تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     07-08-2021

شکست کا نقاب ِابہام؟

20 سالہ امریکی جنگ سے نجات کے بعد افغانستان کے پڑوسی ممالک طالبان کی دوبارہ بالادستی کے اندیشہ ہائے دور دراز سے خائف ہیں۔ ماسکو سے لے کر بیجنگ تک اور نئی دہلی سے تہران تک علاقائی مملکتیں ممکنہ عدم استحکام سے بچنے کی خاطر غیر ارادی طور پہ طالبان کی مخالفت کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ سلامتی کونسل نے افغانستان میں اماراتِ اسلامی کے ممکنہ قیام کی مذمت کرکے اندیشوں کے آسیب کو دوچند کر دیا ہے۔ جنوبی ایشیا کی فضائوں میں کسی انجانے خوف کا زہر گھولنے کی خاطر مغربی ذرائع ابلاغ ایسے بیانیے کو پرموٹ کرنے میں مصروف ہیں جس کاحقیقت سے کچھ تعلق نہیں اور جسے محض اثر ڈالنے کیلئے اچھالا جا رہا ہے، حتیٰ کہ یو این والے بھی پکار اٹھے ہیں کہ عسکریت پسند جلد افغانستان کی تمام سرحدوں کا کنٹرول سنبھال لیں گے۔ التباسات سے لبریز اسی بیانیے کی بدولت وسط ایشیا کی ریاستیں سکیورٹی کیلئے روس کی طرف دیکھ رہی ہیں حالانکہ چند دن قبل ہی روسی وزارتِ خارجہ نے پوری قطعیت کے ساتھ بتایاکہ ماسکو کا دورہ کرنے والے طالبان کے وفد نے پڑوسی ممالک کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ بیجنگ پاکستان میں اقتصادی راہداری کے 60 ارب ڈالر کے منصوبوں کی حفاظت کے علاوہ ایسٹرن ترکمانستان اسلامک موومنٹ کے وسعت پذیر اثرات بارے مضطرب ہے۔ خود پاکستانی سماج میں بھی دہشت گردی کے خوف کی مہیب فصل کاشت کی جا رہی ہے تاکہ امریکی جارحیت کے خلاف دفاعی اور اخلاقی برتری پانے والے طالبان کو ایک مصیبت بنا کے پیش کیا جا سکے۔ سوال یہ ہے کہ طالبان لیڈر شپ کی طرف سے پڑوسی ممالک کے خلاف کسی بھی گروہ کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کی یقین دہانیوں کے باوجود عالمی طاقتیں اور لوکل وگلوبل میڈیا کسی ممکنہ انتشار کے خطرات کو بڑھا چڑھا کر کیوں پیش کر رہا ہے؟ کہیں یہ افسانہ امریکی ناکامیوں کو چھپانے کا نقابِ ابہام تو نہیں؟
گزشتہ چند ہفتوں سے پی ڈی ایم کے آفیشل ٹویٹراکائونٹ سے طالبان کی مفروضہ جارحیت کے خلاف منظم مہم چلائی جا رہی ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتیں بھی طالبان کی مخالفت میں سرگرم نظر آتی ہیں۔ اس ابلاغی یلغار کے دباؤ میں طالبان کے روایتی حامی مصلحت آمیز خاموشی کی بُکل مارے بیٹھے ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ بتا رہے ہیں کہ امریکی مقتدرہ افغانستان میں''امن‘‘کو فروغ دینے کی خاطر پاکستانی پشتون قوم پرست اورمذہبی جماعتوں کو انگیج کرنے کی حکمت عملی اپنا رہی ہے کیونکہ افغانستان کے متحارب گروہوں کے ساتھ ان کے طویل المدتی اورکثیر الجہتی تعلقات ہیں، علاوہ ازیں دونوں ممالک کی جمہوری قوتیں مشکلات سے گزرنے کا یکساں تجربہ رکھتی ہیں، اس لیے وہ افغان معاشرے کو حقیقت پسندانہ تفہیم کے ساتھ ''امن‘‘کی حمایت پہ قائل کر سکتی ہیں۔ امرِ واقعہ یہ ہے کہ جاری تشدد کے دوران بین الافغان مذاکرات میں تعطل نے امریکا اور طالبان کے مابین دوحہ معاہدے کے اوراق میں چھپی خامیوں کو بے نقاب کیا ہے۔ امریکی مقتدرہ آج جس اماراتِ اسلامی کی سلامتی کونسل کے ذریعے مذمت کرانے میں سرگرداں ہے‘ چند ماہ قبل وہ اسی سے دوحہ میں معاہدہ کر کے محفوظ پسپائی کی سہولت حاصل کر چکی ہے؛ تاہم اس تاریخی معاہدے کے فریقِ اول نے دانستہ جنگ بندی جیسے اہم ایشوکو نظرانداز کرنے کے علاوہ جمہوری نظام کو بچانے، اقلیتوں، خواتین اور شہری حقوق کے تحفظ کی بھاری ذمہ داریوں کا بوجھ انٹرا افغان مذاکرات کے سپردکرکے عمیق خود غرضی کا مظاہرہ کیا تاکہ بدقسمت افغانوں کو امن کی گھڑیاں دیکھنے کی مہلت نہ ملے۔ امریکا چاہتا تو دوحہ معاہدے کے ذریعے ہی افغان تنازع کا سیاسی تصفیہ حاصل کر لیتا لیکن شکست خوردہ امریکیوں نے اپنی خفت مٹانے کی خاطر یہاں خانہ جنگی کو ایندھن فراہم کرنے کو ترجیح دی اور اپنی نامطلوب جنگ کے مضمرات کو سمیٹنے کی پوری ذمہ داری تباہ حال افغانوں اور پڑوسی ممالک کے سر ڈال دی۔
روسی انخلا کے وقت ہونے والے جنیوا معاہدے کی مانند‘ جنگِ دہشت گردی کا اہم اتحادی ہونے کے ناتے پاکستان کو اگر دوحہ معاہدہ میں فریق بنایا جاتا تو آج خطے کی صورتِ حال مختلف ہوتی لیکن آتشِ انتقام میں جلتے امریکیوں نے دوحہ معاہدے سے پاکستان کو دور رکھ کے جہاں ہماری گراں قدر قربانیوں کی توہین کی‘ وہاں اُن افغان قوم پرستوں کو بھی حالات کے حوالے کر دیا جو بیس سال تک ان کی جارحیت کی وکالت کرتے رہے۔ اب جب حالات دگرگوں ہوئے تو انگلی پکڑ کے افغانستان کے جہنم میں چہل قدمی کیلئے پاکستانیوں کوساتھ لے جانے کی منصوبہ بندی کر لی گئی۔ امریکی تھنک ٹینک کہتے ہیں کہ افغانستان کے مشرقی پڑوسی کی حیثیت سے پاکستان کا افغانستان کے مستقبل میں اہم کردار ہو گا، ماضی میں پوری توجہ پاکستانی ریاست کے نقطہ نظر پر مرکوز رکھی گئی جبکہ افغان امن عمل میں دیگر پاکستانی سیاسی اداکاروں کے کردار کو بھی توجہ ملنی چاہئے تھی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ 2001ء کی بون کانفرنس سے بین الاقوامی اور افغان پالیسی سازوں نے افغانستان کو جمہوری مملکت بنانے کی جو توقعات وابستہ کی تھیں‘ وہ پوری نہ ہو سکیں۔ 2019ء کے انتخابات تک یہ واضح ہو چکا تھا کہ افغانستان میں جمہوریت سازی کا نتیجہ عالمی برادری کی توقعات کے مطابق سامنے نہیں آیا، جس سے اندازہ لگایا گیا کہ ملک کی جمہوریت شاید''سست موت‘‘دیکھ رہی ہے۔
طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں میں مسلسل توسیع کے علاوہ افغانستان میں جمہوری ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خود منتخب حکومتوں کی بدعنوانی اور ناقص حکمرانی کے وبال کو بتایا گیا، مزید برآں نسلی اور مذہبی لحاظ سے متنوع ملک میں صدارتی آئین کے نفاذکو بھی مقامی جنگجوؤں کے دارالحکومت سے دور علاقوں پر کنٹرول پانے کا وسیلہ باور کرایا جاتا رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں جمہوریت کی ناکامی پر عالمی برادری کا ردعمل صرف ''واقعات پر مرکوز ‘‘ رہا، حالانکہ جمہوریت کسی بھی سماج کی روح کے اندر سے پھوٹتی ہے، بین الاقوامی برادری کو اب احساس ہوا ہے کہ افغانستان میں جمہوریت کے مسئلے کو مقامی اپنائیت کی ضرورت تھی جسے بیرونی مداخلت کے ذریعے مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ افغانوں کی اکثریت جمہوری سیاسی نظام چاہتی ہو گی لیکن جمہوری فلسفہ ابھی ان کے شعور کا جُز بن سکا نہ وہ قبائلی تعصبات جیسی جبلتوں کی گرفت سے آزاد ہوسکے ہیں۔ 2004ء کے انتخابات میں 70 فیصد رائے دہندگان نے ووٹنگ بوتھ پر دہشت گردانہ حملوں کے امکانات کے باوجود اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا تھا۔ 2006ء میں 77 فیصد رائے دہندگان ملک میں جمہوری کوششوں سے مطمئن نظر آئے اور 65 فیصد سے زیادہ مستقبل کے انتخابات کے آزادانہ اور منصفانہ ہونے کے حوالے سے پُرامید تھے۔ حیرت انگیز طور پہ ان 77فیصد کے مقابلے میں صرف 7فیصد لوگوں نے طالبان کی حمایت کی تھی لیکن اس کے باوجود افغان سماج میں طالبان کی اماراتِ اسلامیہ کی قبولیت کا امکان اب بھی بہت زیادہ ہے۔ اگرچہ طالبان نے کھلے عام جمہوریت کو مسترد نہیں کیا، ان کے کچھ بیانات بالواسطہ طور پر لبرل اور جمہوری اقدار کو غیر اسلامی قرار دیتے ہیں؛ پھر بھی دنیا والے افغانستان میں مستقبل کے سیاسی نظام کو طالبان اور غنی حکومت کے مابین اختلاف کی بنیاد بنانا چاہتے ہیں۔ دریں اثنا افغانستان کی منتخب جمہوری حکومتیں مالی اور اخلاقی مدد کیلئے امریکی اور یورپی ممالک پر انحصار کرکے اپنے حقِ حاکمیت پہ سمجھوتے کرنے میں عار محسوس نہیں کرتیں۔ افغان امور کے ماہر نفیس الرحمن درانی کہتے ہیں ''قوم پرستوں نے ہمیشہ بیرونی قوتوں سے سمجھوتے کیے، ایک بار اپنے ہم وطن طالبان سے بھی ہم آغوش ہو کر دیکھ لیں‘‘۔ لاریب یہاں کی سیاسی جماعتوں اورقومی قیادت میں اندرونی اختلاف کی لکیریں کافی گہری ہیں؛ تاہم جمہوری اداروں میں فطری کوآرڈی نیشن، فکری ہم آہنگی اور سچے مینڈیٹ کا فقدان ہی بنیادی مسئلہ ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved