تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     08-08-2021

’’ اوتھے عملاں دے ہونے نے نکھیڑے ‘‘

'' انتہائی افسوس سے اعلان کیا جا رہا ہے کہ شامی مہاجرین کی خوراک اور امداد کے لیے اقوام متحدہ اپنا بجٹ کم کر رہی ہے کیونکہ اسے فنڈز کی کمی کا سامنا ہے‘‘۔اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق شام میں دس برس سے جاری شورش کے بعد 36 لاکھ بے گھر شامی باشندے ترکی میں رہ رہے ہیں‘ یہ دنیا میں پناہ گزینوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ اقوام متحدہ نے اس سال شامی مہاجرین کی امداد کے لیے 10ارب ڈالر کی اپیل کی تھی۔
یو این او کا یہ اعلامیہ دوسرے لوگوں کی طرح ترکی میں بھی پڑھا اور سنا گیا جن میں ترکی کا ایک متمول تاجر بھی شامل تھا جس کے بیٹے کی چند ہفتوں بعد شادی کی تقریب ہونے جا رہی تھی جس کے لیے چار ہزار سے زائد مہمانوں کی فہرست تیار کر لی گئی تھی اور شادی کے دوسرے انتظامات کی ہدایات دی جا رہی تھیں ۔ ترکی کے اس خوش حال خاندان کے نوجوان فرزند کے نکاح کے بعد جب دعوت ولیمہ کی تقریب کا انتظام ہوا اوراس کے لیے مہمانوں کی فہرست مرتب کی جا رہی تھی تو دولہا کے باپ نے اپنے خاندان کے افراد کو پاس بٹھا کر کہا کہ کسی بھی ماں باپ کے لیے اپنی اولاد کی شادی کی تقریب سے زیا دہ خوشی کا دوسرا موقع نہیں ہوتا۔ اس نے اپنی بہو اور بیٹے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ تم لوگوں نے اپنے دوستوں اور خاندان کے افراد کے ساتھ مل کر نہ جانے کتنے اچھے اور مختلف قسم کے دلچسپ پروگرام ولیمے کی خوشیاں منانے کے لیے بنائے ہوں گے‘ دور دراز سے اپنے پرانے دوستوں کو مدعو کر رکھا ہے اور اس کے لیے اب تک جو فہرست ہمارے سامنے ہے وہ چار ہزار کے قریب بنتی ہے‘ میرے لئے ان مہمانوں کے لیے قسم قسم کے کھانوں کی فراہمی کے لیے بڑی سے بڑی رقم کی ادائیگی کوئی مشکل نہیں بلکہ معمولی بات ہے لیکن میرے دل میں کئی دنوں سے ایک خیال اور سوچ جڑ پکڑ چکی ہے کہ کیوں نہ ہم یہ تمام کھانا جس کا ہم ہوٹل انتظامیہ کو آرڈر دے چکے ہیں ترکی میں پناہ لئے شام کے بچوں‘ بوڑھوں اور عورتوں کے درمیان تقسیم کر دیں۔ اگر آپ منا سب سمجھیں تو وہ مہمان جو ہم نے مدعو کر رکھے ہیں انہیں آن لائن اپنے اس پروگرام سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ یہ درخواست بھی کردیں کہ وہ آپ کو قیمتی تحائف دینے کی بجائے ان شامی عورتوں‘ بچوں اور مردوں کیلئے لباس‘ تحائف ‘ بسکٹ اور اپنی اپنی حیثیت کے مطا بق کھلونوں کے پیکٹ بنا کر لے آئیں۔
دولہا دلہن اور ان کے خاندان کے لوگ بہت بڑی تعداد میں ان کیمپوں اور بیرکوں میں پہنچے جہاں شامی تباہ حال مہاجرین کو پناہ دی گئی اور ترکی کے ایک بہت ہی اعلیٰ ہوٹل کی گاڑیوں میں لدا ہوا انتہائی قیمتی اور لذیذ کھانا ترکی میں پناہ لئے شامی مہاجرین کے ان کیمپوں میں لے جایاگیا اور ان کے مدعو کئے گئے مہمان بھی قیمتی اور بڑی بڑی گاڑیوں میں بڑے بڑے پیکٹوں اور ڈبوں سے لدے پھندے پہنچ گئے اور سب نے مل کر ان شامی مہاجرین کو اپنے ہاتھوں سے اپنے حصے کا کھانا بڑے پیار اور محبت سے پیش کیا۔ اس کیمپ میں نوزائیدہ بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد تھی‘ ان کی مائوں کو بچوں کے کپڑے اور دیگر تحائف پیش کئے گئے ۔یہ منظر دیکھنے والا تھا۔ ہر لقمے کے ساتھ ان بچوں‘ بوڑھوں اور عورتوں کی آنکھیں آسمان کی طرف اٹھتیں ‘ وہ اپنے ﷲ کے حضور دعا گوتھے۔ کھانے کے بعد خواتین کے حصے میں ان کی اور بچوں کی ضروریات کی اشیا تقسیم کی گئیں جبکہ بوڑھوں اور معذوروں کے لیے وہیل چیئرز اور ضرورت کی دیگر اشیا کی بہت بڑی تعداد مستحقین کے حوالے کی گئیں۔ شاید آپ میں سے کچھ لوگ اسے مضمون کی ایک عام روٹین کی طرح کالم نگار کی تمہید سمجھ رہے ہوں گے لیکن جب یہ سٹوری دیکھ رہا تھا تو میرے کانوں میں مرحوم نصرت فتح علی خان کی ایک قوالی کی آواز سنائی دے رہی تھی جسے بعد میں اپنے چند ایسے ہمدردوں اور انسانیت اور غرباو مساکین کے لیے درد اور پیار رکھنے والوں کو فارورڈ بھی کیا۔ قوالی کے بول تھے '' اوتھے عملاں دے ہونے نے نکھیڑے کسے نئی تیری ذات پچھنی‘‘۔
قوالی کے یہ بول اور ترک خاندان کے اس جذبہ اور ایثار نے مجھے ہلا کر رکھ دیا اور اس ویڈیو نے غیر ارادی طور پر مجھ سے کوئی دس برس قبل سر زد ہو جانے والے عمل کی یاد کرا دی جس نے میری سوچ اور زندگی تبدیل کر کے رکھ دی ۔ اسلام آباد سے ایک مشہورانٹر سٹی ٹرانسپورٹ کمپنی کی بس میں لاہور آنے کے لیے سوار ہوا‘ان بسوں میں مسافروں کو ہلکی سی ریفریشمنٹ دی جاتی ہے دوسرے مسافروں کی طرح مجھے بھی بس ہوسٹس کی طرف سے ایک پیکٹ دیا گیا سوچا کہ کلر کہار جا کر کھائوں گا لیکن بس کلر کہار نہ رکی تو میں نے سوچاکہ بھیرہ جا کر چائے کے ساتھ استعمال کروں گا‘ بس بھیرہ رکی تو میں سو یا ہوا تھامجھے جگایاگیا تو جلدی سے بغیر وہ پیکٹ لئے بس سے اتر گیا بھیرہ ریسٹ ایریا میں رکنے کے دس پندرہ منٹ بعد لاہور کی جانب روانہ ہو گئے سوچا چلو چھوٹے بیٹے کو سینڈوچ بہت پسند ہیں گھر جا کر اسے دے دوں گا۔
گارڈن ٹائون میں بس اپنے ٹرمینل پر رکی تو مجھ سمیت سب مسافر اپنا اپنا سامان لے کر باہر نکلنے لگے‘ ابھی ٹرمینل سے باہر کسی سواری کی تلاش میں تھا کہ ایک بوڑھا جھکی ہوئی کمر کے ساتھ میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس سامنے آ گیا اور اس کے ہاتھ پھیلانے سے پہلے ہی ہاتھ میں پکڑا ہوا وہ پیکٹ اس کے حوالے کر دیا جسے اس نے تیزی سے کھول کر وہیں بیٹھ کر کھانا شروع کر دیا اور اسی وقت میرے کانوں میں وہ فرمان گونجنے لگا کہ اللہ نے ہر جاندار کا رزق مقرر کر ردیا ہے اور یہ بھی لکھ دیا گیا ہے کہ وہ رزق اسے کیسے اورکہا ں سے ملنا ہے۔ وہ سینڈوچ اور بسکٹ نہ تو میرا رزق تھے اور نہ ہی میرے چھوٹے بیٹے کے لیے تھے‘ وہ جس کا نصیب تھا اسی کے لیے محفوظ تھا۔
لاہور سے صبح سات بجے چلنے والی نئی نئی آن روٹ ہونے والی قرا قرم ایکسپریس سے کوئی گیارہ بجے راولپنڈی کینٹ سٹیشن پہنچا ۔جیسے ہی باہر نکلا تو اپنے اس دوست کا انتظار شروع کر دیا جس نے مجھے لینے کے لیے آنا تھا۔ شاید ٹریفک یا کسی اور وجہ سے اسے پہنچنے میں دیر ہو رہی تھی مسافر ایک ایک کر کے اپنی اپنی منزلوں کی جانب جانے لگے پندرہ منٹ بعد میری نظر ایک طرف اٹھی تو ساٹھ سال اور اس سے اوپر کے انتہائی کمزور اور سفید داڑھی والے قلیوں کا ایک ٹولہ افسردگی اور مرجھائے ہوئے چہروں کے ساتھ دکھائی دیا۔ غربت بے بسی اور پیرانہ سالی کی بیماریاں ا ن کے جسموں سے ٹپک رہی تھیں۔ نہ جانے کیسے اور کیوں میرے قدم ان کی جانب خود بخود بڑھنے لگے۔جیسے ہی ان کے قریب پہنچا سب جلدی سے میرا سامان پکڑنے کے ارادے سے اٹھنے کی کوشش کرنے لگے۔ میں نے انہیں ہاتھ کے اشارے سے منع کر دیا اور پھر کسی طاقت نے میری مٹھی میں چھپائے ہوئے پانچ پانچ سو روپے کے نوٹ ایک ایک کرکے ان پانچوں بوڑھے قلیوں کے ہاتھوں میں نہیں بلکہ نہ جانے کیوں ان کی جیبوں کی جانب بڑھا دیے۔ان دوواقعات سے مجھے جس قدر سکون اور خوشی ملی اس کا اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا اور یہیں سے میری دنیا بدل گئی۔ اس کے بعد جب بھی‘ جہاں سے بھی مجھے کسی یتیم‘ بیوہ اور نادارکی اطلاع ملتی ہے میں اپنے ان دیکھے دوستو ں سے رابطہ کرتا ہوں جن میں خیر سے امریکہ‘ برطانیہ‘ جرمنی ‘سعودی عرب اور امارات میں رہنے والے لوگوں کے علا وہ پاکستان میں رہنے والے کئی دوست بھی پیش پیش رہتے ہیں۔ ان کا یہ عمل میرے اور ﷲ کے درمیان ایک سودا ہے جسے وہ اپنی کتاب میں محفوظ کررہا ہے۔مجھے گھر والے کئی دفعہ منع کر دیتے ہیں کہ کیوں ہر ایک سے اپیلیں کرتے ہو ‘نہ جانے کوئی کیا سمجھے لیکن میرا یہی جواب ہوتا ہے کہ ﷲکے جدید ترین اور وسیع و عریض کیمرے کی آنکھ سب کچھ دیکھ اور محفوط کر رہی ہے۔
قران پاک کو پڑھئے تو جہاںرب کریم نے نمازکی ادائیگی کا حکم دیا ہے تو ساتھ ہی زکوٰۃ کی تلقین بھی کی ہے۔ پانچ وقت کی نماز کی ادائیگی جہاں بہت ضروری ہے وہاں ہمیں اپنے ہمسائے کی بھوک‘ پیاس اور تکلیف کے ا حساس کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ یہ دنیا ﷲ پاک کا کنبہ ہے اس کے کنبے کی کفالت کرنے والے اس کے کنبے کے دکھ درد کودور کرنے والے چاہے ترکی کے لوگ ہوں یا ہمارے اوور سیز پاکستانی یا پاکستان میں مقیم شہری ‘ﷲ کو دیے گئے اس قرض کی واپسی صرف رب کریم کرے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved