’’اچانک کچھ بھی نہیںہوتا یہاں تک کہ زلزلے بھی زمین کی گہرائیوں سے شروع ہو کر سطح ارض پر بستیوں تک پہنچتے ہیں۔‘‘ معروف فلسطینی شاعر موردبارغوتی کی دو دہائیاں قبل تخلیق کردہ نظم کے ایک مصرعے کا ترجمہ دو برس پہلے امریکی میڈیا میں شائع ہوا تھا جس کا مقصد اس امر کی وضاحت کرنا تھا کہ عرب دنیا میں مغرب کی حمایت سے مطلق العنان کلچر پروان چڑھنے کے نتیجے میں جو طویل اضطراب اور سیاسی فساد بپا ہوا‘ اُسی کے ردعمل میں ’’بہارِ عرب‘‘ کے نام سے کئی عرب ممالک میں تشدد کی لہر نے جنم لیا۔ بارغوتی کا یہ مصرعہ اس ہفت رنگ مظہر کی بھی عکاسی کرتا ہے جس کا مشاہدہ آج ہم اپنے بدقسمت خطے میں کررہے ہیں جو بڑی طاقتوں کی اُن پے در پے غلط پالیسیوں اور فوجی مہم جوئیوں کا نتیجہ ہے جو انہوںنے اپنے مفادات کی خاطر انجام دیں۔ پہلے سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کیا، پھر امریکہ کی سربراہی میں ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ شروع ہوئی جس نے اس خطے کو گوناگوں نوعیت کے سماجی، تہذیبی، سیاسی اور اقتصادی مسائل کا شکار کردیا جو بڑے پیمانے کے انسانی المیوں کا باعث بنے۔ پاکستان خاص طور پر انتہا پسندی اور دہشت گردی سے بری طرح متاثر ہوا کیونکہ اسے اپنی جیوپولیٹیکل پوزیشن کی وجہ سے دو طویل افغان جنگوں میں فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار نبھانا پڑا۔ اس بحران کے پس منظر میں ہمارا داخلی تاریخی تناظر بھی کارفرما ہے جو جنرل ضیاء الحق کے گیارہ برس اور جنرل پرویز مشرف کے نو برس طویل فوجی آمریت کی شکل میں ہم پر مسلط ہوا۔ دونوں ادوار میں اقتدار کو طول دینے کے لیے مذہبی انتہا پسندی کو ہوا دی گئی جس نے ہمارے سماجی ڈھانچے کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ دونوں فوجی آمر مغرب کے چہیتے تھے۔ جنرل مشرف کی ذاتی مفاد پر مبنی موقع پرست پالیسیوں کے باعث حالیہ برسوں میں پاکستان کی شہرت مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کو پروان چڑھانے والے ملک کی ہوگئی۔ ہمارے ملک میں انتہا پسندانہ رجحانات نہیں ہوتے تھے لیکن جنرل مشرف نے اس عفریت کو جان بوجھ کر پنپنے کا موقع فراہم کیا‘ جس کا مقصد دہشت گردی کے خلاف جنگ کوجواز فراہم کرنا اور اس کے نتیجے میں اپنی آمریت کو طول دینا تھا۔ ان کے اقتدار پر قبضہ کرنے سے پہلے ہمارے ہاں تشدد اتنے بڑے پیمانے پر نہیں تھا۔ ہم صرف فرقہ وارانہ نوعیت کی دہشت گردی سے آشنا تھے لیکن آج ہم ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کی ’’گرائونڈ زیرو‘‘ بن چکے ہیں اور ہمارے قبائلی علاقوں میں زبردست فوجی تصادم جاری ہے۔ القاعدہ کی سرکردگی میں جنگ کا سب سے بڑا ہدف بھی ہم بنے؛ چنانچہ گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان کے پچاس ہزار شہری اور فوجی دہشت گردوں کے حملوں میں جاں بحق ہوچکے ہیں۔ بھاری فوجی اخراجات اور دوسرے ضمنی نقصانات اس کے علاوہ ہیں۔ اس جنگ کے نتیجے میں پاکستان مسلسل دہشت گردی، لوگوں کی نقل مکانی، تجارت اور پیداوار میں کمی، برآمدات کے جمود، سرمایہ کاروں کی ہچکچاہٹ اور امن و امان کی ابتر ہوتی ہوئی صورتحال کا شکار ہوا۔ ہم نے اپنا سب کچھ اس جنگ میں جھونک دیا‘ ہم مسلسل فوجی اخراجات کے علاوہ دوسرے جنگی نقصانات برداشت کرتے چلے آ رہے ہیں۔ حیرت ہے کہ پاکستان اپنے دوستوں اور اتحادیوں کے ہاتھوں کیسی خوفناک صورتحال میں مبتلا ہے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ دنیا یہ تک نہیں جانتی کہ دہشت گردی کی تعریف (Definition) کیا ہے۔ تشدد کے تمام تر مظاہر کے ساتھ اس کی مختلف تعریفیں کی جاتی ہیں؛ چنانچہ دہشت گردی کی کوئی ایسی تعریف نہیں ملتی جسے عالمی سطح پر تسلیم کیا جاتا ہو، تاہم آج بالعموم اسے سیاسی محرکات کے تحت پرامن شہریوں کے خلاف کسی قوم کے ایک چھوٹے گروہ یا پوشیدہ گروپ کی طرف سے پرتشدد کارروائیاں قرار دیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ دہشت گردی کی مختصر قانونی تعریف ’’پرامن حالات میں جنگی جرم جیسی کارروائی‘‘ کے طور پر کرتی ہے۔ دراصل دہشت گردی ایک عالمی مظہر اور ایک ایسی برائی (شر) ہے جس کی کوئی سرحدیں نہیں ہوتیں۔ حالیہ برسوں میں اس نے تمام خطوں اور معاشروں کی سیاسی، اقتصادی اور سلامتی کی فضا کو شدید متاثر کیا ہے۔ اس کا کوئی دین و ایمان نہیں۔ یہ ناانصافی، ظلم و جبر اور بنیادی آزادیوں اور حقوق کی عدم دستیابی کے خلاف روز افزوں غصے، مایوسی، نفرت اور اضطراب کا بد نما اور متشددانہ اظہار ہے۔ عالمی نقطہ نظر سے دہشت گردی عموماً اس وقت جنم لیتی ہے جب کمزور عوام یا ملک یا حق خود ارادایت کی جدوجہد کو دبانے اور آزادی کو سلب کرنے کے لیے ریاست کی بے پناہ فوجی طاقت استعمال کی جاتی ہے۔ ایسے حالات میں کمزور اور پریشان حال لوگوں کی طرف سے دہشت گردی کو گوریلا جنگ کی ایک چال کے طور پر بروئے کار لایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے ’’دہشت گردی کے خلاف حکمت عملی‘‘ پر اپنی مئی 2006ء کی رپورٹ میں تسلیم کیا ہے کہ اندرونی تشدد اور ریاستوں کے مابین تصادم کے نتیجے میں ریاستی اور غیر ریاستی دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے مطابق دہشت گردی کئی مسائل کے مجموعے کی پیداوار ہوتی ہے۔ اس کا سبب بالعموم بُری حکومتیں، مفاد پرست سیاستدان اور ایسے جنگجو لیڈر بنتے ہیں جو لوگوں کی محرومیوں کا ناجائزہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کسی معاشرے میں جب بڑے پیمانے پر منظم قسم کی سیاسی، اقتصادی ا ور سماجی عدم مساوات سے نمٹنے کے قانونی ذرائع دستیاب نہ ہوں تو ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں جن میں عام طور پر پُرامن طریقے دہشت گردی سمیت دوسرے انتہا پسندانہ اور پرتشدد کارروائیوں کو روکنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ سیاسی، سماجی اور اقتصادی مسائل کا کماحقہ ادراک کرنے اور ان کے حل پر بھرپور توجہ مرکوز کیے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کوئی حکمت عملی یا روڈ میپ کارگر ثابت نہیں ہوسکتا۔ یہ درست ہے کہ دہشت گردی کے انسداد کے لیے لڑنے کے بارے میں دو رائے نہیں ہوسکتیں۔ دہشت گردی کی اصل وجوہات جاننے پر توجہ مرکوز کرنے کا مطلب اسے جواز عطا کرنا نہیں بلکہ اس کا صحیح ادراک کرکے اس پر قابو پانا ہے۔ صرف ایک ایسا جامع اور جچا تلا لائحہ عمل جو قلیل مدتی اور طویل مدتی سیاست، ترقی، انسانی اور بنیادی حقوق کی پاسداری پر مبنی ہو اور جو مرض کی علامات نہیں بلکہ اس کی اصل وجوہ کو ختم کرنے کی حکمت عملی کا احاطہ کرے اس مسئلے کا دیرپا حل بن سکتا ہے۔ دہشت گردی کی ذہنیت فوجی آپریشن سے ختم نہیں ہوسکتی۔ بدقسمتی سے دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ ردعمل اور جوابی حملے سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ جس چیز کو نظرانداز کیا جارہا ہے وہ یہ ہے کہ دہشت گردی کا تعلق صرف افراد یا تنظیموں یا نظراندازہ کردہ ملک یا اس کے اندرونی انتشار سے نہیں ہوتا۔ چند سو افراد کو گرفتار کرنے یا قتل کرنے یا ایک دو ممالک کی قیادت تبدیل کردینے سے دہشت گردی ختم نہیں ہوجائے گی جو ناانصافی، مایوسی اور محرومی کا اظہار ہوتی ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ امن واستحکام کو فروغ دے اور کمزور ملکوں پر فوجی غلبے اور مقامی لوگوں کے حق خود اختیاری کی خلاف ورزیوں کی روش ختم کرنے پر توجہ دے۔ پاکستان میں ناانصافی اور عدم استحکام کی وجوہات اور معاشرے میں انتہا پسندی اور عسکریت کے خاتمے کے لیے خصوصی مساعی بروئے کار لانے کی ضرورت ہے کیونکہ انہی اسباب کے باعث بار بار سیاسی حکومتیں ٹوٹتی اور فوجی حکومتیں بنتی رہیں اور ملک پر بری حکمرانی، اداروں کی تباہی، قانونی شکنی جیسی مصیبتیں نازل ہوتی رہیں۔ دہشت گردی اورانتہا پسندی سے نمٹنے کی آخری ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ ملک میں اچھی حکومت، قانون کی عملداری، برداشت، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اورباہمی احترام کو فروغ دے۔ ہمیں قومی ترجیحات کو بھی ازسر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے جو انسانی ترقی اورسماجی و اقتصادی انفراسٹرکچر کی تعمیر پر مبنی ہو۔ دہشت گردی ایسے پاکستان میں نہیں پنپ پائے گی جو جمہوری، ترقی پسندانہ، جدت پسند، تعلیم یافتہ اور خوشحال ہو۔ (کالم نگار سابق وزیر خارجہ ہیں)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved