تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     10-08-2021

ایسا نہیں ہوسکتا!

راستے دو ہی ہیں‘ یا تو مسلسل یہ گردان جاری رکھی جائے کہ مختلف معاملات میں دنیا ہماری کاوشوں اور قربانیوں کو تسلیم نہیں کررہی جو سراسر زیادتی ہے، یا دوسرا راستہ یہ ہے کہ پوری ایمانداری کے ساتھ اِس بات کا جائزہ لیا جائے کہ آخر دوسرے ہماری باتوں کو کیوں مطلوبہ اہمیت نہیں دے رہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دی جانے والی ہماری قربانیوں کو کیوں تسلیم نہیں کیا جارہا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ افغانستان پر سلامتی کونسل کا اجلاس ہوتا ہے اور اُس میں پاکستان کو مدعو نہیں کیا جاتا۔ کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ افغانستان کے معاملے پر اجلاس منعقد ہو اور اُس میں پاکستان کی نمائندگی نہ ہو۔ اِس صورت حال پر اقوام متحدہ میں ہمارے مستقل مندوب منیر اکرم کافی مایوس دکھائی دیے۔ اُن کی طرف سے اِس بات کا شکوہ بھی سامنے آیا کہ ہماری درخواست کے باوجود افغانستان کے معاملے پر ہونے والے اجلاس میں ہمیں مدعو نہیں کیا گیا۔ یعنی اُس ملک کو اجلاس میں شرکت کی دعوت ہی نہیں دی گئی جو کئی دہائیوں تک کئی ملین افغان مہاجرین کا بوجھ برداشت کرتا رہا۔ افغانوں کو اُن کے ملک میں جاری قتل و غارت گری سے بچانے کے لیے اُس نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔ روس(تب سوویت یونین) کی افغانستان پر جارحیت کے دوران افغانوں کو صرف پناہ ہی نہیں دی گئی بلکہ اُنہیں یہاں کاروبار کرنے کی اجازت بھی دی گئی۔ اِس بات کو بھی نظر انداز کیا گیا کہ افغانوں کی آزادانہ نقل و حرکت سے اہلِ وطن کے لیے مشکلات پیدا ہورہی ہیں۔ اب تو یہ عالم ہوچکا ہے کہ بے شمار افغانوں نے پاکستانی شناختی کارڈ حاصل کرکے یہاں مستقل طور پر ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ افغانوں کی اِسی مدد کے باعث دہشت گردوں نے ہمارے ملک کو کئی دہائیوں تک اپنا نشانہ بنائے رکھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم نے ستر ہزار سے زائد جانوں کی قربانی دی ہے‘ پاکستانی حکومت کی طرف سے جاری کی گئی فیکٹ شیٹ کے مطابق‘ اس جنگ میں ہماری معیشت کو مجموعی طور پرسینکڑوں ارب ڈالر کا نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔ اِس سب کے باوجود ہمیں کابل سے کبھی ٹھنڈی ہوا نہیں آئی۔
یہ بات بھی سوچ بچار کی دعوت دے رہی ہے کہ امریکا اور اُس کے اتحادی افغانستان سے اپنی فوجیں نکالتے ہیں لیکن وہ بھی بظاہر ہم سے کوئی مدد نہیں لیتے۔ طویل عرصے تک ہمارا یہ بیانیہ رہا کہ پاکستان کی مدد کے بغیر اتحادیوں کا افغانستان سے انخلا ممکن نہیں ہے لیکن عملاً سب کچھ اِس کے برعکس ہوا۔ اِس سے پہلے پاکستان نے افغانستان میں امن عمل کے حوالے سے انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا۔ ہماری طرف سے افغان حکومت اور دیگر سٹیک ہولڈرزکو ایک ساتھ بٹھانے کے لیے بہت مؤثر کردار ادا کیا گیا تھا جس کی عالمی سطح پر تحسین بھی کی گئی تھی۔ کون یہ بھول سکتا ہے کہ 2018ء کے دوران امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کے دروازے پاکستان کی مدد سے ہی کھلے تھے۔ اِسی مدد کے نتیجے میں دوحہ کا تاریخی امن معاہدہ طے پایا تھا۔ آج یہ عالم ہوچکا ہے کہ اتنے اہم کردار کے باوجود ہم ہنوز امریکا کے صدر کی کرٹسی کال کے انتظارمیں ہیں۔ ہماری طرف سے گاہے گاہے اِس پر شکوے اور شکایات سامنے آتی رہتی ہیں لیکن امریکیوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ یہ بات قدرے عجیب محسوس ہوتی ہے کہ ایک طرف تو صدر بائیڈن کے فون نہ کرنے پر مایوسی ہے تو دوسری طرف یہ سب فخر سے بیان کیا جارہا ہے کہ ہم نے '' ڈومور‘‘ کے امریکی مطالبے پر امریکا کو واضح طور پر ''ہرگز نہیں!‘‘ کہہ دیا ہے۔ وفاقی وزیر علی محمد خان کچھ روز پہلے یہ بات بڑے فخر سے بیان کر رہے تھے کہ ہمارے انکار پر امریکا ناراض ہوگیا اور اِسی بنا پر پاکستان گرے لسٹ سے باہر نہیں آرہا۔ اُن کی طرف سے اِس عزم کا اظہار بھی سامنے آیا تھا کہ قومی حمیت کے پیش نظر ہم اپنے مؤقف پر پوری مضبوطی سے قائم رہیں گے۔ اب جب ایک واضح موقف اپنا لیا گیا ہے تو پھر بائیڈن کے فون نہ کرنے پر مایوسی کا اظہار سمجھ سے بالا تر ہے۔ یہ سوال تو ذہن میں بہرحال اُبھرتا ہے کہ ہم شاید بدستور کنفیوژن کا شکار ہیں۔
اِس تمام صورتِ حال پر ہم اہلِ وطن تو یہ تسلیم کرتے ہیں کہ امریکا اور دوسری بڑی طاقتیں ہمارے ساتھ زیادتی کررہی ہیں۔ ہم برملا کہتے ہیں کہ ہم اپنے ہمسایوں سے بہترین تعلقات استوار کرنے پر یقین رکھتے ہیں لیکن جس دنیا میں ہم رہتے ہیں، اُس میں دوسرے ممالک کا بھی ہمارے موقف کو تسلیم کرنا بہت ضروری ہے۔ افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ کشمیر کے معاملے پر بھی یہی صورتِ حال دکھائی دیتی ہے۔ بااثر مسلم ممالک کا رویہ بھی ہمارے لیے مایوس کن رہا ہے۔ یہ اٹل حقیقت ہے کہ کشمیر لہو بن کر پاکستانیوں کی رگوں میں دوڑتا ہے۔ گزشتہ دنوں‘ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے دو سال مکمل ہونے پر ایک مرتبہ پھر کشمیر اور کشمیریوں کے لیے اپنی اٹوٹ حمایت کا لازوال مظاہرہ کیا گیا، پورے ملک میں کشمیریوں سے اظہارِیکجہتی کے لیے جلوس نکالے گئے، اِس عزم کااظہار کیا گیا کہ ہم کشمیریوں کے لیے بہر صورت اپنی حمایت جاری رکھیں گے، اِس سب کے باوجود یہ حقیقت بہرحال اپنی جگہ موجود ہے کہ عالمی حمایت کے بغیر اِس مسئلے کا حل ناممکن سا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل کی صورت اختیار کیے ہوئے دوسال ہوچکے ہیں‘ لاکھوں بھارتی فوجیوں کی موجودگی نے کشمیریوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ ہرروز ظلم و ستم کی نئی داستانیں سامنے آرہی ہیں لیکن مجال ہے انسانیت کے علمبرداروں کے کانوں پر جوں بھی رینگ رہی ہو۔ اِس تناظر میں یہ کہنا بھی بے جا نہیں ہوگا کہ ہم دوسرے ممالک سے تو تب گلہ کریں جب ہمیں ہمارے برادراسلامی ممالک کی حمایت حاصل ہو۔ کتنی تلخ حقیقت ہے کہ اِس اہم ترین مسئلے پر بھی ہم خود کو تنہامحسوس کررہے ہیں۔ آخر کوئی تو وجہ ہے کہ اتنے اہم ترین مسئلے پر بھی ہمیں دنیا کی طرف سے مطلوبہ حمایت حاصل نہیں ہورہی۔ ہمارے لیے یہ تمام معاملات غوروفکر کے متقاضی ہیں۔ تسلیم کہ یقینا حکومت اور ذمہ داران اِس تمام صورت حال پر ہم سے کہیں زیادہ گہری نظر رکھے ہوں گے۔ وہ معاملات میں بہتری کے لیے کوششیں بھی کررہے ہوں گے لیکن بات تو تبھی بنے گی جب کچھ ہوتا ہوا دکھائی دے گا۔
اِس تمام صورت حا ل کے تناظر میں یہ اشد ضروری ہوچکا ہے کہ اگر کہیں ہم سے کوئی غلطیاں ہوئی ہیں تو اُن کا بغور جائزہ لیا جائے۔ نہ صرف جائزہ لیا جائے بلکہ اُن کی اصلاح کرنے کی کوشش بھی کی جائے۔ بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے بوجوہ دوسرے ہم پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں یا پھر ہم اپنی اہمیت تسلیم کرانے میں ناکام ہیں۔ ایسی صورت میں ہم امریکا اور مغرب کو کتنا ہی موردِ الزام کیوں نہ ٹھہراتے رہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کیا حکومت کے لیے یہ سوچنے کی بات نہیں ہے کہ آج بیشتر صورتوں میں اپنے ملک کے اندر ہی عوامی سطح پر اس کے کہے ہوئے کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ جب وطن کے اندر ہی حکومت کی یہ ساکھ بن چکی ہو تو بیرونی ممالک کیوں اُس پر اعتبار کریں گے؟جان رکھیے کہ بین الاقوامی سیاست میں کوئی کسی کا دوست نہیں ہوتا۔ یہ سب مفادات کا کھیل ہوتا ہے‘ جب ایک دوسرے سے وابستہ مفاد پورے ہوجاتے ہیں تو آنکھیں پھیرنے میں ایک منٹ کا توقف بھی نہیں کیا جاتا۔ اِس تناظر میں اگر صرف پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی تاریخ کا ہی جائزہ لے لیا جائے تو حقائق پوری طرح سے آشکار ہوجاتے ہیں۔ جب سے ہمارا ملک وجود میں آیا ہے‘ تب سے ہمارے اور امریکا کے تعلقات اُتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ اُس نے ہمیشہ ہمیں اپنی ضرورت کے وقت سر آنکھوں پر بٹھایا ،ضرورت پوری ہونے پرجب وہ ہماری طرف سے آنکھیں پھیر لیتا ہے تو ہمارے گلے شکوے شروع ہوجاتے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اِس پر ناک بھوں چڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں، بین الاقوامی تعلقات میں یہی سب کچھ چلتا ہے۔ یہی و ہ صورتِ حال ہوتی ہے جب قومیں اپنے طرزِ عمل کا نئے سر ے سے جائزہ لیتیں اور اپنی غلطیوں کو سدھارتی ہیں اور اپنے کھوئے ہوئے اعتماد کو بحال کرتی ہیں۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم اپنے حالات میں بہتری کی کوشش بھی نہ کریں اور دوسروں سے ہمیشہ اپنی مرضی کے مطابق چلنے کی توقع رکھیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved