تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     07-08-2021

کابل میں چین امریکہ مقابلہ

بھارت کے نقطہ نظر سے دو غیر ملکی دورے دھیان دینے لائق ہیں۔ پہلا امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن کا دورۂ دہلی اور دوسرا طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر کا دورۂ چین۔ دونوں دوروں کا مقصد ایک ہی ہے‘ اپنے اپنے مفاد کیلئے دوسری اقوام کو تیار کرنا۔ بلنکن بھارت اسی لئے آئے کہ افغانستان میں امریکہ اپنی جگہ بھارت کو پھنسانا چاہتا ہے۔ بھارت کسی بھی حالت میں اپنی سروسز کابل نہیں بھیجے گا لیکن وہ اشرف غنی سرکار کی مدد کرتا رہ سکتا ہے۔ وہ افغانوں کو فوجی ٹریننگ دیتا رہا ہے اور دیتا رہے گا لیکن اصلی سوال یہ ہے کہ اس وقت بلنکن بھارت کیوں آئے ہیں؟ یہ ٹھیک ہے کہ طالبان سے دوحہ میں چل رہی بات چیت میں بھارت کو مبصر کی طور پر شامل کر لیا گیا تھا‘ لیکن امریکہ نے بھارت سرکار سے یہ کیوں نہیں کہا کہ وہ طالبان سے سیدھے بات چیت کرے اور افغان سرکار اور طالبان کا جھگڑا سلجھائے۔ اگر ایسی کوشش امریکہ‘ روس‘ چین‘ ترکی‘ پاکستان اور ایران کر سکتے ہیں تو بھارت کیوں نہیں کر سکتا؟ بھارت کو حاشیے پر رکھ کر اسے اپنے قومی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی امریکی پالیسی سے بھارت سرکار محتاط ضرور ہے‘ لیکن افغان معاملے میں اس کا دبے رہنا سمجھ سے باہر ہے۔ بھارت کے وزیر خارجہ جے شنکر نے بلنکن کے ذریعے اٹھائے گئے بھارت کے جمہوری معاملوں کا مناسب ڈپلومیٹک زبان میں جواب دیا ہے۔ بلنکن نے بھی اپنے رویے میں ذرا نرمی دکھائی ہے لیکن انہوں نے اس دورے کے دوران چین پر جم کر نشانہ سادھا ہے۔ دلائی لامہ کے نمائندے سے ملنا بھی اس کا واضح اشارہ ہے۔ چین نے بھی جمہوریت کے بارے میں بلنکن کے تبصرے کو آڑے ہاتھوں لیا۔ افغانستان کا معاملہ اب امریکہ اور چین کی مقابلے بازی کا معاملہ بنتا جا رہا ہے۔ ملا برادر کی چین یاترا سے ہی شاید خفا ہو کر بلنکن نے کہہ دیا کہ اگر طالبان تشدد پھیلا کر قابل پر قبضہ کر لیں گے تو افغانستان دنیا کو نہ دکھنے والی قوم بن جائے گا۔ اس بات سے بھارت کی سرکار کو بھی تھوڑا مرہم لگے گا‘ لیکن ملا برادر نے چینی وزیر خارجہ وانگ یی سے ملنے کے بعد چینی مدد کیلئے تہ دل سے شکریہ ادا کیا اور چین کے اویغر مسلمانوں کے احتجاج سے طالبان کو الگ کر لیا ہے۔ اس نے کابل کے پاس 60 لاکھ ٹن تانبے کی کان میں تین بلین ڈالر لگانے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ اس کی شاہراہ ریشم تو افغانستان سے گزرے گی ہی‘ وہ نئے افغانستان کو بنانے میں بھی بھارت کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ ظاہر ہے کہ اب تک کی بھارتی شراکت پر چین پانی پھیرنے کی پوری کوشش کرے گا۔ بھارت کو دیکھنا ہے کہ افغانستان میں چلنے والی چین امریکہ مقابلے بازی میں وہ کھڑا رہ پائے گا یا نہیں؟
میڈیکل میں پسماندہ طبقات کی ریزرویشن
بھارتی سرکار نے میڈیکل کی پڑھائی میں پسماندہ معاشرتی طبقات کیلئے 27 فیصد اور معاشی طور پر کمزور طبقے کیلئے 10 فیصد ریزرویشن کا اعلان کیا ہے۔ یہ ریزرویشن ایم بی بی ایس‘ ایم ڈی‘ ایم ایس‘ ڈپلومہ‘ بی ڈی ایس اور ایم ڈی ایس وغیرہ‘ تمام کلاسوں میں ملے گا۔ ریزرویشن کا یہ اہتمام سرکاری میڈیکل کالجوں پر بھی لاگو ہوگا۔ اس ریزرویشن کے نتیجے میں گریجوایٹ سیٹوں میں 1500 اور پوسٹ گریجویٹ سیٹوں پر 2500 سیٹوں کا فائدہ پسماندہ طبقات کو ملے گا۔ سرکار کا کہنا ہے کہ اس نئے انتظام سے نارمل طبقے کے سٹوڈنٹس کا کوئی نقصان نہیں ہو گا کیونکہ ایم بی بی ایس کی 2014ء میں 54 ہزار سیٹیں تھیں‘ وہ 2020ء میں بڑھ کر 84 ہزار ہوگئی ہیں‘ اور ایم ڈی کی سیٹیں 30 ہزار سے بڑھ کر 54 ہزار ہوگئی ہیں۔ پچھلے سات سالوں میں 179 نئے میڈیکل کالج کھلے ہیں۔ سرکار کا یہ قدم اسے سیاسی فائدہ ضرور پہنچائے گا کیونکہ اترپردیش کے چناؤ سر پر ہیں اور وہاں پسماندہ طبقات کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پسماندگان کیلئے جتنی سیٹیں نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں ریزرو کی جاتی ہیں وہی پوری نہیں بھر پاتیں۔ نوکریوں میں اہلیت کے معیار کو بنیاد بنا کر ذات یا کسی بھی بہانے سے ریزرویشن دینا ملک کیلئے نقصان دہ ہے۔ وہ تو فوراً ختم ہونا ہی چاہئے لیکن تعلیم میں ریزرویشن دینا بیحد ضروری ہے۔ آج کل سکولوں اور ہسپتالوں میں جیسی کھلی لوٹ مچی ہوئی ہے وہ کیسے رکے گی؟ یہ ریزرویشن 70-80 فیصد تک بھی چلا جائے تو اس میں کوئی برائی نہیں لیکن اس کی بنیاد ذات یا مذہب بالکل نہیں ہونی چاہئے۔ اس کی واحد بنیاد ضرورت یعنی غریبی ہونی چاہئے۔ پسماندہ تو پسماندہ ہے اس کی ذات چاہے جو بھی ہو۔ میڈیکل کی پڑھائی میں غریبوں کو دس فیصد کی جگہ 70-80 فیصد ریزرویشن ملے تو ہم سبھی ذاتوں‘ سبھی مذاہب اور سبھی بھارتی شہریوں کو مناسب اور خصوصی موقع دے سکیں گے۔ سینکڑوں سالوں سے ناانصافی کے شکار ہورہے ہر شہری کو خصوصی مواقع ضرور ملنے چاہئیں لیکن خصوصیت کا مناسب ہونا بھی بہت ضروری ہے جو پچھڑے ہوئے لوگ کروڑ پتی ہیں یا سیاستدان‘ وزرائے اعلیٰ‘ ڈاکٹر‘ پروفیسر یا صنعت کار رہے ہیں‘ ان کے بچوں کو خاص مواقع دینا تو اس کا مذاق بنانا ہے‘ لیکن ملک کی کسی بھی سیاسی پارٹی میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ اس غلط رواج کی مخالفت کرے۔ ہر پارٹی تھوک ووٹ کے لالچ میں رہتی ہے۔ اسی لئے ذات پات کی مخالفت کرنیوالی بھاجپا اور سنگھ کے وزیر اعظم کو بھی اپنی نئی کابینہ کے ارکان کا ذات کے حوالے سے تعارف کرانا پڑگیا۔ بھارت کی سیاست کو شفاف بنانے کا پہلا قدم یہی ہے کہ ذات اور مذہب کے نام پر چل رہا تھوک ووٹوں کا سلسلہ بند ہو۔
عالمی ادارہ اور بھارت
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ایسا ادارہ ہے جو سب سے طاقتور ہے۔ اس کے پانچ ممبر مستقل ہیں۔ یہ ہیں: امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس‘ روس اور چین۔ ان پانچوں ممبرز کو ویٹو کا حق ہے یعنی ان پانچ میں سے ایک بھی کسی تجویز کی مخالفت کردے تو وہ پاس نہیں ہو سکتی۔ ان پانچ کے علاوہ اس کے 10 عام ممبر ہیں جو دو سال کیلئے چنے جاتے ہیں۔ بھارت کئی بار اس کونسل کا عام ممبر رہ چکا ہے لیکن یہ پہلی بار ہوا ہے کہ بھارت نے اس سلامتی کونسل کے صدر کے طور پر یکم اگست سے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔ ویسے تو اقوام متحدہ میں بھارت کے مستقل ممبر ٹی ایس ترو مورتی ہی اکثر صدر کی کرسی پر بیٹھیں گے لیکن خبر ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی بھی اس موقع کو چھوٹنے نہیں دیں گے۔ وہ 9 اگست کو صدارت کریں گے۔ یوں تو وزیر اعظم نرسمہا راؤ بھی سلامتی کونسل کی میٹنگ میں ایک بار شامل ہوئے تھے لیکن شامل ہونے اور صدارت کرنے میں بڑا فرق ہے۔ دیکھنا ہے کہ بھارتی صدارت کا وہ دن ٹھیک سے نبھ جائے۔ اپنی صدارت کے عہد میں بھارت کیا وہی کرے گا جو دوسرے ممالک کرتے رہے ہیں؟ ابھی جو خبریں آرہی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت تین مدعوں پر سب سے زیادہ زور دے گا۔ ایک تو عالمی تحفظ‘ دوسرا امن کا قیام‘ اور تیسرا دہشت گردی کی مخالفت۔ یہ تین مدعے اہم اور اچھے ہیں۔ بھارت کی صدارت کے دوران ایک سال کیلئے افغانستان میں اقوام متحدہ کی امن فوج کو بھیجنے کا سلامتی کونسل فیصلہ کرلے اور وہاں چناؤ کے ذریعے مقبول سرکار قائم کروادے تو یہ صدارت تاریخی اور یادگار ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ بھارت کی صدارت میں اگردنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک بنانے کی کوشش ہو تو پوری انسانیت مشکور ہوگی‘ لیکن پہل بھارت کو کرنا پڑے گی۔ یہ کام بیحد مشکل ہے لیکن اگر بھارت کے پاس کوئی مہاتما گاندھی جیسا پر وزیر اعظم ہوتا تو شاید بڑی طاقتیں اس کی گزارش ما ن لیتیں۔ پھر بھی بھارت کو اپنی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔ ماحولیات کی تباہی سے بھی ایک بڑا خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔ ساری دنیا میں لاکھوں لوگ روز ہلاک ہورہے ہیں لیکن آلودگی پر کوئی مؤثر لگام نہیں ہے۔ اگر سلامتی کونسل ساری دنیا میں آلودگی کے خاتمے کی کوئی عوامی تحریک چھیڑ سکے تو یہ عالمی سطح پر قابل احترام بن سکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved