آج کا کالم ایک خوشخبری سے شروع کرتے ہوئے‘ میں تکلیف دہ خوشی سے سرشار ہوں کہ بجلی کی کمی صرف 3ہزار میگاواٹ رہ گئی ہے اور لوڈشیڈنگ‘ پہلے سے تین چار گھنٹے زیادہ ہو گئی ہے۔ اگر بجلی کا شارٹ فال اسی طرح کم ہوتا رہا‘ تو امید ہے کہ جب بجلی ضرورت کے مطابق پیدا ہونے لگے گی‘ تو لوڈشیڈنگ میں ایک دو گھنٹے مزید اضافہ ہو جائے گا۔ پاکستان میں اسی طرح ہوتا ہے۔ کرپشن جتنی کم ہوتی ہے‘ عام آدمی رشوت ‘ مہنگائی اور بلیک مارکیٹنگ کی مد میں اتنا ہی زیادہ خرچ کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اصلی ڈاکوئوںکے ساتھ پولیس باقاعدہ سودے بازی کر کے‘ ان سے جان کی امان پاتی ہے اور کسی ریڑھی والے یا خوانچے والے کو پکڑ کے‘ اس کا نام بڑی بڑی سرخیوں میں چھپواتی ہے کہ فلاں ڈاکو نے امن و امان کو برباد کر دیا ہے۔ اس نے ہر طرف لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ پھر اس کا نام ایک دو پولیس مقابلوں میں آتا ہے‘ جن میں پولیس کے اہلکاروں کو دوچار خراشیں لگتی ہیں اور پھر وہ پولیس کی خفیہ حراست میں پڑا پڑا‘ اتنا بڑا ڈاکو بن جاتا ہے کہ اس کی ہلاکت یا گرفتاری پر دس پندرہ لاکھ روپے انعام رکھ دیا جاتا ہے۔ انعام کا اعلان ہونے کے چند ہی روز بعد اچانک وہ ڈاکو پولیس مقابلے میں مارا جاتا ہے اور اسے مارنے والا پولیس افسر دس پندرہ لاکھ کے اس انعام کا جائز طور پر حق دار ہو جاتا ہے۔ اس طرح کے پولیس افسر حرام نہیں کھاتے۔ رزق حلال پر یقین رکھتے ہیں۔ ابھی جو شہرہ آفاق پولیس مقابلہ ہوا‘ اس میں اسی طرح کا ایک ڈاکو مارا گیا۔ جس کے سر پر 15لاکھ روپے کا انعام تھا۔ مارا جانے والا ڈاکو یقینا پولیس کی خفیہ حراست میں پڑا ہو گااور جب اس کی موت آ گئی‘ تو پولیس والوں نے اسے جنگل میں جا کر مار دیا اور اس کے سر پہ انعام کی رقم وصول کرنے کے لئے فائل چلا دی۔ یہ بڑی دلچسپ کہانی ہے۔ عام طور پہ پولیس والے ڈاکوئوں کو پکڑتے ہیں۔ لیکن اس کہانی میں ڈاکوئوں نے پولیس والوں کو گرفتار کیا اور انہیں ساتھ لے کر جنگلوں میں نکل گئے۔ یہ اپنی طرز کی ایک انوکھی میڈیا ایکٹویٹی تھی۔ پولیس والوں نے ڈاکوئوں کو گھیرے میں لیا۔ دونوں کے درمیان مقابلہ ہوا۔ پولیس نے اندھا دھند گولیاں چلائیں۔گھیرے میں آئے ہوئے ڈاکوئوں کی طرف سے کوئی فائر نہیں آیا۔ یہ اپنی طرز کا انوکھا پولیس مقابلہ تھا۔ دونوں فریقوں میں سے کسی کا جانی نقصان نہیں ہوا۔پولیس نے فائرنگ میں اتنی احتیاط برتی کہ گولی کسی ڈاکو کے کان کو چھو کر بھی نہیں نکلی۔ دوسری طرف سے ڈاکوئوں نے بھی بلند اخلاقی کا ثبوت دیتے ہوئے ایسا کوئی فائر نہیں کیا‘ جس سے کوئی پولیس اہلکار متاثر ہوا ہو۔ مجھے نہ تو پولیس والوں پر کوئی شک ہے کہ انہیں نشانے بازی سیکھے بغیر ہی وردی پہنا دی گئی اور نہ ہی ڈاکوئوں پر شک ہے کہ وہ ڈاکہ زنی کے فن میں کسی تربیت کے بغیر میدان عمل میں اتر آئے۔ دونوں اپنا اپنا کام اچھی طرح جانتے تھے۔ کوئی اناڑی‘ اتنے دنوں تک‘ اتنی زیادہ فائرنگ کر کے‘ دشمن کو محفوظ نہیں رکھ سکتا۔ جو فائر نشانے پر لگ جائے‘ وہ اناڑی کی بدحواسی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ البتہ جب آمنے سامنے آ کر پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کرنا پڑے اور کئی دنوں کے پولیس مقابلے کے بعد بھی کسی کو خراش تک نہ آئے‘ تو اسے پیشہ ورانہ ہنر کا شاندار مظاہرہ تصور کرنا چاہیے۔ کہانی اس وقت اور بھی دلچسپ ہو جاتی ہے‘ جب یہ انکشاف ہو کہ پولیس اور ڈاکوئوں کے مقابلے میں ‘ ڈاکو پولیس کی حراست میں نہیں آئے۔ جیسا کہ اصولاً ہونا چاہیے کہ پولیس نے ڈاکوئوں کے کچھ ساتھیوں کو حراست میں لے لیا ہو اور ڈاکو اپنے ساتھیوں کو بچانے کے لئے پولیس کے ساتھ مقابلے پر اتر آئے ہوں۔ نئی کہانی میں ڈاکوئوں نے پولیس والوں کو حراست میں لے لیا تھا اور ایسا کرنے کے لئے انہوں نے یونہی راہ چلتے پولیس والوں کو اچانک دبوچ کر نہیں اٹھایا۔ ڈاکوئوں نے دو پولیس چوکیوں پر باضابطہ حملہ کیا اور ہمارے شیرجوان‘ جو کسی رکشہ والے‘ تانگے والے‘ خوانچے والے یا کسی غریب گھر کے لڑکے کو پکڑ کر غیرقانونی حوالات میں ڈالتے اور ان پر اپنی شجاعت اور بہادری کا سکہ بٹھاتے ہیں۔ ڈاکوئوں کے نرغے میں آ کر یوں ہو گئے‘ جیسے بارش میں بھیگی ہوئی مرغیاں۔ حکومت نے انہیں داد شجاعت دینے کے لئے جو جدیدترین گنزدے رکھی تھیں‘ وہ ڈاکوئوں کے سامنے ٹھس ہو گئیں۔ جیسے ہماری انتظامیہ کے بااختیار افسران ‘ کرپٹ لوگوں کے سامنے بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ پولیس والوں کے اپنے مورچے میں آ کر ‘ ڈاکوئوں نے انہیں کس طرح زیر کیا؟ کس طرح انہیں گن چلانے کا موقع نہ دیا؟ کس طرح انہیں مغلوب کیا؟ اور پھر کس طرح 10تربیت یافتہ اور مسلح پولیس والوں کو ان کے مورچوں سے اٹھا کر جنگلوں میں لے گئے؟ یہ ایک حیرت انگیز کہانی ہے۔ کیا پولیس والے پہلے سے اپنا سامان باندھ کر بیٹھے ہوئے تھے؟ کیا ڈاکوئوں نے ان کے لئے سواریوں کا انتظام اسی طرح کر رکھا تھا؟ جیسے پولیس سے مدد مانگنے والے کر کے آتے ہیں؟ پولیس والوں کو یرغمالی بنانے کا قصہ بھی سمجھ سے باہر ہے۔ اگر پولیس اور ڈاکوئوں کے درمیان کوئی مقابلہ ہوتا‘ تو دونوں طرف سے دوچار بندے مارے جاتے۔ ڈاکو ‘ پولیس والوں کے سامنے بھاگتے۔ پولیس والے ان کا تعاقب کرتے۔ حملہ آوروں میں سے ایک دو بندے پولیس پھڑکاتی اور بھاگتے ہوئے ڈاکو‘ ایک دو پولیس والوں کو پھڑکاتے اور مقابلے کی کہانی میں جان پڑ جاتی۔ لیکن یہ تو بالکل ہی ناقابل فہم کہانی ہے کہ ڈاکوئوں نے 2پولیس چوکیوں پر حملہ کیا۔ کوئی فائر نہ ہوا۔ کسی طرف سے مزاحمت نہ ہوئی۔ دونوں فریق صلح صفائی کے ساتھ ‘ اپنا اپنا کام کر گئے۔ ڈاکوئوں نے انہیں اغوا کیا۔ وہ خوشی خوشی اغوا ہو کر‘ ڈاکوئوں کی گاڑیوں میں بیٹھ گئے۔ ہو سکتا ہے پولیس نے ڈاکوئوں کو اپنی گاڑیاں فراہم کر دی ہوں اور ان کا کرایہ الگ سے وصول کر لیا ہو۔ یہ بھی پتہ نہیں چلا کہ کس نے‘ کس کے ساتھ لین دین کیا؟ میڈیا والوں کو کیا پتہ کہ اغوا ہونے والے اور اغوا کرنے والے‘ جو اتنے دنوں جنگلوں میں روپوش رہے‘ ان کے درمیان کیا ڈیل ہوئی؟ کس نے‘ کس کو ‘ کیا دیا؟ اور پولیس کی جو اتنی بڑی نفری‘ اپنے اغوا شدہ ساتھیوں کو رہا کرانے آئی تھی‘ اس نے کیمروں کے سامنے جو اندھا دھند فائرنگ کی‘ اس کا نشانہ کون تھا؟ تجزیہ کیا جائے‘ تو بڑی دردناک حقیقت سامنے آتی ہے اور وہ یہ کہ ہماری پولیس بھی اناڑی ہے اور ڈاکو بھی اناڑی ہیں۔ نہ پولیس والوں کی گولی‘ کسی ڈاکو کو لگ سکی اور نہ ڈاکوئوں کی کوئی گولی‘ پولیس والے کو لگی۔حیرت کی بات ہے کہ جب یہ عظیم معرکہ اختتام کو پہنچا‘ تو اغوا شدہ پولیس والے‘ پولیس والوں سے آ ملے اور ڈاکو‘ ڈاکوئوں سے جا ملے۔ سوال یہ ہے کہ دونوں فریقوں نے یہ گناہ بے لذت کیا کیوں؟ دونوں فریقوں کا پیشہ کم و بیش ملتا جلتا ہے۔ ایک فریق قانون کی طاقت سے ‘ کمزوروں اور نہتوں کو لوٹتا ہے۔ دوسرا فریق بندوق کی طاقت سے یہی کام کرتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے حصے دارہوتے ہیں۔ پولیس جو کچھ کماتی ہے‘ اس میں سے ڈاکو اپنا حصہ وصول کرتے ہیں اور ڈاکو جو کچھ کماتے ہیں‘ وہ پولیس کا حصہ ایمانداری سے اس کے سپرد کر دیتے ہیں۔ پھر انہیں اغوا کرنے اور اغوا ہونے کی ضرورت کیوں پڑی؟ بہت غور کرنے کے بعد اندازہ ہوا‘ کہ حساب کتاب کا کوئی جھگڑا پڑ گیا ہو گا۔ دونوں نے سوچا ہو گا کہ جھگڑا فساد کرنے کی بجائے‘ گول میز کانفرنس کر لی جائے۔ مذاکرات کے لئے اگر ڈاکو پولیس چوکیوں میں آتے‘ تو عام شہری انہیں دیکھ سکتے تھے۔ البتہ پولیس والوں کا جنگل میں ڈاکوئوں کے مقبوضہ علاقے میں جانا‘ زیادہ محفوظ تھا۔ یہ تو کسی کو پتہ نہیں کہ ڈاکو‘ پولیس والوں کو اٹھانے ان کی چوکیوں پر گئے تھے یا پولیس والوں نے خود ہی جنگل میں جا کر یہ خبر جاری کر ادی کہ ڈاکو انہیں اغوا کر کے لے گئے۔ قیاس آرائی کا سلسلہ اگر جاری رکھا جائے تو درحقیقت یہ دو فریقوں میںلین دین کا جھگڑا تھا‘ جسے طے کرنے کے لئے باہمی مذاکرات ہوئے اور جب سب کچھ طے ہو گیا‘ تو دونوں‘ ایک دوسرے کو نقصان پہنچائے بغیر اپنی اپنی جگہ واپس آ گئے۔ ان مذاکرات میں کیا طے ہوا؟ یہ کہانی نہ سامنے آئی ہے اور نہ کبھی آئے گی۔البتہ علاقے کے شہریوں کو تجربے سے اندازہ ہو گاکہ فریقین نے لوٹ مار کے کھیل میں کس گائوں یا گلی کو آپس میں بانٹا ہے؟ کونسا علاقہ ڈاکوئوں کے سپرد ہوا اور کونسا پولیس کے؟ یہ سیاستدانوں کے مذاکرات تو تھے نہیں‘ جو بے نتیجہ ختم ہوتے۔ یہ اصلی لوگوں کے اصلی مذاکرات تھے۔ یہ بے نتیجہ نہیں ہوا کرتے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved