جب فکر و نظر کی سمت گم ہوگئی ہو یا یوں کہیے کہ فکر و نظر کو سمت سے محروم رکھتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی روش عام ہوچکی ہو تو کیا ہوتا ہے؟ تب جو کچھ بھی ہوتا ہے اُس کا مقصد یا مفہوم تلاش کرنا ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ بھوسے میں سُوئی تلاش کرنا۔ جی ہاں! جب معاشرے میں سب سے پسندیدہ روش سوچے اور سمجھے بغیر ہر معاملے پر توجہ دینا ہو تو لوگ لایعنی باتوں اور لاحاصل معاملات میں الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ آج کا انسان بھی غیر متعلق اور لاحاصل معاملات میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ یہ روش اس قدر عام ہے کہ اِس سے ہٹ کر زندگی بسر کرنے کا تصور بھی اب محال ہوتا جارہا ہے۔ آج کی عمومی زندگی میں ایسا بہت کچھ ہے جو انسان کی مرضی کا ہے نہ اختیار کا۔ فطری علوم و فنون میں غیر معمولی، بلکہ ہوش رُبا نوعیت کی پیش رفت نے معاملات کو اُس مقام پر پہنچادیا ہے جہاں عام آدمی کا اپنی زندگی پر اختیار برائے نام رہ گیا ہے۔ لوگ ایسے معمولات کے الاؤ کا ایندھن ہوکر رہ گئے ہیں جن کی کوکھ سے کوئی بھی بامعنی بات برآمد کرنا انتہائی نوعیت کی ذہانت اور شبانہ روز محنت سے بھی ممکن نہیں ہوسکتا۔اہلِ نظر ایک زمانے سے انتباہ کرتے آئے ہیں کہ زندگی روز بروز پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتی جاتی ہے۔ ایسے میں لازم ہوچکا ہے کہ عمومی سطح پر زندگی کا معیار بلند رکھنے پر غیر معمولی توجہ دی جائے۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہے جب انسان فکر و نظر کے معاملے میں متوازن اور مستحکم ہو۔
کیا فکر و نظر کا توازن اور استحکام خود بخود ممکن ہے؟ یقیناً نہیں، کیونکہ اس دنیا میں کوئی بھی معاملہ اپنے طور پر درست نہیں ہوتا۔ معاملات بگڑ جائیں تو اُنہیں درست کرنا پڑتا ہے۔ محض یہ سوچ لینے سے کوئی بھی معاملہ درست نہیں ہوسکتا کہ وہ خود بخود درست ہو جائے گا یا یہ کہ حالات اِس طور بدلیں گے کہ خرابیاں ختم ہوں گی اور معاملات کی درستی یقینی ہو جائے گی۔ آج پوری دنیا مختلف النوع الجھنوں سے دوچار ہے۔ کوئی ایک معاشرہ بھی پیچیدگی سے مبریٰ نہیں۔ مختلف النوع خرابیاں کم و بیش ہر معاشرے کے حصے میں آئی ہیں۔ کہیں معاشی مشکلات ہیں تو کہیں معاشرتی الجھنیں۔ اگر کہیں غیر معمولی ترقی اور مادّی خوش حالی ہے تو روحانی سطح پر خرابیاں موجود ہیں جو انفرادی و اجتماعی وجود کو گھن کی طرح چاٹتی رہتی ہیں۔ کہیں سیاسی استحکام تو ہے مگر اخلاقی معاملات اِتنے خراب ہوچکے ہیں کہ اب اُنہیں خرابیوں میں شمار کرنا بھی ترک کردیا گیا ہے۔ کوئی یہ نہ سمجھے کہ مادّی سطح پر غیر معمولی بلکہ قابلِ رشک نوعیت کی ترقی یقینی بنانے میں کامیاب ہونے والے معاشروں میں سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔ خرابیاں اور الجھنیں اُن کے حصے میں بھی آئی ہیں، ہاں نوعیت مختلف ہوسکتی ہے اور ہوتی ہی ہے۔
ہمارا معاشرہ غیر متعلق باتوں اور لایعنی معاملات کے گڑھے میں گِرچکا ہے۔ لوگ ہر اُس بات میں غیر معمولی دلچسپی لیتے دکھائی دیتے ہیں جس کا اُن سے براہِ راست کوئی بھی تعلق نہ ہو۔ اس روش پر گامزن رہنے سے زندگی کھوکھلی ہوتی جارہی ہے۔ بہت کچھ ہاتھوں سے نکلا جارہا ہے اور ہم دیکھ بھی رہے ہیں مگر اِس صورتِ حال کے تدارک کی خاطر کچھ کرنا تو دور کا معاملہ رہا، کچھ کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جارہا۔ معاشرے میں اخلاق کے حوالے سے پائی جانے والی خرابیاں اپنی جگہ اور فکری یا نفسی سطح پر پائی جانے والی خرابیاں اپنی جگہ۔ چوری، ڈکیتی، بدنظری اور دیگر اخلاقی عوارض سے ہٹ کر بعض ایسے معاملات بھی ہیں کہ لوگ اخلاق کے حوالے سے اعلیٰ سطح پر ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کو برباد کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ لوگ کسی بھی سہولت اور فطری علوم و فنون سے متعلق کسی بھی حیرت انگیز پیش رفت سے سوچے سمجھے بغیر استفادہ کر رہے ہیں۔ آج ایک عام پاکستانی ایسی بہت سی باتوں کے دائرے میں گھوم رہا ہے جو اُس سے متعلق بھی نہیں اور کسی بھی درجے میں اُس کا کچھ بھلا بھی نہیں کرسکتیں۔ سوشل میڈیا نے قیامت سی ڈھائی ہوئی ہے۔ انسان لایعنی معاملات اور لاحاصل باتوں کی لہروں میں بہہ رہا ہے۔ یہ دھارا کسی بھی وقت کسی بھی طرف لے جاتا ہے اور جب ہوش آتا ہے تب دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ یہ کیفیت وقت کے ساتھ صلاحیت و سکت اور مجموعی طور پر پوری زندگی کے ضیاع کا باعث بن رہی ہے۔
عام شخص کو یومیہ بنیاد پر اللہ کی طرف سے جو چوبیس گھنٹے عطا کیے جاتے ہیں اُن سے کماحقہٗ استفادہ کرنا آج انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ حالات فکری ساخت پر اثر انداز ہوکر ذوقِ عمل کے حوالے سے خسارے کی راہ ہموار کرتے جارہے ہیں۔ کسی بھی انسان کے لیے بامعنی و بامقصد طریق سے زندگی کرنا اور حقیقی معنوں میں عمل پسند ہونا اُسی وقت ممکن ہو پاتا ہے جب وہ اللہ کی عطا کردہ صلاحیتوں کو پہچانے اور اپنی سکت کو اُن صلاحیتوں کے بروئے کار لانے پر صرف کرے۔ یہ سب کچھ آسانی سے ہوتا ہے نہ راتوں رات۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سوچنا اور سیکھنا پڑتا ہے۔ اب مشکل یہ آن پڑی ہے کہ عام پاکستانی غیر ضروری باتوں میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے ذہن میں ایسا بہت کچھ انڈیل رہا ہے جس کا اُس کی حقیقی بہبود سے کوئی تعلق نہیں۔ زندگی کو منظّم انداز سے بسر کرنے کی بیشتر کوششیں ناکامی سے دوچار ہو رہی ہیں اور ایسا اِس لیے ہو رہا ہے کہ لوگ اپنے معاملات کی درستی کے حوالے سے حقیقی معنوں میں سنجیدہ نہیں۔ ذہن کے پیالے میں لایعنی باتیں انڈیلتے رہنے کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ اب کام کی باتوں کے لیے بہت کم جگہ بچی ہے۔ بالکل غیر ضروری، بلکہ غیر متعلق مباحث میں الجھ کر ذہن کی صلاحیتوں کو زنگ لگانا کہاں کی دانش مندی ہے؟ مگر اے وائے ناکامی کہ ایسا ہی ہورہا ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎
مباحثوں کا ماحصل فقط خلش، فقط خلل
سوال ہی سوال ہیں، جواب ایک بھی نہیں
مین سٹریم میڈیا میں بھی سب کچھ سب کے لیے نہیں ہوتا۔ اور سوشل میڈیا؟ یہ آن لائن پورٹلز تو بالعموم ہوتے ہی اس لیے ہیں کہ آپ کے وقت پر ڈاکا ڈالیں، آپ کو لاحاصل معاملات میں الجھائیں اور ذوق و حُسنِ عمل سے دور کردیں۔ لوگ دن رات سوشل میڈیا کی ایسی پوسٹس میں الجھے رہتے ہیں جو اُنہیں وقتی طور پر یعنی محض چند لمحات کے لیے تھوڑا سا لطف دیتی ہیں اور ذہن کو الجھاکر وقت اور صلاحیت دونوں معاملات میں خسارے کا باعث بنتی ہیں۔ آن لائن پوسٹس دیکھنے یا چیٹ رومز میں جاکر خیالات کے اظہار یا تبصرے کے نام پر فضول جملے پھینکنے یا وصول کرنے کو کسی بھی درجے میں کوئی تخلیقی عمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ اوّل و آخر وقت کا ضیاع ہے، اور کچھ نہیں۔ اہلِ وطن اِس چیستان سے جس قدر جلد نکل آئیں اُتنا ہی اچھا ہے۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے اور گزر کیا رہا ہے، ہاتھوں سے نکلا جارہا ہے۔ ایسے میں فضول معاملات سے دور رہنے ہی میں عافیت ہے۔ سوشل میڈیا کے سمندر میں غرق ہوکر سبھی کچھ ضائع کردینا کسی بھی درجے میں دانش مندی نہیں۔ اظہارِ خیال کے نام پر سوشل میڈیا کی فضول پوسٹس پر انتہائی سطحی نوعیت کے تبصرے پڑھنا اور پھر سوچے سمجھے بغیر اُن پر رائے زنی کرنا وہ عمل ہے جو ہمیں حقیقت پسندی سے خطرناک حد تک دور لے جارہا ہے۔ زندگی کو ضائع کرنے کی رفتار بڑھتی جارہی ہے۔ اس پورے معاملے سے الگ تھلگ رہنے کی ضرورت ہے اور یہ کام شعوری کوشش کے بغیر نہیں ہوگا۔ زندگی سی نعمت کو سطحی نوعیت کے مباحث اور لاحاصل تبصروں پر نچھاور نہیں کیا جاسکتا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم میڈیا کی پیشرفت سے کماحقہٗ استفادہ یقینی بنانے کے معاملے میں سنجیدہ ہوں اور بامقصد زندگی یقینی بنانے کی خاطر ہر اُس سرگرمی سے دور رہیں جو وقت، صلاحیت اور سکت کے ضیاع کی راہ ہموار کرتی ہو۔ سوشل میڈیا کی فضول پوسٹس میں الجھ جانے والوں کی اکثریت کو ہم نے ایسی بُری اور عبرت نام حالت میں دیکھا ہے جسے بیان کرنے کے لیے محترم غالب عرفانؔ کے شعر کا سہارا لینا پڑے گا ؎
کوئی بھی نہ بچ سکا جشنِ فتح کے لیے
شہر کی فصیل پر طبلِ جنگ رہ گیا