تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     12-08-2021

پانچویں پوزیشن پر جشن

نوحہ خوانی کی مجلس کو ہم نے بزمِ نشاط میں بدل ڈال۔ یہ ذہنی افلاس کی ایک نشانی ہے۔
ارشد ندیم تو سزاوارِ تعریف ہے کہ اس نے اپنی توانائیاں صرف کر ڈالیں مگر بطور قوم ہمیں کیا ملا؟ عالمی سطح پر ناقابلِ ذکر اور ایک کھیل میں پانچوں پوزیشن۔ چین اور ہماری عمر ایک ہے۔ وہ قوموں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر اور ہم؟ یہ خوشی کا مقام ہے یا ماتم کا؟ سال بھر نوحہ گری نہیں ہوتی لیکن کیا محرم میں بزم ہائے طرب برپا ہوتی ہیں؟ اسی موقع کے لیے حالی نے اپنی مسدس لکھی تھی 'پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے‘
احتساب کیا صرف سیاستدانوں کے لیے ہے؟ اس ملک میں ہر کام کے لیے ادارے قائم ہیں اور قوانین بھی موجود ہیں۔ ان اداروں کاکوئی احتساب؟ کیا ان شعبوں کو قانون کی حکمرانی کی ضرورت نہیں؟ ان کا احتساب کس کی ذمہ داری ہے؟ عمران خان صاحب کی کھیلوں میں تین ڈگریاں (PhDs) کب ہمارے کام آئیں گی؟ انصاف کب ہوگا: منصف ہوتو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے؟
اس ملک میں کھیلوں کی کوئی وزارت ہوگی۔ اولمپک کمیٹی اس کے ماتحت ہوگی۔ اس وزارت نے اب تک کیا کیا؟ اولمپکس میں پاکستان کی کارکردگی کو جانچنے کے لیے کیا کوئی کمیٹی بنی؟ کیا تحقیقات کی کوئی ضرورت محسوس کی گئی؟ یہ مجالسِ مسرت، کیا اس لیے تونہیں کہ ناکامیوں کی طویل فہرست کی طرف کسی کا دھیان نہ جائے؟ ساری قوم کو باور کرایا جائے کہ اولمپکس کے مقابلے میں کسی ایک کھیل میں پانچویں پوزیشن لینا اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ بائیس کروڑ کو صرف جشن منانا اورپھر اطمینان سے سوجانا چاہیے۔ کیا ہماری اوقات بس یہی ہے؟
کھیلوں کا یہ زوال تین برس کی نہیں، چوہتر سال کی داستان ہے۔ تین سال پہلے بھی یہی کچھ تھا۔ ہاکی زندہ تھی تو ایک آدھ سونے کا تمغہ ہمیں مل گیا تھا‘ ورنہ یہ کہانی ہر بار دھرائی جاتی ہے۔ صدمہ یہ ہے کہ اس روش میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ حکومت نے خیال کیا کہ نجم سیٹھی کو ہٹانے سے نہ صرف کرکٹ بلکہ کھیل کا شعبہ ہی سنور جائے گا۔ نواز شریف صاحب نے انہیں نہ لگایا ہوتا تووہ بھی اپنے منصب پر باقی رہتے۔ صفر کارکردگی کے ساتھ، اگر سترہ سالہ قیام پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے تو دو سالہ مدت پرکیا ہو سکتا تھا؟
احتساب کی بنیاد اگر اداروں کو بنایا جاتا تو یہ عمل زیادہ نتیجہ خیز ہوسکتا تھا۔ اس سے جہاں ماضی کے غلط کاموں کی نشاندہی ہوتی وہاں مستقبل کی بہتری کیلئے ایک لائحہ عمل بھی مرتب کیا جا سکتا تھا۔ کھیل ہی کو لیجیے۔ یہ دیکھا جاتا کہ کھیلوں کے شعبے پر کتنا پیسہ خرچ ہوا اور اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ جن لوگوں نے کارکردگی نہیں دکھائی، ان کے ساتھ کیا معاملہ ہوا؟ سترہ سال تک کوئی آدمی ایک منصب پر کیوں فائز رکھا گیا؟ کیا اس ملک میں انتظامی صلاحیتوں کے حاملین کا قحط پڑگیا تھا؟ پھر یہ بھی دیکھاجاتاکہ جسے منصب دیا گیا، وہ اس کاکتنا اہل تھا۔
نوازشریف جب ملک کے وزیر اعظم بنے تو بتایا گیا کہ ہروزیر کو اپنی وزارت کے لیے ایک منصوبہ بنانے کوکہا گیا ہے۔ کابینہ اس کی منظوری دے گی اور پھر کارکردگی کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ میرے علم میں نہیں کہ اس پرکوئی عمل ہوا۔ عمران خان آئے توانہوں نے بھی اعلان کیاکہ ہرتین ماہ بعد ہروزارت کا جائزہ لیا جائے گا اور وزیر کا اپنے منصب پرقائم رہنا اس کی کارکردگی سے مشروط ہوگا۔ ہوا یہ کہ وزیروں کی تعداد بڑھتی گئی مگراحتساب کسی کا نہیں ہوا۔ وزیروں نے اپنے طورپر بھی ضروری نہیں سمجھاکہ کچھ کرکے دکھائیں۔ وزیراعظم ناخوش ہوئے تو وزارت بدل ڈالی۔
یہ ایک عمومی تبصرہ ہے، استثنا اپنی جگہ رہتا ہے۔ جیسے ہماری وزارتِ سائنس نے وینٹیلیٹرز بنائے اور ایک ضرورت کو پورا کیا۔ یہ منصوبہ فواد چوہدری صاحب نے شروع کیا اور شبلی فراز صاحب نے اسے تکمیل تک پہنچایا۔ حکومت کی کارکردگی لیکن استثنا کی بنیاد پر نہیں، عموم کی اساس پر جانچی جاتی ہے۔ عمومی صورتحال وہی ہے جس کا ایک مظہر اولمپکس کھیلوں میں سامنے آیا۔
میرے لیے زیادہ صدمے کی بات یہ ہے کہ اب ہم نے ناکامیوں کو بھی منانا (celebrate) شروع کردیا ہے۔ اقبال نے ایسی افسوسناک صورتحال پہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا‘ آج کے اخبار میں خبرتھی کہ ارشد ندیم کی واپسی پرشاندار استقبال ہوگا اور وزیرِ صحت بھی ایئرپورٹ جائیں گے۔ یہ ایک شکست خوردہ ذہنیت کے اظہار کے سواکچھ نہیں۔
سوشل میڈیا پہ ایک لطیفہ گردش میں رہا جو ہمارے ذہنی سطح کی صحیح ترجمانی کرتا ہے۔ کسی نے تیراکی کے مقابلوں میں ہار کا سبب پوچھا تو اسے جواب ملا 'شکر کرو کہ ڈوبنے سے بچ گئے‘ جو قوم اس پر آمادۂ جشن ہوکہ ہم نے ایک کھیل میں پانچویں پوزیشن لے لی، وہ کبھی پہلی پوزیشن کی مستحق نہیں ہوسکتی۔ پہلی پوزیشن انہی کیلئے خاص ہوتی ہے جو صرف اسی کیلئے کوشش کرتے ہیں۔ پہلی نہ مل سکے، دوسری تو مل ہی جاتی ہے‘ لیکن جو پانچویں پہ شاداں ہو، وہ پہلی کیا، دوسری پوزیشن پہ بھی نہیں آسکتا۔
ہار بری شے نہیں، کم تر پرخوش ہوناقابلِ تشویش ہے۔ ستاروں پر کمند ڈالنے کا عزم کریں گے تو زمین پر چراغ جلانے کے قابل ہوں گے۔ سوچ کا بڑا ہونا، بڑے کام کا پہلا قدم ہے۔ اقبال نے برصغیر کے لوگوں کو آزادی کی راہ دکھانا تھی توانہیں فاتحِ عالم بننے کے گُر سکھائے۔ اس سے اپنی صلاحیتوں پر اعتماد پیدا ہوتا ہے اور انسان جدوجہد پر آمادہ ہوتا ہے۔ لمبے سفر کا ارادہ کریں گے تو زادِ راہ بھی اسی لحاظ سے جمع ہوگا۔
برسوں پہلے کی بات ہے، میں ایک قومی اخبار میں کالم لکھتا تھا۔ ایک بار میرا کالم روک دیا گیا۔ میں نے جب دفتر سے اس بارے میں استفسارکیا تو مجھے کہا گیاکہ ہم آپ کو ادارتی صفحے کے انچارج کا تحریری تبصرہ سنا دیتے ہیں۔ یہ کالم کے ناقابلِ اشاعت ہونے کی وجہ بتا رہا ہے۔ انہوں نے لکھا تھا: 'کالم نگار مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا مودودی بننے کی کوشش کرتا ہے‘ میں نے کہا کہ جو بات باعثِ تعریف ہونی چاہیے تھی، وہ میرا عیب بن گئی‘ اگر کوئی لکھنے والا ابوالکلام بننے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں ان سے دس قدم پیچھے رہ جاتا تو بھی ایک قابلِ ذکر لکھاری بن جائے گا‘ لیکن اگر اس کا آئیڈیل ہی پست ہوگا تو وہ بڑا لکھنے والا کیسے بن پائے گا؟ وہی بات کہ پانچویں پوزیشن پرخوش رہنے والے پہلی یا دوسری پوزیشن کیسے لے سکتے ہیں؟
آئیڈیل کا پست ہو جانا ایک قومی المیہ ہے۔ پانچویں پوزیشن پر بزم ہائے نشاط کا اہتمام اسی پستی کا اظہار ہے۔ آج تو ملک میں صفِ ماتم بچھ جانی چاہیے تھی کہ پاکستان کیوں کوئی گولڈ میڈل حاصل نہ کرسکا؟ ہماری ہاکی کو کیا ہوا؟ کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم آج کس حال میں ہے؟ اس کی وجوہات کا سراغ لگایا جاتا اور یہ ہدف سامنے رکھا جاتاکہ اگلی بار ہم نے کم ازکم اتنے گولڈ میڈل حاصل کرنے ہیں۔ ممکن ہے پہلی بار اس میں کامیابی نہ ہوتی لیکن کم ازکم کارکردگی کو جانچنے کا پیمانہ تو درست ہوجاتا۔ اگر ترتیبِ نزولی سے مقامات کا تعین ہونا ہے تو پھر یہی ہوگا۔ پانچویں پوزیشن پر جشن برپا ہوگا۔ آئیے، ایک بار پھر حالی کو یاد کرتے ہیں:
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved