تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     07-08-2021

اللہ کی نعمتیں

میرا خیال ہے اگر کسی نے یہ سمجھنا ہوکہ دادا یا نانا ہونا کیا ہوتا ہے تو اسے اظہارالحق صاحب کا مورخہ 26 جولائی کا کالم ''اک پیڑ تھا اور اس پہ آلوچے لگے ہوئے‘‘ پڑھنا چاہیے اور اگر اس کالم کو اس کی گہرائی تک جاننا ہو تو پھر اسے اظہارالحق صاحب کو جاننا چاہیے۔ یہ عاجز انہیں ایک عرصے سے جانتا ہے۔ اللہ اللہ! طبیعت میں ایسی سختی کہ اسے دیکھ کر اللہ بخشے ابا جی یاد آجاتے تھے۔ اس طبیعت کی سختی سے کوئی اور مفہوم نہ لیا جائے۔ بس قاعدے، ضابطے، میرٹ، شفافیت اور ایمانداری سے کام کرنے کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں تھی کہ ان کے ساتھ کام کیا جائے۔ افسر ایسے کہ ماتحت تو رہے ایک طرف، خود ان کے افسر ان سے بات کرتے ہوئے دو بار سوچیں۔ شرافت، بردباری، تہذیب اور اخلاق کے دائرہ میں رہتے ہوئے کھرے، سیدھے، سچے اور بے لچک۔ اصولوں سے سرِمو انحراف نہ کرنے والے۔ جب پوتوں کیلئے ان کی محبت کا گداز، جدائی کے جذبات اور ملنے کی بے چینی دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ کیا یہ وہی والے اظہارالحق ہیں جنہیں ایک عرصے سے جانتا ہوں؟
یہی حال ابا جی مرحوم کا تھا۔ طبیعت کی ساری سختی اور اصولوں کا سارا گولہ بارود ہم پر آزمایا اور حال یہ ہواکہ ایک دن اسد مجھ سے پوچھنے لگا کہ بابا جان! کیا دادا نے آپ کو کبھی ڈانٹا تھا؟ میں زور سے ہنسا اور کہا: بچو! تم نے صرف اپنے دادا کو ہی دیکھا ہے ہمارے ابا جی کو کبھی نہیں دیکھا۔ ہمیں صرف ڈانٹ پڑتی تھی اور کچھ نہیں۔ ابا جی نے کوئی سوال کیا تو اس کا جواب تو دینا تھا۔ سو اگر جواب دیا تو ڈانٹ میں مزید شدت پیدا ہوگئی کہ آگے سے جواب دیتے ہو۔ اگر خاموشی اختیار کی تو پارہ گرم ہوگیا کہ اب خاموش کھڑے ہو، جواب کیوں نہیں دیتے۔ سکول میں پٹنے کی شکایت کی تو آگے سے مزید ڈانٹ پڑ گئی کہ بلاوجہ تو مار نہیں پڑی ہوگی، کوئی شرارت توکی ہوگی۔ گلی میں چچا عاشق نے ڈانٹا تو روتے ہوئے گھر پہنچے۔ آگے سے طبیعت مزید صاف کی گئی کہ چچا عاشق پاگل تو نہیں کہ بلاوجہ ڈانٹتے۔ کوئی ایسی حرکت کی ہوگی کہ چچا نے ڈانٹا (یہ چچا بھی اعزازی چچا ہوتے تھے) غرض ہر اس بات پر تو ڈانٹ پڑتی جس پر پڑنی چاہیے تھی مگر مزے کی بات یہ تھی کہ ہر اس بات پر بھی ڈانٹ پڑ جاتی تھی جس پر ہمیں ابا جی سے کسی مہربانی کی امید ہوتی تھی‘ لیکن جب کومل پیدا ہوئی تو دیکھا کہ ساری عمر توے سے اترتی گرم روٹی کے عادی ابا جی صبح ناشتے کے وقت اپنے ساتھ چارپائی پر بیٹھی ہوئی کومل کو چھوٹے نوالے بنا کر، پھونک مار کر ٹھنڈا کرکے کھلاتے ہوئے اپنی روٹی ٹھنڈی کر لیتے۔ اس ٹھنڈی روٹی کے باعث گھر میں بارہا مارشل لاء کے ضابطے کے تحت روٹی دیر سے لانے والے کا کورٹ مارشل ہو چکا تھا‘ لیکن ابا جی کومل کو روٹی کھلانے کے چکر میں ٹھنڈی روٹی اس مزے سے کھا لیتے تھے کہ حیرت ہوتی تھی۔
صرف کومل پر ہی کیا موقوف؟ سارہ، انعم اور پھر اسد۔ سب کو دی جانے والی رعایتوں پر کبھی میں ابا جی سے کچھ عرض کرنے کی کوشش کرتا تو وہ آگے سے کہتے: ان پر سختی کرنے کیلئے تم اور فرزانہ کیا کم ہو جو مجھے بتا رہے ہوکہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ تم نے اپنے دادا، دادی کو دیکھا تھا؟ میاں جی (میرے دادا) کی سختی اور غصے کا تمہیں کوئی اندازہ ہے؟ تمہیں کہاں ہوگا؟ تم تو ابھی چار سال کے تھے جب میاں جی فوت ہوگئے۔ تم بڑے بھائی طارق سے پوچھو، جب وہ میاں جی کے پاس جاکر چھپ جاتا تھا اور میاں جی مجھے آگے سے ڈانٹ کر بھگا دیتے تھے۔ ایک بار میں طارق کی کسی بات پر پٹائی کرنے لگا تو میاں جی نے مجھ پر اپنی چھڑی اٹھا لی تھی۔ تم جب کبھی دادا یا نانا بنو گے تو تمہیں یہ سب کچھ سمجھ آئے گا۔ تب مجھے یاد کرو گے۔ پھر کہنے لگے: اصل میں تیرا کوئی قصور نہیں‘ یہ ڈِٹھا نئیں، تے مٹھا نئیں والا معاملہ ہے۔ یہ تمہیں ابھی سمجھ نہیں آئے گا۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ اس نے ان رشتوں میں محبت کی تقسیم کا کیا فارمولا بنایا ہے۔ ہماری سوچ سے تو یہ چیز بالاتر ہے۔
ابھی کتنے دن ہوئے ہیں مجھے امریکہ سے واپس آئے؟ حساب کیا تو پتا چلا کہ اڑھائی ماہ ہونے والے ہیں۔ صرف پچھتر دن گزرے ہیں اور لگتا ہے کہ سیفان اور ضوریز کو دیکھے زمانے گزر گئے ہیں۔ وٹس ایپ کے طفیل روزانہ ان کو دیکھتا ہوں۔ حال چال پوچھتا ہوں۔ وہ مجھے 'اَپّو‘ دینے کے لیے اپنے گال فون سے جوڑتے ہیں۔ میں ان کا 'اَپّو‘ لیتا ہوں۔ جواباً وہ بھی 'اَپّو‘ کرتے ہیں مگر یہ سب دل کو بہلانے کی باتیں ہیں۔ بھلا اس ٹچ سکرین والے سمارٹ فون پر لیے جانے والے 'اَپّو‘ میں وہ لطف کہاں؟ میں نے کہا کہ کوچو! میرا دل تمہیں لپٹانے کو کررہا ہے؟ آگے سے اس نے جواب دیا کہ میرا دل بھی کرتا ہے۔ میں نے پوچھاکہ جب تمہارا دل کرتا ہے کہ تم، مجھے لپٹا لو تو پھر تم کیا کرتے ہو؟ کہنے لگا، بڑے بابا! میں آپ کو لپٹانے کا جعلی تصور کرتا ہوں (I pretend to hug you)۔ پھر وہ بتاتا ہے کہ وہ ہر روز میرے کمرے میں جاتا ہے اور مجھے یاد کرتا ہے۔ کومل ایک روز بتانے لگی کہ میں نے سیفان کو کسی بات پر ڈانٹا تو وہ بھاگ کر آپ والے کمرے میں چلا گیا اور وہاں جا کر زور زور سے رونے لگ گیا کہ اگر بڑے بابا یہاں ہوتے تو وہ آپ کو گرائونڈ کر دیتے‘ میرے پاسپورٹ پر ویزہ لگوا دیں‘ میں پاکستان بڑے بابا کے پاس جانا چاہتا ہوں۔ یہ ویزے والا چکر یہ ہے کہ جب میں مئی کے آخر میں پاکستان واپس آنے لگا تو سیفان نے ضد پکڑی کہ وہ میرے ساتھ واپس پاکستان جائے گا۔ تب کومل نے اسے کہا کہ دراصل اس کا پاکستان جانے کا ویزہ ختم ہو گیا ہے اور وہ پاکستان نہیں جا سکتا۔ ایئرپورٹ والے اسے بغیر ویزے کے جہاز میں نہیں بیٹھنے دیں گے۔ وہ کئی بار ماں سے ضد کر چکا ہے کہ اس کے پاسپورٹ پر پاکستان کا ویزہ لگوایا جائے۔
اب کومل امریکہ اور سارہ آسٹریلیا میں ہے۔ انہیں بارہا رخصت کیا مگر دل کا وہ حال کبھی نہ ہواجیسا کبھی ٹولیڈو کے ریلوے سٹیشن پر، کبھی ڈیٹرائٹ ایئرپورٹ اور کبھی شکاگو ایئرپورٹ پر گلے سے لپٹ کر روتے ہوئے دو چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ ایک سفید بالوں والا بچہ اپنی آنکھیں صاف کرتا ہے۔ یہ میرے مالک کے اسرار ہیں جو دلوں میں ایسی محبت پیدا کرتا اور سخت دلوں کو نرم کرتا ہے۔ یہ محبت کی وہ آفاقی قسم ہے جو اللہ رحیم و کریم ہم جیسے عامیوں اور اپنے محبوب بندوں کو یکساں عطا کرتا ہے۔ تبھی تو جنت میں نوجوانوں کے سردارؓ سجدے میں پڑے ہوئے اپنے ناناﷺ کی کمر پر سوار ہو جاتے ہیں تو دو جہانوں کے شہنشاہ اپنا سجدہ طویل کر لیتے۔ یہ وہ محبت ہے جو مالک دو جہان انسان کی مٹی میں گوندھ کر اسے بخشتا ہے۔
قارئین! سچ جانیں تو یہ کالم صرف اور صرف ایک خاص ماحول سے فرار حاصل کرنے کیلئے لکھا ہے۔ اب بھلا جہاں عزیر بلوچ کے خلاف سرکاری گواہ گواہی دینے کے بجائے عدالت سے غائب ہو جائیں، جہاں امیر زادے مقتول کے سر سے فٹبال کھیلیں اور انکے والدین پیسے کے زور پر انصاف اور عدل کو خریدنے میں لگے ہوں۔ جہاں پنجاب میں عثمان بزدار، خیبرپختونخوا میں محمود خان کو وزیر اعلیٰ بنانے کے بعد حکمران آزاد کشمیر میں عبدالقیوم نیازی کے سر پر وزارت عظمیٰ کا تاج رکھ دیں۔ جہاں ملتان میں افواہ گرم ہوکہ دو افراد نشتر میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تعیناتی کیلئے آواز لگا رہے ہوں کہ 'ہے کوئی امیدوار جو مبلغ دو کروڑ میں وائس چانسلر بننا چاہتا ہو؟‘ جہاں حکمران عرصے سے اپنی ایمانداری کی چٹنی بیچے جا رہے ہوں اور اس چٹنی سے نہ غریب کی روٹی لگ رہی ہو اور نہ کرپشن میں کمی ہو رہی ہو تو بھلا ایسے میں عاجز رب کی عطاکردہ نعمتوں کے بارے میں لکھ کر دل کو تسی نہ دے تو کیا کرے؟ اور نعمتیں بھی ایسی‘ جن کا کوئی نعم البدل نہ ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved