تحریر : امتیاز گل تاریخ اشاعت     08-08-2021

بائیڈن کا بھارت کی جانب جھکاؤ اور پاکستان

جوزف بائیڈن کا امریکی سینیٹ میں بطور سینیٹر دور اور بطور چیئرمین خارجہ تعلقات کمیٹی ان کا کردار ایک کھلی کتاب تھی‘ لیکن پاکستانی قیادت‘ ہمیشہ کی طرح‘ اس کھلی کتاب کا شعوری طور پر جائزہ لینے میں ناکام رہی، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بائیڈن نے جو سرد مہری دکھائی ہے‘ پاکستان اس پر معمول کے غصے، مایوسی اور حیرت کا اظہار کر رہا ہے۔
ہمارے رہنما صدر بائیڈن کی بھارت سے محبت کا اندازہ لگانے میں ناکام رہے ہیں جس کو وہ امریکہ کے ساتھ ''اکیسویں صدی کی دنیا میں سکیورٹی کے تین یا چار ستونوں‘‘ میں سے ایک تصور کرتے ہیں۔
بھارت کے بارے میں بائیڈن کے تاریخی طور پر اہم سابقہ تبصروں کو سمجھنا ضروری ہے۔ ذرا پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں۔ نومبر 2006 میں‘ سینیٹر کے طور پر جوزف بائیڈن نے اس قانون سازی کی قیادت کی‘ جس نے امریکہ بھارت سویلین نیوکلیئر معاہدے کی راہ ہموار کی تھی۔ سینیٹر رچرڈ لوگر اس قانون کے مسودے کے شریک مصنف تھے۔ امریکی سینیٹ میں یہ قانون 16 نومبر کو بھاری اکثریت سے پاس ہوا تھا۔ اس کے حق میں 12 کے مقابلے میں 85 ووٹ پڑے تھے۔
ریڈف انڈیا کے ساتھ ایک انٹرویو میں بائیڈن نے ایٹمی تعاون کے معاہدے کو 'واحد اہم ترین پیش رفت‘ قرار دیا جو کہ گزشتہ 20 سالوں میں بھارت کے حوالے سے ہوئی‘ اور کہا کہ یہ وہ بنیاد ہے جس پر ہم تعمیر شروع کر سکتے ہیں۔ پھر انہوں نے مستقبل میں بھارت کے ساتھ شراکت داری کے اپنے وژن کی وضاحت کی کہ و ہ امریکہ بھارت تعلقات کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں ۔
تو کیا یہ واقعی حیرت کی بات ہے کہ اب امریکی صدر ان اہداف کو حاصل کر رہے ہیں جن پر وہ 15 سال پہلے کاربند ہوئے تھے؟
''میرا خواب یہ ہے کہ 2020 میں دنیا کی دو قریبی اقوام بھارت اور امریکہ ہوں گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو دنیا زیادہ محفوظ ہو جائے گی‘‘۔
بائیڈن کی اسی بات کو ان کے سیکرٹری آف سٹیٹ انتھونی بلنکن نے بعد ازاں 28 جولائی کو نئی دہلی میں بات چیت کے دوران دہرایا۔ بائیڈن کے وژن کی مزید وضاحت کے طور پر بلنکن نے کہا: ''یہ 2021 ہے اور جو بائیڈن امریکہ کے صدر ہیں۔ بھارت اور امریکہ کے مابین دوستی دنیا بھر میں سب سے زیادہ نتیجہ خیز ہے‘ اور ہم بھی آگے، 2030 اور اس سے آگے کے مستقبل کی طرف دیکھتے ہیں، کیونکہ ایک بار پھر، جو انتخاب اور سرمایہ کاری ہم آج کرتے ہیں وہ ہمارے بچوں اور دنیا کے لیے صحت مند، زیادہ پرامن، زیادہ خوش حال، زیادہ جمہوری مستقبل پیدا کر سکتی ہے۔ یہ ہمارے سامنے ایک موقع ہے، اور یہی وہ منزل ہے‘ بھارت اور امریکہ کے عوام مل کر جس کے حصول کے لیے کام کریں گے‘‘۔
ذیل میں سینیٹر بائیڈن کے 2006 کے انٹرویو کے چند مزید نکات ہیں جو خصوصی طور پر اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ صدر بائیڈن بھارت کے ساتھ تعلقات کو مزید بڑھانے اور مضبوط کرنے کیلئے کیا کر سکتے ہیں۔
پہلا: یہ خیال کہ تین یا چار ستون‘ جن پر دنیا کی سکیورٹی کا انحصار ہو گا‘ ان میں سے دو‘ بھارت اور امریکہ ہیں۔
دوسرا: بھارت عدم پھیلاؤ میں شراکت دار رہا ہے، اور ایک ''بین الاقوامی اچھا شہری‘‘ ہے، باوجود اس کے کہ ''ایک انتہائی خراب پڑوس‘‘ میں رہتا ہے؛ چنانچہ یہ خیال کہ بھارت، جس کے شمال میں چین اور مغرب میں پاکستان واقع ہے‘ ایٹمی طاقت نہیں بنے گا، کوئی معقول توقع نہیں ہے۔
تیسرا، ''یہ کہ ہندوستانی نژاد امریکن کمیونٹی امریکی کانگریس کو اپنے خیالات سے آگاہ کرنے کے قابل ہورہی ہے۔ یہ اہم بات ہے۔ یہ واحد اہم ترین تعلق ہے جو ہمیں اپنی حفاظت کی خاطر درست کرنا ہے۔
تعجب کی بات نہیں کہ ایک بھارت نژاد امریکی کملا ہیرس امریکی انتظامیہ میں دیگر متعدد ہندوستانی نژاد امریکیوں کے ساتھ صدر جو بائیڈن کے نائب کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی ہیں۔ بائیڈن کا جھکاؤ کس طرف ہے‘ اس کے واضح اظہار کے طور پر بائیڈن نے کم از کم 55 ہندوستانی امریکیوں کو صدارت سنبھالنے کے چند دنوں کے اندر اپنی انتظامیہ میں اہم عہدوں پر فائز کیا۔ یہ تقرریاں انتظامیہ کے تقریباً ہر شعبے میں کی گئی ہیں۔
چوتھا، ''آپ کشمیر کے میرٹس پر بحث کر سکتے ہیں، انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کس تاریخی نکتے سے شروع کرنا چاہتے ہیں (لیکن)... میں پہلے بھارت سے پیشگی مشورہ کئے بغیر بات نہیں کروں گا‘ اگر ہمارے اچھے دفاتر طلب کیے جاتے ہیں تو ہمیں انہیں فراہم کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے‘ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ ہم تعین کر سکتے ہیں... ہم، امریکہ (اسے کیسے حل کیا جائے)‘ لیکن یہ حل کرنا ہمارا مسئلہ نہیں‘‘۔
کیا ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ انڈیا کو مستقل امریکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ بائیڈن جیسے سابق فوجیوں کی طرف سے کشمیر میں 5 اگست 2019 کی کارروائیوں کی اجازت تھی؟ یہ کارروائیاں کشمیریوں کی منفرد شناخت پر حملہ تھیں اور انہیں مغربی جمہوریتوں کے ضمیر کو ہلا دینا چاہیے تھا جو انسانی حقوق اور اقلیتوں کی نسلی و ثقافتی شناختوں کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیتی رہتی ہیں۔
آخری بات یہ کہ ''ایران ایک تھیوکریسی ہے جس کا ارادہ خراب ہے‘ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ بھارت نے کوئی ٹیکنالوجی اور/ یا مہلک ہتھیار ایران کو منتقل کیے ہیں۔ علاوہ ازیں، اس بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں کہ انہوں نے کوئی ایسی فوجی صلاحیت منتقل کی جو تہران میں حکومت کو دہشت گردی کی حمایت کرنے کی اجازت دیتی ہو۔
ہم مذکورہ بالا سب ایشوز اور معاملات کو ایک ساتھ رکھیں‘ اور یہ پرکھیں کہ امریکی صدر وزیر اعظم عمران خان کے حوالے سے سرد مہری دکھاتے ہیں تو پاکستان کو پریشان کیوں ہونا چاہیے؟ یہ بالکل واضح ہے کہ بطور صدر اب ان کے پاس موقع ہے کہ بھارت کے بارے میں اپنے وژن کو حقیقت میں بدل دیں اور بھارت کے ساتھ امریکہ کے موجودہ تعلقات کو اگلے درجے تک لے جائیں۔
اس حوالے سے پاکستان کیلئے چیلنج ہے۔ امریکی صدر کے پاکستان کے بارے میں غیر ذمہ دارانہ رویے پر ماتم کرتے ہوئے غیر ضروری وقت، کوشش اور توانائی خرچ کرنا غیر دانشمندانہ ہے۔ ہمیں اجتماعی طور پر یہ قبول کرنا چاہیے کہ نئی جیو پولیٹیکل تبدیلی واضح سیاسی چوائسز پر منتج ہو گی۔ جیسے ایف اے ٹی ایف کی طرف سے پاکستان کی مسلسل گرے لسٹنگ، یا برطانیہ کے بجائے پاکستان کی کووڈ19 کے حوالے سے ریڈ لسٹنگ (مریضوں کی کم تعداد، انفیکشن کے پھیلائو کی کم رفتار اور کم مثبت شرح کے باوجود)۔
بڑے دارالحکومتوں میں اصولوں کی عدم موجودگی، دوغلے پن اور حکمت کی کمی پر واویلا کرنے کا کچھ فائدہ نہ ہو گا۔
اس کے بجائے، ریاست کو اپنی نظام کی کمزوریوں کو دور کرنے پر توجہ دینی چاہیے، گورننس کی خرابیوں کا علاج کرنا چاہیے اور سرمایہ کاری کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے تاخیری ہتھکنڈے اختیار کرنے والے بیوروکریٹس کو سمارٹ ٹیکنوکریٹس کے ساتھ تبدیل کرنا چاہیے۔ 19ویں صدی کی طرزِ حکمرانی پر قائم رہنے سے سیاسی اور معاشی پیشرفت کم ہوتی جائے گی۔ ہماری ترجیح داخلی جدوجہد اور مسائل ہونے چاہئیں، ان بین الاقوامی دوستوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے‘ جو آگے بڑھ چکے ہیں، اور مدد اور دوستی کی پیشکش کرتے رہتے ہیں اور پاکستان کو کھینچ کر ایک نئے معاشی طور پر خوش حال مستقبل کی طرف لانے کی کوشش میں رہتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved