تحریر : ڈاکٹر حسن عسکری رضوی تاریخ اشاعت     08-08-2021

پاکستان کی نئی افغانستان پالیسی

افغانستان کے بارے میں پاکستان کے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کے حالیہ بیانات تجربے سے سیکھنے کی بنیاد پر پالیسی میں نمایاں تبدیلی کو ظاہر کرتے ہیں۔ دونوں نے اعلان کیا کہ افغانستان کی داخلی کشمکش میں پاکستان کا کوئی پسندیدہ نہیں ہے۔ پاکستان نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے لیے افغان طالبان کی حوصلہ افزائی کی تھی‘ جس کے نتیجے میں 29 فروری 2020 کو امن معاہدہ ہوا۔ اب پاکستان افغان طالبان اور کابل حکومت کے مابین امن معاہدے کا حامی ہے۔ اس کی دلچسپی اس بات میں ہے کہ افغانستان میں امن اور استحکام کی پائیدار بنیاد بنانے میں مدد کی جائے۔ دوسرا پاکستانی مفاد یہ ہے کہ ملک کو افغانستان میں داخلی لڑائی کے منفی نتائج سے بچایا جائے۔ پاکستان کی افغانستان میں غیرجانبداری کی پالیسی 1980، 1990 اور 2000 کی دہائیوں میں اختیار کی گئی افغان پالیسی سے مختلف ہے۔ ماضی میں پاکستان افغانستان کے داخلی معاملات میں کسی نہ کسی طور براہ راست ملوث رہا۔ پاکستان کو انسانی اور مادی نقصانات کے لحاظ سے اس پالیسی کی بھاری قیمت چکانا پڑی۔ ماضی میں، ایک مشکل اور غیریقینی سکیورٹی صورتحال میں، پاکستان امریکہ کی طرف جھکائو رکھتا رہا۔ اس پالیسی نے پاکستان کے فوری مسائل حل کرنے میں مدد دی لیکن پاکستان کو اس کی بھاری سفارتی قیمت چکانا پڑی۔ آئیے پاکستان کی پالیسی سے تین مثالوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
1950 کی دہائی کے وسط میں پاکستان کو بھارت کی طرف سے شدید سکیورٹی خطرے کا سامنا کرنا پڑا، اور اسے نئے ہتھیاروں کے حصول، اپنے فوجیوں کی تربیت اور کسی طاقتور ریاست کی سفارتی مدد کے ذریعے اپنے سکیورٹی نظام کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ پاکستان نے 1954-55 میں امریکہ کے زیر اہتمام اتحاد میں شمولیت اختیار کر لی جس سے اس کے فوری سکیورٹی مسائل حل ہوگئے کیونکہ اسے نئے امریکی ہتھیار اور تربیتی سہولیات میسر آئیں اور پاکستان کی سفارتی تنہائی کا مسئلہ بھی حل ہو گیا‘ لیکن طویل المیعاد معاملات میں پاکستان نے اس کی بھاری قیمت چکائی کیونکہ وہ سوویت یونین کو محدود رکھنے کی امریکی پالیسی سے منسلک ہو گیا تھا۔ اس کے باوجود امریکہ کشمیر پر پاکستان کی حمایت کرنے کو تیار نہیں تھا تاکہ بھارت کو مکمل تنہائی سے بچایا جا سکے۔ امریکہ نے اکتوبر 1962میں چین بھارت جنگ کے بعد بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنایا۔
دوسری مثال کا تعلق سوویت یونین کے دسمبر 1979 میں افغانستان پر کئے گئے حملے سے ہے۔ اس حملے نے پاکستان کیلئے سکیورٹی کے حوالے سے ایک مشکل صورتحال پیدا کر دی تھی۔ پچھلی بار کی طرح، پاکستان نے ایک بار پھر امریکہ اور قدامت پسند عرب ریاستوں کے ساتھ ہاتھ ملا لیے۔ اس سے پاکستان کیلئے فوری فوائد ظاہر ہوئے لیکن طویل مدتی معاملات میں اسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ فوری فائدہ بین الاقوامی سطح پر ضیاالحق کی آمرانہ حکومت کی قبولیت تھا۔ پاکستان کو ہتھیار اور غیرملکی فنڈنگ ملی، بشمول امریکی سی آئی اے کی فنڈنگ کے تاکہ افغان مجاہدین فورس قائم کی جا سکے۔ بعض عرب ریاستوں کی طرف سے حوصلہ افزائی کے بعد ہزاروں عرب باشندے بھی افغان مجاہدین سے آن ملے۔ طویل مدتی معاملات میں اس کا نقصان یہ ہواکہ پاکستان کو چالیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو پناہ دینا پڑی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہاں چھوٹے اور درمیانے سائز کے اسلحے کی بھرمار ہوگئی اور منشیات کا کاروبار عام ہو گیا۔
طویل مدتی نقصانات کی قیمت پر فوری فائدہ حاصل کرنے کی تیسری مثال جنرل پرویز مشرف کی حکومت کا امریکی قیادت میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ تھا۔ ان کی حکومت کیلئے اس میں متعدد فوری فوائد تھے۔ حکومت کو بین الاقوامی قبولیت مل گئی۔ امریکہ نے پاکستان پر چار مختلف قسم کی اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی تھیں۔ ان میں سے تین پابندیاں ختم کر دی گئیں‘ امریکہ نے پاکستان کو مالی امداد فراہم کرنے پر بھی رضامندی ظاہر کی۔ امریکہ نے کچھ قرضے بھی معاف کیے۔ یورپ نے بھی قرضوں پر سازگار رویہ اختیار کیا۔ امریکہ نے پاکستان کو فوجی امداد دینے پر بھی اتفاق کیا جو اکتوبر 1990 میں معطل کر دی گئی تھی۔
ستمبر 2001 میں امریکہ نواز پالیسی اپنانے پر پاکستان کو فوری سفارتی اور معاشی فوائد حاصل ہوئے‘ تاہم اس پالیسی کی طویل مدتی قیمت فوری فوائد سے کہیں زیادہ تھی۔ انتہا پسندی اور دہشتگردی پاکستانی ریاست اور معاشرے کیلئے ایک بڑا خطرہ بن کر ابھری۔دہشتگردی کے واقعات میں ستر ہزار سے زائد جانیں ضائع ہوئیں۔ شمالی وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں سے دہشتگرد گروہوں کا قلع قمع کرنے کیلئے پاکستان کو 2014 سے 2018 تک سکیورٹی آپریشن کرنا پڑا‘ جس پر بھاری لاگت آئی۔ دہشتگردی کی طویل مدتی قیمت پاکستان کو بیرون ملک سے ملنے والے فنڈز، قرضوں، گرانٹس اور ترقیاتی منصوبوں کی فنڈنگ سے کہیں زیادہ تھی۔
ماضی میں افغانستان میں صف بندی کا حصہ بنے رہنے کی پالیسی کی ایک بڑی سفارتی قیمت یہ ہے کہ بہت سے ممالک اور تجزیہ کار یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان افغانستان میں اپنی اس جانبداری کی پالیسی سے ہٹ نہیں سکتا‘ جو اس نے 1990 کی دہائی میں اختیار کی تھی یا جو21ویں صدی کی پہلی دہائی میں ڈبل ٹریک پالیسی اختیار کی تھی۔ پاکستان کی افغانستان میں غیر جانب داری کی نئی پالیسی کو عالمی برادری کو یہ باور کرانے کے چیلنج کا سامنا ہے کہ پاکستان کسی کا ساتھ نہیں دے رہا اور افغانستان میں ایک مستحکم اور پُرامن صورتحال چاہتا ہے۔ افغان حکومت اور بھارت مسلسل پروپیگنڈے میں مصروف ہیں کہ پاکستان افغان طالبان کی حمایت کررہا ہے۔ امریکہ نے اب تک پاکستان پر کسی قسم کی تنقید سے گریز کیا ہے لیکن واشنگٹن ڈی سی میں اس کے کئی حکام اور تھنک ٹینکس کو افغانستان کے بارے میں پاکستان کی نئی پالیسی پر تحفظات ہیں۔ پاکستانی سکالرز اور تجزیہ کاروں کو یہ اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کی افغانستان سے متعلق پالیسی کیوں اور کیسے تبدیل ہوئی ہے۔ قبائلی علاقوں میں انسداد دہشتگردی مہم (2014-18) کے دوران پاک فوج اور سکیورٹی فورسز کا تجربہ طالبان کے بارے میں پاکستان کے نقطہ نظر کو تبدیل کرنے کی کلید رکھتا ہے۔ انہوں نے قبائلی علاقوں میں براہ راست تجزیہ کیا کہ یہ گروہ کتنے سفاک ہیں اور یہ کہ پاکستانی ریاست ان گروہوں اور ان کے اتحادیوں کو کنٹرول کیے بغیر ایک مربوط ریاست کے طور پر کام نہیں کر سکتی۔
ایک اور عنصر جس نے افغانستان کے بارے میں پاکستان کے نقطہ نظر کو تبدیل کیا‘ چین کے ساتھ شیئر کیا گیا پاکستان کا یہ مشترکہ ادراک ہے کہ دونوں تجارت، گیس پائپ لائنوں و بجلی کی ترسیل اور ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں لوگوں کی نقل و حرکت کے ذریعے اقتصادی رابطے بڑھا کر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ چین اور پاکستان‘ دونوں وسطی ایشیا کو پاک چین اقتصادی راہداری نیٹ ورک سے جوڑنا چاہتے ہیں‘ لیکن اس کیلئے افغانستان میں امن اور استحکام کی ضرورت ہے۔ پاکستان اپنے جغرافیائی محل وقوع سے ایک ایسے ملک کے طور پر فائدہ اٹھا سکتا ہے‘ جو وسطی ایشیا، چین کے سنکیانگ خطے، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کو جوڑتا ہے۔ یہ ان علاقوں کے درمیان توانائی کی نقل و حمل کے راستے کے طور پر کام کر سکتا ہے۔ اگر افغانستان اور ملحقہ علاقوں میں امن قائم نہ ہو تو ایسا ممکن نہیں ہو سکتا‘ لہٰذا پاکستان ماضی کی پالیسی کے اپنے ناخوشگوار تجربے کی بنا پر اور مختلف علاقوں کے ساتھ رابطے کے ذریعے معاشی فوائد کے امکانات کے پیش نظر افغانستان میں اور اس کے آس پاس امن کی بات کر رہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved