تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     11-08-2021

آئین سے محبت کے تقاضے

خدا جانے یہ حقیقت ہے یا افواہ‘ لیکن مالٹا سے کچھ لوگ بتا رہے ہیں کہ یہاں کے ایک انتہائی پوش علاقے میں ایک بہت بڑے محل نما گھر کی صفائی ستھرائی کیلئے ایشیااور اٹلی سے بلائے گئے کچھ لوگ ہمہ وقت کچھ نئی تعمیرات اور مرمت سمیت رنگ و روغن کے کاموں میں مصروف ہیں۔ اس محل کا نیا مکین کون ہو سکتا ہے‘ اس حوالے سے بہت سی قیاس آرائیاں جاری ہیں مگر حقیقت بہت جلد سب کے سامنے آ جائے گی۔ برطانیہ میں سابق وزیراعظم کی ویزے کی توسیع کا معاملہ اپنے اندر وسیع تفصیلات اور قانونی موشگافیاں سموئے ہوئے ہے، اس پر بحث پھر کبھی ہو گی لیکن وہاں موجود ان کے انتہائی قریبی اور ان کی خواہش کے مطابق خبریں دینے والے نجی ٹی وی چینلز کے نمائندوں کی جانب سے اپنے قریبی دوستوں کو بتایا جا رہا ہے کہ برطانوی حکومت کے سامنے اپیل میں میاں نواز شریف کے وہ بیانات اور وڈیو کلپس بھی لگائے جا رہے ہیں جن میں انہوں نے پاکستان کے اہم عہدوں پر تعینات شخصیات کے ناموں کا حوالہ دیتے ہوئے براہِ راست ان پر حملے کیے تھے تاکہ یہ تاثر قائم کیا جا سکے کہ انہیں کسی کرپشن یا بدعنوانی کی نہیں بلکہ آئین کی پاسداری نہ کرنے والوں کے خلاف بولنے کی سزا دی جا رہی ہے اور اسی ڈر سے بھاگ کر وہ یہاں آئے ہوئے ہیں۔
گوجرانوالہ کے جلسے میں جب یہ سب کچھ کہا جا رہا تھا تو پاکستان میں بہت سے لوگ اس اچانک جرأت پر حیران ہو رہے تھے کہ حکام کے نام لے کر نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ وہ تقریریں اور وہ حملے بعض اطلاعات اور مستقبل کے لائحہ عمل کی روشنی میں کیے جا رہے تھے کیونکہ خبریں آ رہی تھیں کہ حکومت پاکستان میاں صاحب کی واپسی کیلئے برطانوی حکومت سے سربراہی سطح پر رابطے کرنے کی تیاریاں مکمل کر چکی ہے۔ اس وقت اعلیٰ حکام کو جو نشانہ بنایا گیا‘ اسے امریکا اور لندن سمیت یورپ میں بیٹھے ہوئے مفرور وں اور ان کی میڈیا ٹیموں نے خوب اچھالا۔ بدلے میں بھارت نے انہیں ہر وہ فورم مہیا کیا جہاں سے وہ ریاست کے خلاف پروپیگنڈا کر سکیں اور پھر ان کے ٹویٹس اور بیانات کو انڈین سوشل میڈیا سیلز نے اپنے سرمایے، افرادی قوت اور جدید سوشل میڈیا تکنیکوں سے بلندیوں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بدقسمتی دیکھیے کہ ان کی مدد کیلئے ملک کے اندر سے دیسی لبرلز اور دانشورو ں کا مخصوص ٹولہ بھی سرگرم ہو گیا اور کہیں آزادی کے نام پر تو کہیں انسانی حقوق کی پاسداری کے نام پر ہمارے در و دیوار کترنے میں دن رات ایک کر دیا گیا۔
سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ان کی ہر پوسٹ، ہر پیراگراف اور بیانات سمیت وڈیوز کا عمیق جائزہ لیں، آپ کو خود معلوم ہو جائے گا کہ تباہ کن قطع برید کے فن کے یہ ماہرین وزیراعظم عمران خان اور ریاستی اداروں کے حکام کے بیانات کے ساتھ ایسی ایسی جعلسازی کرتے ہیں کہ گوئبلز ان کے پائوں کی خاک سے بھی کم تر دکھائی دینے لگتا ہے۔ ملک سے کسی نہ کسی بہانے بھاگے ہوئے بھگوڑوں پر مشتمل دنیا بھر میں پھیلی ہوئی یہ ٹیمیں اپنی حامی سیاسی جماعتوں کی آڑ لے کر ملکی سلامتی کے اداروں کی وہ تضحیک کرتی رہی ہیں کہ دیکھنے اور سننے والے یہ پوچھ پوچھ کر تھک چکے ہیں کہ ان کیلئے کوئی قانون نہیں؟ ان کیلئے کوئی حد اور کسی قسم کا کوئی ضابطہ نہیں؟
یہ ٹولہ اپنی دستاویزات میں‘ ایک اطلاع کے مطا بق‘ اس نکتے کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے کہ ہم تو یہاں اس لیے پناہ لئے ہوئے ہیں کہ ہم نے ملکی آئین کی حفاظت کا عزم کیا ہوا ہے جو ملک میں موجود بالا دست طبقے کو برداشت نہیں ہو رہا۔ ہم تو پاکستان میں صرف آئین اور جمہوریت کی حکومت اور انسانی حقوق کا بول بالا چاہتے ہیں۔ غرض ان کی جانب سے مغرب کا دل لبھانے اور اپنے بیانات میں کشش اور قبولیت پیدا کرنے کے لیے ''آئین اور جمہوریت‘‘ کی حرمت‘ عظمت اور پاسداری کی دہائیاں دی جارہی ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق‘ برطانوی ممبرانِ پارلیمنٹ اور میڈیا کے سینئر اور معروف لوگوں کو خطوط بھی لکھے جا رہے ہیں جس میں انہیں باور کرایا جا رہا ہے کہ پاکستان میں سیاسی لوگوں اور ان کے ساتھیوں کو صرف آئین کی پاسداری، انسانی حقوق اور جمہوریت سے محبت کی سزا دی جا رہی ہے۔ میرے خیال میں‘یہ دنیا بھر میں جھوٹ کے جتنے مرضی راگ الاپتے رہیں‘ حقیقت یہ ہے کہ ان پر اس قدر الزامات ہیں کہ اپنے دفاع میں کہنے کو ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر بہاولپور کا لال سہانڑا پارک اپنے دوستوں اور ساتھیوں میں تقسیم کر دیا جائے تو کیا اسے آئینی اقدام کہا جائے گا؟ اسے جمہوری وآئینی اقدام قرار دیا جائے گا؟ اگر کوئی صاحبِ اقتدار‘ اپنے عہدے کی طاقت استعمال کرتے ہوئے ہر ویک اینڈ پر سرکاری ہیلی کاپٹر پر لال سہانڑا پارک جانا شروع کر دے تو کیا اسے آئین کے احترام‘ پاسداری، اس کی محبت اور حرمت کا نام دیا جا سکتا ہے؟ ہیلی کاپٹر کیلئے فیول، عملے کی تنخواہیں، وہاں قیام اور چوبیس گھنٹے سکیورٹی کے اخراجات اگر آپ نے اپنی جیب سے ادا نہیں کیے تو ذاتی مصروفیات کیلئے ہر ہفتے قومی وسائل کا ضیاع آئین کی کس شق کے تحت جائز قرار دیں گے؟
کارگل میں اپنے ہی جوانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے بعد اداروں کو ان کی حدود میں رہنے کے بھاشن سنائے جا رہے ہیں، ایک طرف کہا جاتا ہے کہ سکیورٹی اداروں کا کام صرف سرحدوں کی حفاظت ہونا چاہئے لیکن جب اپنا مطلب ہو تو میمو گیٹ کیلئے کالا کوٹ پہننے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔ جب اپنے مفادات پیشِ نظر ہوں تو ہر طرح کی قانون سازی میں تعاون کیا جاتا ہے مگر جب بات اصلاحات اور احتساب کی ہو تو ''سیاسی انتقام‘‘ کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ ان کی آئین سے محبت تو ہم سب نے کب سے دیکھ رکھی ہے‘ اس وقت سے جب 1997ء میں فیصل آباد کی ایک کھلی کچہری میں ایک اعلیٰ سرکاری افسر کو ہتھکڑیاں لگا کر نہ صرف ادھر ادھر گھمایا گیا بلکہ سرکاری ٹی وی کے ذریعے دنیا بھر کو یہ منظر دکھایا گیا، پھر جب خود پر بنی تو کہا گیا کہ ہم بے گناہوں کو ہتھکڑی لگا کر جہاز میں بٹھایا گیا۔ یہ شاید وہی مکافاتِ عمل ہے جس کا وعدہ کیا گیا ہے ۔
آئین کی سربلندی اور اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے کا درس دینا یقینا لوگوں کیلئے بے پناہ کشش رکھتا ہے لیکن وہی آئین نجانے اپنے ساتھیوں میں ملکی وسائل اور دولت کی بندر بانٹ کرتے ہوئے کہاں چلا جاتا ہے۔ پاناما لیکس کی پہلی کرن اس خطے پر جب پڑی تو آئین یکدم پیارا لگنا شروع ہو گیا اور اس میں دیے گئے استثنا سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی لیکن یہ کس آئین میں لکھا ہے کہ اپنے مخالفین کو اپنی مرضی کی سزا دینے یا اپنے تابع فرمان ساتھیوں کی مدد کیلئے کسی منصف کو فون پر دھمکیاں دی جائیں، ان کی وڈیوز بنا کر انہیں بلیک میل کیا جائے؟ کیا آئین کی کسی کتاب میں یہ درج ہے کہ کسی منصف کو اپنے مخالفین اور ان کے پورے پورے خاندان کو سزا دینے پر مجبور کیا جائے؟مرضی کے مطابق فیصلہ حاصل کرنے کے لیے اداروں پر دھاوا بولا جائے اور لائو لشکر کے کر پیشیوں پر جایا جائے۔ کیا آئین کا احترام ایک ہی شخص یا چند لوگوں تک ہی محدود رہنا چاہئے؟ کیا قانون کا اطلاق صرف ایک خاندان پر ہی ہونا چاہیے؟ پنجاب میں ایک سابق منصف نے اپنے آخری چند ماہ میں رنجیت سنگھ کا دور یاد دلا دیا تھا جب مرضی کا انصاف بٹتا تھا۔ کیا یہ سب آئین کی پاسداری تھا؟ جب آئین و قانون سے محبت کے اتنے دعوے کیے جاتے ہیں تو پھر قول و فعل اور بیان وعمل میں اتنا تضاد کیوں ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved