ہم جس عہد کا حصہ ہیں وہ گزر کم رہا ہے اور ہمیں زیادہ گزار رہا ہے۔ ابھی ہم دیکھ ہی رہے ہوتے ہیں کہ منظر بدل جاتا ہے۔ دیکھنے کو بہت کچھ ہے، بلکہ ضرورت سے کہیں زیادہ۔ یہ بہتات ہی آج کے انسان کی فکری و نفسی ساخت کا تیا پانچا کرنے پر تُلی ہے۔ کوئی کتنی ہی کوشش کر دیکھے، عمومی سطح پر ایسی بہت سی باتوں کو اپنے معمولات کا حصہ بنانے پر مجبور ہے جن کا اُس سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ حواس کو متاثر کرنے والی ٹیکنالوجی ہوش رُبا نوعیت کی پیش رفت کی حامل ہے۔ یہ ٹیکنالوجی ہمیں بدحواس کرنے پر کمر بستہ ہے۔ اِس کا کام کسی بھی مقام پر رُک نہیں رہا۔ المیہ یہ ہے کہ ہم رُک جاتے ہیں، ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ اس جنگ میں ہتھیار ڈالنا تو دور کی بات، ایسا سوچنا بھی ممنوع ہے۔ اب ہمیں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا پامردی سے مقابلہ کرتے رہنا ہے۔ دل چاہے یا نہ چاہے‘ حواس پر ہونے والے حملے روکنے کے لیے ہر وقت تیار رہنا ہے۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب ہم ترجیحات کا نئے سِرے سے تعین کریں اور جو کچھ طے کریں اُس کے مطابق اپنے معمولات بھی بدلیں اور نئی مہارتوں کا حصول یقینی بناکر اپنی کارکردگی کا معیار بلند کرنے پر متوجہ بھی رہیں۔
آج کے انسان میں ایک بڑی ذہنی کجی یہ ہے کہ وہ کرتا کم ہے‘ دکھاتا زیادہ ہے۔ بہت سے معاملات ہم سے غیر معمولی کارکردگی کے متقاضی ہوتے ہیں مگر ہم کچھ کرنے سے زیادہ محض مصروف دکھائی دینے پر محنت کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ بیماری ویسے تو کم و بیش تمام ہی معاشروں میں پائی جاتی ہے مگر بعض معاشروں میں غیر ضروری طور پر انتہائی شکل میں ہے۔ مغرب کے ترقی یافتہ معاشروں میں لوگ ہر معاملے میں تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اُن کا ایسا کرنا کسی بھی درجے میں حیرت انگیز ہے نہ غیر ضروری۔ ترقی یافتہ معاشروں میں مطلوب تیزی کا مظاہرہ نہ کرنے والے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ وہاں یہ معمول کی بات ہے کیونکہ سبھی مصروفیت کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ امریکا ہو یا برطانیہ، جاپان ہو یا چین، سوئیڈن ہو یا فن لینڈ، آسٹریلیا ہو یا ملائیشیا‘ لوگ آپ کو قدرے تیزی سے زندگی بسر کرتے ہوئے ملیں گے۔ یہ اُن معاشروں کا عمومی چلن ہے۔ آجر چاہتا ہے کہ اجیر اپنے وجود کو پوری طرح بروئے کار لائیں۔ ہفتے میں پانچ دن اس قدر کام لیا جاتا ہے کہ ہفتے اور اتوار کو کام بند رکھنا لازم ہے۔ ہفتے کی چھٹی اس لیے ہوتی ہے کہ پورے ہفتے کی تھکن اتاری جائے، سیر و تفریح کی جائے۔ اور اتوار کی چھٹی اس لیے دی جاتی ہے کہ نجی مصروفیات سے نمٹ کر جلد سو جائیے تاکہ پیر کی صبح تک مطلوب نیند پوری ہو اور ہشاش بشاش حالت میں کام پر جانا ممکن ہو۔
ترقی یافتہ معاشروں میں تیزی اس لیے دکھائی دیتی ہے کہ سارے کام تیزی سے ہوتے ہیں۔ مجموعی ماحول تیزی کا متقاضی رہتا ہے۔ چونکہ سبھی تیز رفتاری کے ساتھ جی رہے ہیں‘ اس لیے کوئی عجیب دکھائی نہیں دیتا۔ ہمارے اور دیگر ایسے ہی پچھڑے ہوئے معاشروں میں تیزی اب بھی بہت عجیب دکھائی دیتی ہے۔ کارپوریٹ کلچر میں تیزی عمومی معاملہ ہے مگر پورے معاشرے کا مزاج مختلف سست ہے۔ ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ لوگ کام کے معاملے میں اُسی کیفیت کے حامل ہیں جس کی طرف کسی نے یوں اشارا کیا ہے ؎
اِس کاروبارِ شوق کا انجام کچھ نہیں
مصروفیت بہت ہے مگر کام کچھ نہیں
پاکستان کے بڑے شہروں میں آج بھی زندگی مجموعی طور پر ٹھہری ہوئی ہے۔ اِس نوع کی زندگی کو بالعموم بے جان اور کم بار آور تصور کیا جاتا ہے۔ کوئی چاہے تو اِسے پُرسکون طرزِ زندگی کا نام بھی دے سکتا ہے۔ کوئی کچھ بھی سمجھے اور کہے، حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں آج بھی زندگی کی رفتار باقی دنیا اور بالخصوص ترقی یافتہ معاشروں کی عمومی رفتار سے خاصی کم ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ ہم پیچھے رہ گئے ہیں مگر یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ محض تیزی اپنانے سے کیا ملتا ہے۔ بھارت میں ممبئی اور دہلی اہم ترین صنعتی و تجارتی مراکز ہیں۔ یہ دونوں شہر ملک بھر کے لوگوں کے لیے قسمت آزمائی کے مقامات ہیں۔ ملک کے کونے کونے سے لوگ اِن دونوں شہروں کا رُخ کرتے ہیں۔ ان دونوں شہروں میں زندگی خاصی الجھی ہوئی ہے۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر مفادات کی جنگ نے دونوں شہروں کو کچھ کا کچھ بنا ڈالا ہے۔ ایک خصوصیت دونوں شہروں میں نمایاں ہے اور وہ ہے تیزی۔ زندگی محض الجھی ہوئی نہیں ہے بلکہ پریشان کن حد تک تیز بھی ہے۔ دہلی میں عمومی مزاج پنجاب و راجستھان کے ثقافتی رنگوں کے ملغوبے پر مشتمل ہے۔ ممبئی میں گجراتی اور مراٹھی ثقافتوں کا امتزاج عمومی مزاج پر چھایا ہوا ہے۔ دونوں شہروں کے لوگ عجیب و غریب انداز کی تیزی دکھانے پر تلے رہتے ہیں۔ ممبئی میں جو مکمل بے روزگار ہے اور روزگار کے حصول کی کوشش نہیں کر رہا وہ بھی ہر معاملے میں تیزی کا مظاہرہ کرتا ہوا ملتا ہے۔ یہی حال دہلی کا ہے۔ وہاں تیزی کے ساتھ ساتھ بدحواسی بھی زیادہ پائی جاتی ہے۔ اخلاقی عیوب دہلی کے عمومی مزاج میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔ ممبئی اور دہلی‘ دونوں ہی شہروں میں رہائش انتہائی بنیادی مسئلہ ہے اور بیشتر علاقے انتہائی گنجان آباد ہیں اس لیے اخلاقی عیوب کے ساتھ ساتھ جرم پسندی بھی بڑھتی جارہی ہے۔ بہر کیف، دونوں شہروں کے باشندے عجیب اور غیر ضروری تیزی کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہوئے ملتے ہیں۔
ہمارے ہاں اب تک غیر ضروری تو کیا، ضروری تیزی بھی پیدا نہیں ہوئی! تمام بڑے شہروں میں زندگی کی رفتار اب تک مستحکم ہے۔ لوگ قدرے پُرسکون رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کے عادی ہیں۔ کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ پورے ملک کے لیے یہ شہر مرکزِ روزگار کا کردار ادا کر رہا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر مفادات کا تصادم یہاں بھی کم نہیں مگر اس کے باوجود شہر کا عمومی مزاج خاصے سُکون کا حامل ہے۔ لاہور، فیصل آباد اور راولپنڈی میں بھی نمایاں تیزی دکھائی نہیں دیتی۔ لوگ غیر ضروری تیزی دکھانے سے بالعموم گریز کرتے ہیں۔
بھارت اور چند دوسرے علاقائی معاشروں میں ہر وقت مصروف دکھائی دینے کی عادت اب ذہنی مرض کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ بنگلہ دیش کا عمومی مزاج بھی تیزی پر مبنی ہے۔ لوگ ہر وقت یہ ظاہر کرنے میں مصروف رہتے ہیں کہ وہ بہت مصروف ہیں اور فی الحال اُن کے پاس بہت سے ضروری کاموں کے لیے بھی وقت نہیں۔ کارپوریٹ کلچر میں تیزی کا پایا جانا نامعقول نہیں کیونکہ وہاں سبھی کچھ طے کردہ اہداف کا حصول یقینی بنانے کے لیے ہوتا ہے۔ کارپوریٹ کلچر سے ہٹ کر دکھائی دینے والی تیزی بہت حد تک بلا جواز ہے۔ سوال یہ ہے کہ تیزی دکھانے کا حاصل کیا ہے۔ اگر ہر معاملے میں تیزی دکھانے سے کچھ حاصل ہوتا ہو تو ٹھیک ورنہ تو اِسے کارِ لاحاصل ہی کہیے۔
ہمارے معاشرے کو ایسی تیزی درکار ہے جو تعمیری نوعیت کی ہو یعنی اُس سے کچھ حاصل ہوتا ہو۔ نئی نسل کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ جہاں ضروری ہو صرف وہیں تیزی اپنائی اور دکھائی جائے۔ دیگر معاملات میں طبیعت کے فطری اطمینان کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ تیزی اپنائی جائے مگر صرف بار آور انداز سے اور تعمیر کی خاطر۔ غیر ضروری اور لاحاصل قسم کی تیزی وقت، صلاحیت اور توانائی‘ تینوں کا ضیاع ہے۔ ہمیں دنیا کو وہ تیزی دکھانی ہے جو ہمارے معاملات کو درست کرنے میں معاون ثابت ہو، مطلوب نتائج کا حصول یقینی بنائے۔ بصورتِ دیگر یہ ایک ایسی مشق اور عادت ہے جس کا حاصل کچھ بھی نہیں۔