کا شکوہ اور امریکی عہدیدار نیڈپرائس کا جوابِ شکوہ ہے۔ ہماری معید یوسف صاحب سے کوئی براہِ راست ملاقات تو نہیں ہوئی مگر اُن کے بارے میں ہمارا تاثر یہ ہے کہ صاحب مطالعہ نوجوان سکالر ہیں۔ وہ امریکی سٹریٹیجک سٹڈیز کے بعض اداروں میں بطور سکالر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ موصوف جنوبی ایشیا کے بارے میں ایک دو کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ وہ دلیل اور منطق سے بات کرتے ہیں اور بالعموم جذباتیت سے اجتناب کرتے ہیں‘ مگر واشنگٹن میں فنانشل ٹائمز کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے وہ تھوڑے نہیں خاصے جذباتی ہوگئے‘ شکوہ کیا کہ صدر جوبائیڈن نے تاحال وزیراعظم عمران خان سے کوئی رابطہ نہیں کیا جبکہ امریکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان افغانستان میں طالبان کو شہروں پر قبضہ کرنے سے روکنے میں مدد دے۔
معید یوسف کی بات تو سچ ہے مگر بقول پروین شاکرع
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
اب جبکہ سفارتی و تزویراتی نزاکتوں اور لطافتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے جناب معید یوسف نے بہت کچھ طشت ازبام کردیا ہے تو پھر کھل کر بات ہونی چاہئے۔ امریکہ نے پہلے کہا گیا کہ بعض فنی وجوہات کی بنا پر تاخیر ہورہی ہے۔اب واشنگٹن میں وزارتِ خارجہ کے ترجمان نیڈپرائس نے کہا ہے کہ پاکستان صبر سے کام لے اور مناسب وقت کا انتظار کرے۔
طالبان سے امریکہ کے مذاکرات کا راستہ ہموار کرنے کیلئے ٹرمپ کو پاکستان کی ضرورت تھی۔ ٹرمپ نے اس مقصد کے حصول کیلئے جناب عمران خان کو وائٹ ہائوس آنے کی دعوت دی۔ وہاں ٹرمپ نے ایجنڈے سے ہٹ کر خان صاحب اور پاکستانیوں کو خوش کرنے کیلئے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی تجویز پیش کر دی۔ بھارتی وزیر اعظم نے اس غیر سنجیدہ تجویز پر کوئی رائے دینے کے بجائے خاموشی کو ترجیح دی جبکہ اس تجویز پر خان صاحب کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ خان صاحب جب ٹرمپ سے ملاقات کے بعد پاکستان پہنچے تو انہوں نے ایک جشن کا سماں پیدا کر دیا اور کہا:مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے میں ورلڈ کپ جیت کر آ رہا ہوں۔ ٹرمپ نے خان صاحب کو باتوں باتوں میں خوش کر دیا جبکہ نریندر مودی نے کشمیر کا سپیشل سٹیٹس ختم کر کے وہاں کا ایک بار پھر مکمل محاصرہ کر لیا۔ ٹرمپ کے برعکس جو بائیڈن سنجیدہ مزاج شخصیت ہیں۔ وہ پاکستان اور افغانستان سمیت جنوبی ایشیا کی صورتحال کو صدارت سے پہلے ہی بہت اچھی طرح سمجھتے تھے۔
معید یوسف صاحب نے کہا ہے کہ اگر امریکہ کی طرف سے ایک ٹیلی فون کال بھی رعایت ہے، اور اگر سکیورٹی مراسم بھی رعایت ہیں تو پھر ہمارے پاس اور بھی راستے ہیں۔ جناب عمران خان کی معید صاحب نے اچھی ترجمانی کی ہے‘ مگر خان صاحب کے جذبات کی حقیقی ترجمانی تو لالہ مادھو رام جوہر نے اس شعر میں کی ہے:؎
غیروں سے تو فرصت تمہیں دن رات نہیں ہے
ہاں میرے لیے وقتِ ملاقات نہیں ہے
اسی طرح جب بھارتی وزیر اعظم نے جناب عمران خان کی کالوں کو نہیں سنا تھا تو اس وقت بھی انہوں نے بہت شکوہ کیا تھا؛ تاہم ماضی میں جب نریندر مودی خود چل کر لاہور میں نواز شریف کے گھر آئے تو یہ شریف فیملی کی نہیں پاکستان کی پذیرائی تھی‘ مگر ہم نے پڑوسی ملک کے وزیر اعظم کو ایک فرد کا مہمان قرار دے کر اپنے ہی وزیر اعظم کو نشانۂ تنقید بنا ڈالا۔ اس طرح مذاکرات سے مسئلہ کشمیر حل کرنے کا ایک اچھا موقع گنوا دیا گیا۔
جناب معید یوسف نے کہا کہ ہم امریکی صدر کے اشارے کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ معید یوسف کی مراد شاید یہ ہے کہ جو بائیڈن کی سرد مہری کا سبب جاننے کی ضرورت ہے۔ میری محدود سمجھ بوجھ کے مطابق سرد مہری کا سبب یہ ہے کہ امریکہ افغانستان میں جو مسئلہ خود حل نہیں کر سکا‘ اب اس کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالنا چاہتا ہے۔ پاکستان کئی بار غیر رسمی طور پر کہہ چکا ہے کہ طالبان پر اس کا اثر و رسوخ محدود ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ محدود تر ہوتا جارہا ہے۔ جو بائیڈن کی سرد مہری اور ہمارے وزیر اعظم کو کال نہ کرنے کی ساری ذمہ داری امریکہ پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ اس سرد مہری کا سبب ہمیں اپنی وزارتِ خارجہ کی ناقص کارکردگی میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہماری وزارتِ خارجہ امریکہ کو طالبان کے حوالے سے اپنی حدودو قیود نہیں سمجھا سکی تو قصور امریکہ کا نہیں ہمارے وزیر خارجہ کا ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ امریکہ میں ہزاروں بااثر اور بارسوخ ممتاز پاکستانیوں کی موجودگی اور ڈیموکریٹ پارٹی میں ان کی نمایاں پوزیشنوں کے باوجود حکومت پاکستان وہاں کی لابیوں کو اپنے حق میں کیوں نہیں استعمال کر سکی۔ جناب معید یوسف نے امریکی ''تاخیر‘‘ کا جواب خاصا شاعرانہ دیا ہے کہ
تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی
''اور‘‘ یہاں چین کے علاوہ کون ہو سکتا ہے۔
اگر پاکستان اپنے پرانے دوستوں کو ساتھ لے کر نہیں چل سکتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حکومت سفارتی میدان میں بھی تہی دست ہو چکی ہے۔
معید یوسف صاحب کو گلے شکوے اور طعنے دینے کے بجائے پاکستانی سفارتی مہارت اور امریکہ میں پرو پاکستانی لابیوں کو متحرک کروانے کی کوشش کرنی چاہئے وگرنہ محض طعنوں سے کام نہ چل سکے گا۔ غالب بھی تو ہمیں یہی بتا اور سمجھا کر گئے ہیں؎
نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تو غالبؔ
ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved