تحریر : اسد طاہر جپہ تاریخ اشاعت     06-08-2021

نورمقدم کا مقدمہ

گزشتہ کالم میں وفاقی دارالحکومت میں بڑھتی ہوئی آبادی، آلودگی، لاقانونیت اور اشرافیہ کے لاڈلوں کی مجرمانہ کرتوتوں کا تذکرہ ہوا تھا۔ سب سے خوفناک، لرزہ خیز اور سفاکانہ سانحے میں نور مقدم کا قتل اور اس میں مبینہ مجرم کے دولت مند والد کی رعونت اور بے حسی پر بھی بات ہوئی۔ قارئین نے جہاں تین دہائیوں پر مبنی میرے مشاہدات، ذاتی تجربات اور اس خوبصورت شہر کے ساتھ وابستہ یادوں اور تاثرات پر مبنی حوالوں سے اتفاق کیا اور دل کھول کر پذیرائی کی‘ وہاں مقتولہ کے حوالے سے رہ جانے والی تشنگی کا بھی ذکر کیا اور مطالبہ کیا کہ اگلے کالم میں اس المناک قتل پر زیادہ گفتگو کی جائے اور ان عوامل، اسباب اور محرکات کا بھی احاطہ کیا جائے جو اس کے پسِ منظر میں شامل ہیں۔ سب سے زیادہ کڑی تنقید میرے روحانی پیشوا پروفیسر رحمت علی المعروف بابا جی نے کی۔اُن کے خیال میں مَیں نے موضوع کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ وہ تو اپنے شاگردِ خاص جیدی میاں کے ہمراہ لڑنے کیلئے میرے پاس تشریف لائے اور آتے ہی مجھ پر سخت جملوں کے ساتھ'' حملہ آور‘‘ ہو گئے تھے۔ اُن کے مطابق یہ قتل دراصل اسلامی تعلیمات سے دوری، شرعی حدود کی پامالی اور احکامات ِ الٰہی کی کھلم کھلا خلاف ورزی کا شاخسانہ ہے۔ انہوں نے اپنی گفتگو کو ہمیشہ کی طرح عمدہ دلائل، تاریخی حوالہ جات اور شریعت کے سنہری اصولوں کی روشنی میں نہایت خوبصورت پیرائے میں بیان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر ہمارا پورا معاشرہ اس المناک سانحے کا برابر کا ذمہ دار ہے جس نے آج کی نوجوان نسل میں اسلامی اقدار اور اخلاقی معیار کے متعلق تعلیم و تربیت میں غفلت برتی۔ مادہ پرستی، مغربی تقلید اور ناجائز ذرائع سے حاصل کی جانے والی دولت کی حرص و ہوس کی لت میں پڑکرآج ہم اپنے بچوں کی صحیح معنوں میں تربیت نہیں کر رہے جس کے نتیجے میں ہماری نوجوان نسل سوشل میڈیا سے حاصل ہونے والی اخلاق باختہ اورغیرمعیاری معلومات کے ہاتھوں بے راہ روی اور مجرمانہ سرگرمیوں میں مبتلا ہو چکی ہے۔ نور مقدم کے قتل کا دل دہلا دینے والا حادثہ دراصل اسی اخلاقی گراوٹ کا مظہر ہے اور حالات اس سے کہیں زیادہ بگڑ چکے ہیں۔
سابقہ روایات کے برعکس اس بارجیدی میاں نے بھی اپنے دل کی خوب بھڑاس نکالی اور بابا جی کی توجہ ہمارے اجتماعی سماجی بگاڑ، عورتوں کے استحصال اور گھریلو تشدد کے مسلسل بڑھتے ہوئے واقعات کی طرف دلائی اور بڑے پُرجوش انداز میں ہمارے گلے سڑے نظام میں پائی جانے والی بنیادی منافقتوں کا ذکر کیا۔ جیدی میاں نے واضح کیا کہ کس طرح ہمارے ہاں آج بھی بیٹی کی پیدائش پر اظہارِ افسوس کیا جاتا ہے۔ ہسپتال کی نرس والدین کو بیٹی کی پیدائش کی خبر سنانے میں خوف اور تذبذب کا شکار ہوتی ہے۔ ایک سے زیادہ بیٹی پیدا کرنے والی ماں کو منحوس قرار دیا جاتا ہے اور اکثر اس کے نصیب میں طلاق لکھ دی جاتی ہے یا لڑکے کی ماں خود اپنے بیٹے کی دوسری شادی کروا دیتی ہے تاکہ اس کے گھر میں بیٹا پیدا ہو۔ عورت ہی ماں کے روپ میں شادی کے وقت اپنی بیٹی کے لیے لڑکا پسند کرتے ہوئے ایسے لوگوں کی تلاش میں رہتی ہے جو اس کی بیٹی کو سادگی کے ساتھ دو کپڑوں میں رخصت کر کے لے جائیں مگر اپنے بیٹے کیلئے لڑکی پسند کرتے ہوئے جہیز کی لمبی چوڑی فہرست لڑکی والوں کو تھما دیتی ہے۔ جیدی میاں رکنے کا نام نہیں لے رہاتھا۔ بابا جی کے سامنے صرف وہی اتنی جرأت سے بے باک گفتگو کر سکتا ہے۔ کہنے لگا کہ آج بھی ہمارے ہاں جائیداد ہتھیانے کی خاطر لڑکیوں کی قرآنِ مجید سے شادی کر دی جاتی ہے یا پھر خاندان کے کسی عمر رسیدہ، معذور یا آوارہ‘ عیاش نوجوان سے محض اس لیے شادی کا بندھن باندھا جاتا ہے تاکہ خاندان کی جائیداد باہر نہ جا سکے۔ ہماری عورت، بیٹی، بیوی، بہن، ماں اور بہو کے روپ میں ہمہ وقت معاشی، جسمانی، ذہنی، نفسیاتی اور جذباتی استحصال کا شکار ہوتی رہتی ہے۔ وہ کاروکاری، ونی اور غیرت کے نام پہ قتل ہو جاتی ہے جبکہ مردوں کے معاملے میں اس کے برعکس رویہ برتا جاتا ہے۔ آج بھی شادی کے وقت بیٹی کو کہا جاتا ہے کہ تیری ڈولی جس گھر میں جا رہی ہے‘ اب تیرا جنازہ وہیں سے اٹھے گا۔ وہ بے چاری اپنے والدین کی عزت اور وقار کی خاطر ہر قسم کا تشدد، استحصال اور ظلم و ستم برداشت کرتے کرتے آخر اپنی زندگی کی بازی ہار جاتی ہے اور اکثر اپنے خاوند اور سسرال کے دیگر افراد کی وحشت اوردرندگی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ کبھی وہ چولہا پھٹنے کے من گھڑت حادثے کا شکار ہو جاتی ہے تو کبھی اسے مار کر پنکھے کے ساتھ لٹکا کر خود کشی کاڈرامہ رچایا جاتا ہے۔ والدین کے گھر اکثر اس کی میت ہی پہنچتی ہے ۔بابا جی نے چائے ختم کی تو میں نے جیدی میاں کو اشارتاًرکنے کا کہاتاکہ بابا جی اس موضوع کو سمیٹ پائیں۔ جیدی میاں سمجھ گئے اور کہنے لگے ''بابا جی !میں نے کوئی غلط بات تو نہیں کی؟ کیا یہ سب کچھ سچ نہیں اور آج ہمارے معاشرے میں عملی طورپر نہیں ہو رہا؟‘‘۔ بابا جی خاموش رہے!
بابا جی چونکہ سوشل میڈیا سے دور رہتے ہیں‘ اس لیے قبل اس کے کہ وہ اپنی گفتگو شروع کرتے‘ میں نے نہایت ادب سے اجازت لی اور اُن کے سامنے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران سوشل میڈیا پر جاری بحث کے چیدہ چیدہ نکات رکھنا شروع کر دیے۔ میں نے انہیں بتایا کہ کس طرح نور مقدم کا مقدمہ عدالتی کارروائی اور پولیس کی تفتیش سے نکال کر سوشل میڈیا اکائونٹس پر بے رحمی سے چلایا جا رہا ہے۔ کچھ تو فصاحت اور بلاغت کی تمام حدیں پھلانگ کر خود ساختہ لبرل بن کر عقل و دانش سے عاری گفتگو کرتے نظر آتے ہیں۔ کچھ نے اخلاقیات اور اقدار کی لاٹھی لے کر مقتولہ کوہدفِ تنقید بنا رکھا ہے ۔ کئی ارسطو لڑکی کے والدین کی جانب سے دی جانے والی غیر ضروری ''ڈھیل ‘‘پر تنقید کر رہے ہیں، چند باشعورافرادنے مبینہ قاتل کے دولت مندگھمنڈی والد اور اس کے بے حس ملازمین کو بھی اس سفاکانہ سانحے کا ذمہ دار قرار دیا ہے جن کی بروقت مداخلت اور پولیس کو اطلاع دیے جانے کی صورت میں نور کی جان بچا ئی سکتی تھی۔ کئی ایک نے ہمارے نظامِ عدل پر سوالات اٹھائے توکچھ پولیس پر دولت کی ممکنہ چمک کے اثرات سے پریشان نظر آئے۔ بابا جی نے مجھے مخصوص نظروں سے دیکھا تو میں سمجھ گیا کہ میری گفتگوکا وقت ختم ہو چکا ہے۔ اب بابا جی اس بحث کو منطقی انجام پر پہنچانے کیلئے بے چین تھے۔
باباجی نے گفتگو سمیٹتے ہوئے کہا کہ نور مقدم کا مقدمہ درحقیقت تین مختلف فورمز اورعدالتوں میں چلایا جانا ہے۔ سب سے بڑی عدالت اللہ کریم کی ہے جہاں صرف انصاف ہوتا ہے اور بلاشبہ احکامات ِ الٰہی ابدی اصول و ضوابط کے ساتھ اپنی عمل داری یقینی بناتے ہیں۔ وہاں سفاک قاتل اور اس کے معاونین کا حساب اور احتساب لازمی ہے، یہی ہمارا ایمان بھی ہے اور ہمارے غموں کا مداوا بھی۔ دوسری طرف قانون کی عدالت ہے جہاں پولیس کی تفتیش، واقعاتی شہادتوں اور گواہان کے بیانات کی روشنی میں عدل و انصاف کا ترازو مظلوم کی دادرسی کیلئے ظالم کا محاسبہ کرے گا۔ ہمارا نظامِ عدل کتنا مضبوط ہے‘ اس کیس کے فیصلے سے اس کا اظہار ہو جائے گا۔ اگرچہ ماضی میں کئی بار طاقت والے قانون و انصاف کو پامال کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں مگر پھر بھی اچھے کی امید رکھنی چاہئے۔ تیسری عدالت عوام کی ہے اوریہ سب سے بے رحم عدالت ہوتی ہے جہاں ہمیشہ ظالم کی سرکوبی کی جاتی ہے، مظلوم کے حق میں آواز بلند کی جاتی ہے اور نظامِ انصاف و قانون کی بے بسی پر صفِ ماتم بچھائی جاتی ہے۔ آوازِ خلق نقارۂ خدا بن کر معصوم،مظلوم اور لاچار انسانوں کا سہارا بن جاتی ہے اوراُن کے لیے عدل وانصاف کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے مگر سب سے ضروری سوال یہ ہے کہ کیا سوشل میڈیا پراور عوام کی عدالت میں نورمقدم کا مقدمہ لڑنے والے اپنے گھروں میں موجودخواتین‘ اپنی بہنوں اوربیٹیوں کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں؟ کیا وہ انہیں اپنے برابر کا انسان سمجھتے ہیں اور ان کے جائیداد اور وراثت سمیت دیگر حقوق پورے کرتے ہیں؟بابا جی کے اس سوال کا جواب میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved