اعلیٰ تعلیم یافتہ ترک خاتون۔ یقینا ان کا تعلق اشرافیہ سے تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد بلقان جنگ کے دوران ریڈ کراس کی متوازی انجمن (ہلالِ احمر) نے ہندوستان کے ڈاکٹروں کا ایک وفد ڈاکٹر انصاری کی قیادت میں ترکی بھیجا جہاں اُس نے ترک زخمیوں کے علاج کر کے بڑا نام کمایا۔ اس وفد کی وہاں بڑی پُرجوش آئوبھگت کی گئی۔ ڈاکٹر انصاری جدید ترکی کے جن رہنمائوں سے ملے‘ اُن میں خالدہ ادیب خانم بھی شامل تھیں۔ ڈاکٹر صاحب نے دوسرا اچھا کام یہ کیا کہ خالدہ کو ہندوستان آنے کی دعوت دی۔ خالدہ یہ دعوت قبول کرتے ہوئے جنوری 1925 ء میں بحری جہاز سے ہندوستان آئیں جو بمبئی لنگر انداز ہوا اور تین ماہ کے یادگار قیام کے بعد مارچ میں واپس چلی گئیں۔ خالدہ نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل سفرنامہ بھی لکھا (یہ بھی اُن سے ڈاکٹر انصاری نے لکھوایا) جس کا اُردو ترجمہ 1938 ء میں حیدر آباد دکن میں رہنے والے سید ہاشمی فرید آبادی نے کیا۔
خالدہ کو سفر نامہ مرتب کرنے میں دو سال لگ گئے۔ دیباچہ اُنہوں نے 10 جولائی 1937 ء کو پیرس میں لکھا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ ہندوستان سے واپسی پر ترکی کے بجائے پیرس میں رہنے لگیں۔ انگلستان وہ چار سال پہلے رہ چکی تھیں اس لئے اُنہیں انگریزی پر عبور حاصل تھا۔ فرانسیسی زبان جاننے کی وجہ سے اُنہیں پیرس میں اپنا گھر بنانے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی۔ ہم نہیں جانتے کہ اُن کی فرانس میں مصروفیات کیا تھیں؟ ذریعہ معاش کیا تھا؟ وہ مصطفی کمال کے ترکی دوبارہ کبھی گئیں یا نہیں؟ اُن کے مصطفی کمال کی حکومت اور اُس کی حکمت عملی سے کون سے اختلافات تھے کہ اُن کیلئے مادرِ وطن میں زندگی کے باقی دن گزارنا ممکن نہ رہا۔ اُنہوں نے اپنے سفر نامہ کے اُردو ترجمہ کے صفحہ نمبر117 پر اپنے بارے میں (بڑی انکساری سے) پست قامت بڑھیا کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ ہاشمی صاحب نے اُردو ترجمہ میں ان کے بارے میں جو پہلی تین سطور لکھی وہ یہ ہیں ''خالدہ خانم ادیب ترکی کی مشہور و معروف خاتون ہیں۔ اوّل اوّل ترقیٔ نسواں کی تحریکوں میں پیش پیش رہیں۔ وہ مادرِ وطن کی انقلابی جدوجہد اور آزادی کی جنگ میں سرفروش سپاہی بن کر لڑیں‘‘۔
خالدہ کا ہندوستان کا دورہ مسلمانوں کیلئے بڑا فکر انگیز ثابت ہوا۔ بمبئی تو اُنہیں ہندوستان میں آمد اور روانگی کیلئے جانا پڑا مگر وہ سات دوسرے شہروں میں بھی گئیں‘ وہ تھے: آگرہ‘ لاہور‘ پشاور‘ لکھنؤ‘ بنارس‘ کلکتہ ا ور حیدرآباد‘ جہاں وہ مہاتما گاندھی‘جواہر لعل نہرو‘ عبدالغفار خان‘ شوکت علی‘ذاکر حسین‘سر عبدالقیوم‘ سر اکبر حیدری‘ سروجنی نائیڈو بیگم شاہ نواز سے ملیں۔ اقبال سے ملاقات نہ ہونے کا ذکر خالدہ کے سفر نامہ میں نہیں مگر خالد ندیم صاحب کی لکھی ہوئی علامہ اقبال کی آپ بیتی کے دو صفحات (307 اور309 ) پر اس کا ذکر ان الفاظ میں ملتا ہے ''مجھے مسرت ہوئی کہ وہ عظیم ترکی خاتون ہندوستان تشریف لے آئی ہیں تاکہ ہمیں اُس کشمکش کے بارے میں بتائیں جو ابھی تک جاری ہے اور غالباً عرصہ دراز تک جاری رہے گی۔ میرے لئے ان کے خطبہ کی صدارت بے پایاں مسرت کا موجب ہوتی لیکن میں پچھلے سارے سال بیمار رہا۔ اُن کے لیکچر سننے کا میں خود مشتاق تھا مگر افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔ بہرحال میں اُن سے ان شاء اللہ ضرور ملوں گا یا بھوپال جاتے ہوئے یا وہاں سے واپس آتے ہوئے۔ آج صبح ایک اخباری نمائندہ اُن کے پہلے لیکچر پر تبصرہ چاہتا تھا مگر میں نہ لکھ سکا۔ مشرق کی رومانیت اور مغرب کی مادیت کے بارے میں جو خیالات اُنہوں نے ظاہر کئے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی نظر محدود ہے۔ اُنہوں نے انہی خیالات کا اعادہ کیا جن کو یورپ کے سطحی نظر رکھنے والے مفکرین دہرایا کرتے ہیں۔ کاش کہ اُن کو معلوم ہوتا کہ مشرق و مغرب کے تصادم میں کلچر نے کیا کام کیا ہے مگر یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کیونکہ مسلمانوں کی فتوحات نے اسلام کے کلچرل تاثرات کو دبائے رکھا۔ نیز خود مسلمان دو‘ ڈھائی سو سال تک یونانی فلسفہ کے شکار رہے۔‘‘
خالدہ کے بعد ترکی سے ہلالِ احمر کا وفد بھی ہندوستان آیا۔ وہ لاہور گیا تو اقبال کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جس ملاقات کے بعد اقبال نے ''غلاموں کی نماز‘‘ کے عنوان سے جو نظم لکھی یہ ضربِ کلیم کا حصہ ہے۔ چھ اشعار کی نظم اس کمال کی ہے کہ آپ کو پڑھوانی چاہئے چونکہ وہ 90 سال بعد بھی حسب حال ہے۔ ؎
کہا مجاہد ترکی نے مجھ سے بعدِ نماز
طویل سجدہ ہیں کیوں اس قدر تمہارے امام
وہ سادہ مردِ مجاہد‘ وہ مومن آزاد
خبر نہ تھی اُسے کیا چیز ہے نمازِ غلام
خدا نصیب کرے ہند کے اماموں کو
وہ سجدہ جس میں ہے ملت کی زندگی کا پیام
خالدہ کے بارے میں اقبال اپنی رائے نہ بھی ظاہر کرتے تب بھی یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ خالدہ کی نیک نیتی‘ دیانتداری اور جدت ِافکار اپنی جگہ مگر وہ اتنی اعلیٰ تعلیم یافتہ‘مدبر اور مفکر نہ تھیں کہ ہندوستانی مسلمانوں کی فکری رہنمائی کر سکتیں۔ وہ مہاتما گاندھی سے مل کر اور اُن کے کارنامے دیکھ کر اس قدر متاثر ہوئیں کہ وہ ہندوئوں کی اُبھرتی ہوئی قوم پرستی‘ فرقہ وارانہ تعصب اور تنگ نظری نہ دیکھ سکیں۔ خالدہ نے چھ لیکچر جامعہ ملیہ (دہلی) میں دیے۔ پوری کوشش کے باوجود یہ پتا نہیں چل سکا کہ اُنہوں نے وہاں اور علی گڑھ میں ہزاروں طلبہ و اساتذہ کو خطاب کرتے ہوئے کیا کہا؟ کالم نگار چار برس پہلے جامعہ ملیہ برطانوی آئین پر لیکچر دینے گیا تھا بدقسمتی سے مجھے اُس وقت تک وہاں خالدہ کے تاریخی دورہ کا علم نہ تھا ورنہ ضرور تحقیق کرتا۔ اگر خالدہ نے برطانوی بلکہ مغربی سامراج کے خلاف ایک لفظ بھی نہ کہا تو وہ قابلِ معافی ہیں چونکہ وہ انگریزوں کے غلام ہندوستان میں اُن مسلمان رہنمائوں کی مہمان تھیں جو انقلاب تو دور کی بات ہے آزادی کا لفظ بھی منہ سے بڑی دبی زبان میں نکالتے تھے۔ جامعہ ملیہ والوں (خصوصاً ڈاکٹر ذاکر حسین) کا بھلا ہو کہ وہ خالدہ کو علی گڑھ بھی لے گئے۔ یہ اعلیٰ ظرفی اُن اساتذہ کو زیب دیتی تھی جو دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل تھے مگر 75 روپے ماہوار تنخواہ لے کر پڑھاتے تھے۔ خود خالدہ کے الفاظ ''جب میں تقریر کرنے کھڑی ہوئی تو مجھ پر ان پر اتنے پھول برسے کہ میں منہ کھول سکی نہ آنکھیں۔ پھولوں کی اس موسلا دھار بارش کے بعد میں نے اُوپر نظر کی‘ روشن دانوں سے دو آدمی پنکھڑیاں انڈیل رہے تھے۔‘‘
خالدہ کے تین ماہ کے آٹھ شہروں کے سفر نامہ کا ذکر ایک کالم میں سمیٹنا مشکل ہے۔ میں صرف اُن پانچ چیزوں کا ذکر کرنے پر اکتفا کروں گا جنہوں نے خالدہ کو خصوصاً متاثر کیا (1): لکھنؤ اور بنارس کے شہروں کا حسن۔ (2): ہندوستان کی موسیقی اور رقص‘جو اُنہوں نے بار بار دیکھا اور سنا۔ (3):ہندوستان میں محنت کشوں‘ جنہیں وہ ذوق و شوق سے ملنے گئیں‘ کا وقار‘ خود داری اور عزتِ نفس۔ (4): بھائی چارہ اور اُخوت او ریگانگت۔ (5): پندرہویں صدی کے صوفی شاعر تلسی داس کا لکھا ہوا بھجن جو ایک پنڈت نے ستار پر گا کر مہاتما گاندھی کو سنایا۔ بھجن سنسکرت میں ہے اُردو میں ترجمہ ہے: اے خدا میں ہر وقت تیری پناہ ڈھونڈتا ہوں تو کمزوروں کو پناہ دینے والا ہے۔ میں نے تیری نسبت سنا ہے کہ تیرا وعدہ ہے کہ تو گناہگاروں کو بخش دے گا۔ میں پُرانا گناہگار ہوں‘ میری نائو پار لگا‘‘۔