افغانستان میں تین صورتیں ہی ممکن ہیں۔ پہلی یہ کہ طالبان طاقت کے زور پر کابل میں اپنی حکومت قائم کرلیں۔ دوئم‘ طالبان مخالف قوتیں متحد ہوکر انہیں شکست دے دیں اور سوئم یہ کہ ہمارا یہ پڑوسی ملک اسی طرح آگ میں جلتا رہے جیسے جل رہا ہے۔ ان تینوں صورتوں میں افغانستان کا تو جو بنے گا سو بنے گا لیکن پاکستان کا جو نقصان ہوگا اس کا اندازہ لگانے کیلئے افلاطون ہونے کی ضرورت نہیں۔پہلی صورت میں اگر طالبان حکومت میں آگئے تو دنیا انہیں تسلیم نہیں کرے گی اور اگر ہم دنیا کے ساتھ چلنے کی کوشش کریں گے تو طالبان ان دہشت گردوں کو ہم پر چھوڑ دیں گے جو پاکستان سے فرار ہوکر ان کی پناہ میں ہیں۔ طالبان مخالف کوئی اتحاد وجود میں آکر انہیں شکست دے کر اپنی حکومت بنا گیا تولامحالہ یہ حکومت ہم پر طالبان کی پشت پناہی کا الزام لگا کر بھارت کی گود میں جا بیٹھے گی اوراگرخانہ جنگی جاری رہتی ہے تویہ نہیں ہوسکتا کہ پاکستان میں بھی اس کے شعلے نہ بھڑکنے لگیں۔ طورخم سے پار کی لڑائیاں پشاور میں پہلے بھی لڑی جاتی رہی ہیں اورآئندہ بھی لڑی جائیں گی۔ ان تینوں نقصان دہ صورتوں سے بچنے کیلئے پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ آگے بڑھ کر افغانستان میں امن کا راستہ تلاش کرے۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کی نوعیت دنیا کے ہر ملک سے الگ ہے۔ ہم پچھلے چالیس سال سے افغانستان کے اندرونی مسائل یا ان کے حل میں شریک رہے ہیں۔ اب یکایک یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر تماشائی کی طرح ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں۔ ہمیں افغانستان پر ایک واضح پالیسی بنانا ہی ہوگی۔ کسی واضح پالیسی کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہی یہ ہو رہا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل افغانستان پر اجلاس کرتی ہے اور ہمیں اس میں سنابھی نہیں جاتا۔آخر حالات اتنے خراب کیوں ہوئے؟ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ ہمارے پاس کوئی تجویز یا منصوبہ ہو تو دنیا ہماری بات سنے بھی‘ جب ہم ہی بار بار کہتے ہیں کہ ہمارا افغانستان میں کوئی کردار نہیں تو پھر کوئی ہمیں سنے بھی کیوں؟
افغانستان کے بارے میں پالیسی کی تشکیل کے لیے ہمارے آپشن بہت ہی محدود ہیں۔ ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ کابل میں ایک ایسی حکومت قائم کرنے کی کوشش کریں جو وسیع البنیاد ہو‘ یعنی اس میں طالبان سمیت افغانستان کے تمام طبقات شامل ہوں۔ وسیع البنیاد حکومت وہ نکتہ ہے جو دنیا ہمیں 1986 ء سے سمجھانے کی کوشش کررہی ہیں لیکن ہم اسے نظر انداز کرتے رہے ہیں۔ پینتیس برس پہلے بھی امریکہ نے سابق بادشاہ ظاہرشاہ اور مجاہدین کو ملا کر افغانستان میں حکومت کی تشکیل کی تجویز دی تھی جو ہم نے اس لیے رد کردی کہ ہم جنگی فتح حاصل کرکے دنیا پر اپنی دھاک بٹھا نا چاہتے تھے۔ وہی جنرل ضیاء الحق جواس وقت وسیع البنیاد حکومت کو جہاد کی توہین سمجھتے تھے‘ موقع نکل جانے کے بعد اس قابل بھی نہ رہے کہ وہ افغانستان کے بتیس میں سے ایک صوبے میں بھی مجاہدین کی حکومت بنوا سکیں۔ اس وقت وسیع البنیاد حکومت کی پیشکش نظر انداز کردینا ایسی غلطی تھی جس کی سزا ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ اس لیے اگر کوئی یہ گمان کرتا ہے کہ طالبان کی مکمل فتح کے بعد حالات بدل جائیں گے تویہ خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔ دنیا نے تب ایک بنیاد پرست حکومت ماننے سے انکار کردیا تھا توآج کے حالات میں اس پرغورکا بھی کوئی امکان نہیں۔
ہم بھول جاتے ہیں کہ افغان حکومت ہو یا طالبان‘ ان کے پاس کھونے کو کچھ نہیں مگر یہ دونوں اپنی اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے وسطی ایشیا کی ترقی کے سبھی راستے مسدود کیے بیٹھے ہیں۔ ان دونوں کو یہ بتانے کے لیے کہ ان کا رویہ قابل قبول نہیں‘ ہمیں اپنے سمیت افغانستان کے چھ پڑوسی ممالک کے درمیان کوئی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ پاکستان‘ چین‘ ازبکستان‘ تاجکستان‘ ترکمانستان اور ایران مل کر کوئی متفقہ لائحہ عمل طے کر لیں تو پھردنیا کیلئے ممکن نہیں ہوگا کہ وہ اسے نظر انداز کرسکے۔ اگر اسی مرحلے پر روس اور امریکہ بھی ساتھ مل جائیں تو بہت سی مشکلات آسان ہوسکتی ہیں۔ فوری طور پرایسا نہیں بھی ہوتا تو چھ ملکوں کے اتفاقِ رائے سے ترتیب پانے والی تجاویز کو رد کرنا ان دونوں کیلئے مشکل ہوجائے گا۔ دوسرے مرحلے میں ترکی‘ قطر اور سعودی عرب کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہوگا کیونکہ یہ تینوں ملک بھی کسی نہ کسی طرح افغانستان کے اندرونی معاملات میں شامل رہے ہیں۔
افغانستان کے اردگرد کے ملکوں سے بات کرنے سے پہلے جو کام ہمیں کرنا ہے وہ یہ ہے کہ افغان پالیسی کو افراد کے درمیان بند دروازوں کے پیچھے بے معنی مشاورت سے نکال کرپارلیمنٹ میں لے کرآئیں۔ افغانستان کے بارے میں ایسا کوئی راز نہیں جو قوم یا دنیا کو پہلے سے نہیں پتا۔ مسنگ سٹنگر میزائلوں سے لے کر سوویت یونین کے داخلی معاملات میں مداخلت تک کوئی بات دنیا سے پوشیدہ نہیں ۔ اوریہ تو ہم خود مانتے ہیں کہ طالبان ہمارے کہنے پر امریکہ کے ساتھ مذاکرات پر مائل ہوئے تھے۔ اس لیے اس موضوع کو خفیہ رکھنے کی مشق اب ختم ہونی چاہیے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ جن لوگوں کے سپرد ہم نے روایتی طور پر افغان پالیسی کررکھی ہے‘ حالت یہ ہے کہ انہیں اگر کسی افغان رہنما سے ذاتی پرخاش ہو جائے تو اپنی انا کو ہی پاکستان کا مفاد قرار دے کر ناراض ہوجاتے ہیں۔ سیانے اتنے ہیں کہ طالبان کے علاوہ افغان فریقوں کی اسلام آباد میں کانفرنس اشرف غنی کے کہنے پر ملتوی کردی۔ یہ بھی نہیں سوچا کہ اس التوا سے دنیا کو کیا پیغام جائے گا۔
اس حوالے سے دوسرا بنیادی کام اندرون ملک اتفاق رائے پیدا کرنا ہے۔افغانستان کے بارے میں پالیسی سازی کرتے ہوئے ہماری تاریخ رہی ہے کہ سوائے سابق وزیراعظم محمدخان جونیجو کے یکے بعد دیگرے ہر حکمران اسے اپنے دفتر سے باہر نہیں جانے دیتا۔ جنرل ضیا خود کو فاتح کابل کہلوانے کے شوق میں مبتلا تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے طالبان کی حمایت کا جو فیصلہ کیا وہ خالصتا ًان کا اپنا تھا۔ نواز شریف کو اپنے پہلے دورِ حکومت میں افغانستان کا مسئلہ حل کرکے نوبل انعام حاصل کرلینے کی تمنا تھی اور دوسرے دورِ حکومت میں طالبان سے متاثر ہوکر امیر المومنین ہوجانے کا خواب جگائے رکھتا تھا۔ ان کے بعد افغانستان میں امریکہ کا اتحادی بن جانے کا فیصلہ تنہا مشرف نے کیا تھا۔آج بھی ویسی ہی صورتحال ایک بار پھر درپیش ہے کہ افغانستان کے معاملات سے خود کو لاتعلق کرلینے کا فیصلہ وزیراعظم کا اپنا ہے۔ انا اگر آڑے نہ آئے توانہیں حسن تدبیر سے پاکستان کے سبھی سیاستدانوں کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ حکمت عملی بنانا ہوگی۔ مولانا فضل الرحمن سے نفرت کو چھوتی ہوئی مخالفت ‘ شہباز شریف سے رقابت‘ عوامی نیشنل پارٹی پر غصہ اور پیپلزپارٹی سے چڑ‘ سب کچھ بھلا کر انہیں سب کو ساتھ بٹھانا ہوگا۔ اس کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ اگر یہ اتفاق رائے پیدا نہ ہوا تو قومی سلامتی سے متعلق یہ اہم ترین ایشو بھی سیاسی بن کر تُوتُو میں میں کا باعث بن جائے گا۔
افغانستان‘ پاکستان کی سلامتی سے جڑا ایک مسئلہ ہے۔ اس بارے میں یہ بات اسلام آباد اور گردو نواح کے ہر شخص کو ذہن میں رکھنی چاہیے کہ قومی سلامتی اب پاکستان میں وہ مسئلہ نہیں رہا جس پر حکومت یا کوئی ادارہ کچھ بھی کہے تو سبھی اس کو مان لیں۔ یہ دھیان بھی رکھنا ہے کہ پاکستان میں اکثریت افغانستان کے مسئلے کو نظریاتی حوالے سے دیکھنے کی قائل نہیں رہی۔ اس لیے افغانستان کے بارے میں جو کچھ بھی کرنا ہے اس میں اہم ترین چیز پاکستان کا مفاد ہونا چاہیے۔ اب جس نے بھی فیصلہ کرنا ہے اس کے ذمے ہوگا کہ وہ پھر پوری ذمہ داری بھی قبول کرے۔ یہ نہ ہوکہ ایک مصیبت سے نکلنے کیلئے کوئی دوسری مصیبت گلے ڈال لیں۔