نواز وزراکے اعصاب پر سوار ہیں: مریم نواز
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''نواز شریف وزرا کے اعصاب پر سوار ہیں‘‘ اور جب سے آزاد کشمیر اور ضمنی انتخاب کے نتائج آئے ہیں بلکہ جب سے برطانوی حکومت نے ان کے ویزے میں توسیع کی درخواست مسترد کی ہے وہ اس قدر کمزور ہو گئے ہیں کہ ان کے لیے کسی نہ کسی چیز پر سوار ہونا ضروری ہو گیا ہے اس لیے حکومتی وزرا سے درخواست ہے کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر وہ نواز شریف کو اپنے اعصاب پر سوار رہنے کی اجازت دیں اور جونہی ان کی حالت ذرا سنبھلتی ہے وہ ان کے اعصاب سے خود ہی اتر جائیں گے، پیشگی شکریہ۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کررہی تھیں۔
میاں صاحب ملک لوٹنے والے دنیا
کے پہلے وزیراعظم تھے: شہباز گل
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط شہباز گل نے کہا ہے کہ ''میاں صاحب ملک لوٹنے والے دنیا کے پہلے وزیراعظم تھے‘‘ جبکہ کئی ممالک میں وہاں کے صدور نے یہ کام ضرور کیا ہے لیکن میاں صاحب کے علاوہ کسی وزیراعظم کو ملک لوٹنے کا اعزاز حاصل نہیں ہے ،میاں صاحب شروع ہی سے نہایت حوصلہ مند واقع ہوئے ہیں بلکہ سب سے پہلے وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ مقرر ہوئے تب بھی انہوں نے اس کام کا آغاز کر دیا تھا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ملک سے فرارہونے والے بھی وہ شاید پہلے وزیراعظم ہوں ۔ آپ اگلے روز مریم اورنگزیب کے بیان پر اپنے رد عمل کا اظہار کررہے تھے۔
نواز علاج کے بغیر واپس نہیں آئیں گے: شہباز
نواز لیگ کے صدر میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''نواز شریف علاج کے بغیر واپس نہیں آئیں گے‘‘ کیونکہ ابھی وہ اپنے ڈاکٹرز کے مشورے پر علاج سے پہلے کے احتیاطی لوازمات پورے کر رہے ہیں جن میں سیرسپاٹا وغیرہ شامل ہے اس لیے فی الحال ان کا علاج شروع نہیں کیا جا سکا، تاہم چند سال کے اندر اندر ان کا علاج شروع کیا جا سکتا ہے جبکہ ان کے تندرست ہونے کے لیے چند مزید سال درکار ہوں گے جس کے بعد وہ ہوائی سفر کے قابل ہونے پر واپسی کا ارادہ باندھ لیں گے اور وہ ارادے کے بہت پکے ہیں اور امید ہے کہ اس وقت تک یہاں میرا بھی کچھ دال دلیا ہو جائے۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
کابینہ میں رد و بدل سے قرض کا تسلسل بہتر ہوگا: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ ''کابینہ میں رد و بدل سے قرض کا تسلسل مزید بہتر ہوگا‘‘ اگرچہ ترقی پہلے بھی کافی بلکہ ضرورت سے زیادہ ہی ہو رہی ہے اور اسے روکنے کی ضرورت ہے، اسی لیے جن وزرا کے محکموں میں زیادہ ترقی ہو رہی تھی انہیں ہٹایا جا رہا ہے اور کم ترقی والوں کو ان کی جگہ لگایا جا رہا ہے کیونکہ عوام کو زیادہ ترقی بھی ہضم نہیں ہوتی اور اس سے پہلے انہوں نے ایسی ترقی کبھی دیکھی بھی نہیں تھی کیونکہ وفاقی حکومت کی طرف سے جو اربوں روپے ملے تھے وہ اسی ترقی پر خرچ ہوئے ہیں جن کا حساب بھی مانگا جا رہا ہے حالانکہ ترقی ہی اگر بے حساب ہوتی ہے تو اس کا حساب کہاں سے آئے گا۔ آپ اگلے روز کراچی میں نئے وزرا، مشیر اور ایڈمنسٹریٹرز سے ملاقات کر رہے تھے۔
مویشی منڈیوں میں سہولیات فراہم
کرنا ترجیحات میں شامل ہے: محمود الرشید
پی ٹی آئی کے رہنما میاں محمود الرشید نے کہا ہے کہ ''مویشی منڈیوں میں سہولیات فراہم کرنا ترجیحات میں شامل ہے‘ جس کے بعد عوام کو سہولیات فراہم کرنے کی باری آئے گی کیونکہ مویشی بے زبان جانور ہیں اور اپنے منہ سے کچھ نہیں کہہ سکتے، اگرچہ ہمارے عوام بھی کافی بے زبان واقع ہوئے ہیں پھر بھی وہ اپنے مسائل بیان کرتے رہتے ہیں جبکہ مویشی تو اتنا بھی نہیں کر سکتے نیز عوام اپنی سہولیات خود بھی حاصل کر سکتے ہیں ‘ محض اپنی نیت کی خرابی کے باعث ایسا کرنے سے قاصر ہیں اس لیے اپنی طبیعت درست ہونے سے پہلے انہیں اپنی نیت درست کرنے پر توجہ دینی چاہیے ۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
اور، اب آخر میں ابرار احمد کی نظم:
ہر روز
ہر روز کوئی قلم ٹوٹ جاتا ہے/ کوئی آنکھ پتھرا جاتی ہے/ کوئی روزن بجھ جاتا ہے/ کوئی دہلیز اکھڑ جاتی ہے/ کوئی سسکی جاگ اٹھتی ہے/ کوئی ہاتھ ٹھنڈا ہو جاتا ہے/ کوئی دیوار گر جاتی ہے/ اور کوئی راستا بن جاتا ہے/ ہر روز کہیں کوئی چھت بیٹھ جاتی ہے/ کوئی درخت کٹ جاتا ہے/ کوئی خواب بکھر جاتا ہے/ کوئی آہٹ رخصت ہو جاتی ہے/ اور ایک آواز۔۔۔۔ اپنی آمد کا/ اعلان کر دیتی ہے/ کوئی جنگل اُگ آتا ہے/ اور ایک زمانہ۔۔۔۔ معدوم ہو جاتا ہے/ ہر روز کوئی نیند ٹوٹ جاتی ہے/ کوئی آنکھ لگ جاتی ہے/ کوئی دل بیٹھ جاتا ہے/ اور کوئی زخم بھر جاتا ہے/ ایک قصہ ادھورا رہ جاتا ہے/ ہر قصے کی طرح/ کوئی گیت سو جاتا ہے/ کوئی تان الجھ جاتی ہے/ کوئی سانس پھول جاتی ہے/ اور خاموشی چھا جانے سے پہلے/ کوئی دھن چھڑ جاتی ہے/ انگلیاں چلتی رہتی ہیں/ تار ٹوٹتے رہتے ہیں/ ہر روز کوئی بارش تھم جاتی ہے/ کوئی زمین سوکھ جاتی ہے/ کوئی چولہا سرد ہو جاتا ہے/ کوئی بستی اجڑ جاتی ہے/ ۔۔۔ کسی تعمیر کے نواح میں/ کوئی خوشبو سو جاتی ہے/ ایک دریا اپنا رخ تبدیل کر لیتا ہے/ اور کناروں پر ایک آگ جل اٹھتی ہے/ ہر روز کوئی پھول کھل اٹھتا ہے/ کوئی ہوا چل پڑتی ہے/ کوئی مٹی اڑ جاتی ہے/ اڑ جاتی ہے اور بکھر جاتی ہے/ ہونے کی لذت سے سرشار چہروں پر/ کوئی کھڑکی بند ہو جاتی ہے/ اور کوئی دروازہ کھل جاتا ہے/ کھلا رہتا ہے دیر تک/ کوئی پہیہ رک جاتا ہے/ کوئی سواری اتر جاتی ہے/ کوئی پتہ ٹوٹ جاتا ہے/ کوئی دھول بیٹھ جاتی ہے/ اور ایک سفر تمام ہو جاتا ہے/ شاخ جھول جاتی ہے/ اور کوئی پرندہ اڑ جاتا ہے/ ان دیکھی فضائوں کی جانب/ اجنبی گھٹائوں کی جانب/ ہر روز میری آنکھ سے، تمہارے لیے/ ایک آنسو گر جاتا ہے/ ہونٹوں سے ایک دعا اتر جاتی ہے/ دل میں ایک دھاگا ٹوٹ جاتا ہے/ اور ایک دن۔۔۔ گزر جاتا ہے/ دنوں پر دن گزرتے چلے جاتے ہیں/ گھاس پر سوکھے پتوں کی طرح/ مٹھی سے گرتی ریت کی طرح/ گزرتے چلے جاتے ہیں/ آنکھ سے گزرتے منظروں کی طرح/ ہوا میں بہتے بادلوں کی طرح/ اور ایک روز۔۔۔۔/ موسم گدلا جائیں گے/ چہرے ساکت ہو جائیں گے/ شور تھم جائے گا/ سارے دن/ میرے اندر۔۔۔۔ غروب ہو جائیں گے/ اور آتے ہوئے روز میں۔۔۔۔/ ٹوٹا ہوا قلم/ ایک نام کا دھبا/ اور کٹی ہوئی انگلیوں کے نشان/ رہ جائیں گے!
آج کا مطلع
یہ دل پڑا ہوا خواب و خیال سے خالی
کہ جیسے دشت ہو کوئی غزال سے خالی