تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     08-08-2021

ڈنڈا ‘ایجنڈا اور جھنڈا

سفارت کاری سیاست کا لازمی جزو ہی نہیں بلکہ بہت بڑا محاذ ہے جو ایک مثبت اور مؤثر ہتھیار کے طور پر کام کرتا ہے۔جدید دور میں چونکہ ہر لمحہ کی کوریج ہو رہی ہوتی ہے اس لئے اب کھیل کو کوئی بھی ایونٹ ‘کہیں بھی کھیلا جا رہا ہو عوام سے اوجھل نہیں ہوتا ‘اسی لئے حکومتیں اس موقع کو بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں ۔آپ اولمپکس ہی کی مثال لے لیں ‘جو امریکہ اور چین کے لئے ایک جنگ کا میدان بنا ہوا ہے اور اس میں امریکہ چین کے ساتھ پہلی پوزیشن کے لئے مقابلہ کر رہا ہے ‘مگر کھیل کے ساتھ کھلواڑ سے امریکہ یہاں بھی باز نہیں آیا جس سے یہ بات بخوبی اجاگر ہوتی ہے کہ وہ چین کے معاملے میں کیسے خبط میں مبتلا ہے ۔چین نے جب پہلا طلائی تمغہ جیتا تو امریکہ کے سب سے بڑے نشریاتی ادارے سی این این نے اپنی ویب سائٹ پر خبر کچھ اس طرح نشر کی :The first day of the 2020 Olympics begins with gold for China and more Covid-19 cases۔اب اگر اس خبر کو اردو میں بھی ترجمہ کریں تو لگتا ہے کہ چین کے لئے طلائی تمغے اور کورونا کے مزید کیسز کے ساتھ اولمپکس کے پہلے دن کی شروعات۔مطلب یہ کہ کچھ ایسا لگے کہ چین نے پہلا طلائی تمغہ تو جیتا ہے مگر کورونا کے مزید کیس بھی سامنے آئے ہیں ۔اب اس بات کی وضاحت نہیں ہوتی کہ یہ کیس چین میں آئے بھی ہیں تو کتنے اور ان کیسز کا اولمپکس کے میڈل سے کیا تعلق بنتا ہے۔ جبکہ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ کووڈ وائرس کے حوالے سے چین کی صورتحال امریکہ سے کہیں بہتر ہے ۔اس طرح ایک اور امریکی نشریاتی ادارے نے چین کے دستے کے مارچ پاسٹ کے موقع پر میدان میں داخلے کے وقت چین کا جھنڈا دکھایا تو جان بوجھ کر اس میں تائیوان اور کچھ دیگر علاقے نہ دکھا کر چین کی عالمی پالیسی کی نفی کرتے ہوئے چین کو مضطرب کرنے کی کوشش کی گئی ۔یہاں یہ بات اہم ہے کہ امریکی نشریاتی ادارے نے یہ نقشہ نشریات میں اپنے طور پر شامل کیا تھا جبکہ اصل نشریات میں اولمپکس میں شریک ممالک کے نقشے شامل ہی نہیں تھے ۔چین کے ایک سوشل میڈیا چینل نے اس پر ایک ویڈیو نشر کرکے اس کی دھیمی سی مذمت بھی کی ہے ۔
اب بات کشمیر پریمیئر لیگ کی جس میں شرکت کرنے والے کھلاڑیوں کو بھارت نے روکنے کی کوشش کرکے اپنے اس خبط کا مظاہرہ کر دیا جس میں وہ پاکستان مخالفت کی وجہ سے ہمیشہ سے مبتلا ہے۔بھارت اپنی بدحواسی پر اگر قابو رکھتا تو بہتر تھا کیونکہ جن کھلاڑیوں کو روکنے کی کوشش کی گئی ان میں سے دو تو بول پڑے اور معاملہ یعنی KPLکو مزید شہرت مل گئی کیونکہ منفی خبر ہمیشہ زیادہ چلتی بلکہ اچھلتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جن کھلاڑیوں کو روکنے کی کوشش کی گئی ان میں سے ایک برطانیہ کے مشہورسابق ٹیسٹ کرکٹر سکھ کھلاڑی مانٹی پنیسر ہیں۔اس بات کو خالصتان کی تحریک چلانے والے سکھوں نے‘جن کی زیادہ تعداد مغر بی ممالک میں ہے ‘نے خوب اچھالا اور اپنے سردار کھلاڑی کو خوب سراہا۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ لیگ کھیلی بھی آزاد کشمیر میں جارہی ہے اور اس میں شامل ٹیموں کے نام بھی کشمیر کے مختلف علاقوں کی مناسبت سے رکھے گئے ہیں‘جس سے اس لیگ میں کشمیر کی مکمل جھلک ہی نہیں مکمل تصویر ملتی ہے۔
اب اس لیگ سے ہونے والی پاکستان کی سفارتی جیت کا اندازہ لگاتے ہیں ۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت اپنے پورے وسائل اور آرمی کی مدد سے بھی بمشکل اپنے یوم آزادی کا سطحی سا انعقاد کر پاتا ہے ‘جبکہ کئی بار اس موقع پر بھی بد امنی یا بد انتظامی صرف اس لئے ہو جاتی ہے کہ اس میں شامل ہونے کے لیے زبردستی لائے گئے لوگ خوف میں مبتلا ہوتے ہیں۔اسی لئے تقریب کو انتہائی مختصر رکھا جاتا ہے۔اس لئے ایک پاکستانی وزیر نے بجا طور پر کہا کہ انڈیا مقبوضہ کشمیر میں کھیل کر دکھائے۔یہاں ذکر کرتا چلوں کہ 2019ء میں بھارتی پائلٹ ابھی نندن کا طیارہ گرنے اور پاکستان کے ہاتھوں گرفتاری کے بعد اپنی فوج کا مورال بحال کرنے کے لئے دھونی نے وکٹ کیپنگ کرتے ہوئے ایسے دستانے پہنے جن پر بھارتی آرمی کی وردی کا رنگ اور نشان موجود تھا لیکن کھیلوں کی روح اور ضوابط کو مد نظر رکھتے ہو ئے آ ٓئی سی سی نے آئندہ کے لئے ایسا کرنے سے روک دیا تھا۔ چونکہ کرکٹ کا کھیل جنوبی ایشیا میں ایک جنون کی شکل اختیا کر چکا ہے اس لئے بھارت اپنے عوام کا دھیان اندرونی و بیرونی مسائل سے ہٹانے کے لئے اس کا بھرپور استعمال کرتا ہے ۔بھارت میں ہونے والی کرکٹ لیگ دنیا کی سب سے لمبے عرصے تک کھیلی جانے والی لیگ ہوتی ہے اس طرح جب بھارت میں انڈین پریمیئر لیگ کھیلی جاتی ہے تو عالمی کرکٹ تقریباً بندش کی کیفیت میں ہوتی ہے ۔اس سلسلے کی سب سے اہم بات بھارتی ٹیم کو فکس میچ ہی نہیں ورلڈکپ کا جتوانا ہے ‘جی ہاں ماہرین شروع سے ہی 2011ء میں بھارت میں ہونے والے کرکٹ کے عالمی کپ کو جو بھارت ہی نے جیتا تھا مشکوک قرار دیتے رہے ہیں ‘جبکہ اس کا فائنل سری لنکا اور انڈیا کے مابین کھیلا گیا تھا ۔لیکن ایک سری لنکا کے کھیلوں کے وزیر نے اپنے کھلے بیان میں نہ صرف اس کو فکس قرار دیا بلکہ مشکوک کھلاڑیوں کے نام بھی بتائے ۔
اب چلتے ہیں ایک اور طرف‘ پہلے آپ یہ الفاظ پڑھیں اور تصور کریں کہ جب کوئی صحافی یہ الفاظ بول رہا ہو تو کیسا لگے گا ؟ہر کوئی یہی کہے گا کہ بہت عجیب لگتا ہے ‘لگتا ہے پاکستان اور انڈیا کی جنگ ہے‘مگر یہ سچ ہے۔ اصل میں خبر ہی کچھ ایسی ہے جو کچھ اس طرح ہے کہ بھارت کے چین اور بنگلہ دیش کے قریب سات ریاستیں ہیں جن کو'' سات ناراض بہنیں‘‘اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہاں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کی یہ سات بہنیں آپس میں بھی لڑ رہی ہیں ۔اس میں بھارتی ریاست آسام کا دیگر پانچ ملحقہ ریاستوں سے تنازع چل رہا ہے ‘لیکن 26جولائی کو اس وقت ہر حد پار ہو گئی جب آسام اور میزورام کی دو ریاستوں کی پولیس فوج کی طرح ایک دوسرے کی سرحدوں پر آمنے سامنے آگئی جن کے ہاتھوں میں ہر قسم کا اسلحہ موجود تھا۔ دونوں طرف سے فائرنگ ہوئی لیکن میزورام کی پولیس بھاری پڑی اور آسام پولیس کے پانچ لوگوں اور ایک عام آدمی کی جان لے لی ۔جس کے بعد تنائو اتنا بڑھا کہ آسام کے وزیر اعلیٰ نے اپنی ریاست کے لوگوں کو ایک ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے میزورام جانے سے منع کردیا ۔ یہاں ایک بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ اس لڑائی نما حادثے سے کچھ دن پہلے بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ دونوں ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سے ملاقات کر کے معاملات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر نے گئے تھے۔ واضح رہے کہ ان دو ریاستوں میں گاہے بگاہے جھڑپوں کا سلسلہ 1996ء سے جاری ہے۔آپ اس جنگی کیفیت کو دیکھنا چاہیں تو ٹوئٹر پر دونوں وزرائے اعلیٰ کی سوشل میڈیا جھڑپوں کو بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔
اب ایک ہی بات کا خیال آتا ہے کہ بھارت جو وسائل ‘وقت اور قوت افغانستان میں پاکستان مخالفت میں جھونک رہا ہے اگر وہ ملک کے اندرصرف کرے تو جو ڈنڈے اٹھائے عام آدمی اپنی پولیس کے ساتھ اپنی ہی پڑوسی ریاست کے خلاف لڑ رہے ہیں ‘شاید ان میں کمی آسکے۔ اسی طرح KPLمیں شرکت سے عالمی کھلاڑیوں کو روکنے کی بجائے اپنے کھلاڑیوں پر زور لگائے اور غور کرے کے آبادی کے اعتبار سے دنیا کا دوسرابڑا ملک ہونے کے باوجود کھیل کی دنیا میں بہتر کارکردگی سے کیوں محروم ہے ۔ مغربی عالمی ایجنڈابھی یہی ہے کہ یہ خطہ ڈنڈوں (لڑائی) کا جھنڈاہی اٹھائے رکھے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved