تحریر : سعد رسول تاریخ اشاعت     12-08-2021

مقبوضہ جموں و کشمیر کی قانونی حیثیت

پچھلے ہفتے فاشسٹ مودی حکومت کی طرف سے کشمیر کی خودمختارانہ حیثیت کو غیرقانونی طور پر ختم کرنے کے بعد دو سال پورے ہو گئے۔ مودی حکومت کا یہ اقدام بھارتی آئین، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قابل اطلاق قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کی صریحاً خلاف ورزی تھا۔ افسوس‘ یہ تاریخ پاکستان میں بہت زیادہ احتجاج کے بغیر گزر گئی۔ پاکستان کی سیاست‘ جو معمول کے چکروں میں پھنسی ہوئی ہے‘ چھوٹے چھوٹے معاملات میں الجھی رہی اور اس دن پر کوئی خاص توجہ نہ دے سکی۔
اب جبکہ چھوٹی چھوٹی باتیں پاکستان میں سیاسی گفتگو کا معمول بن چکی ہیں، یہ سوال پوچھے جانے کی ضرورت ہے کہ ہمارے سیاسی رہنمائوں نے تمام حوالوں سے مسئلہ کشمیر کو 'حل‘ کرنے کے سلسلے میں کوئی تعمیری تجویز کیوں نہیں دی؟ جزوی طور پر اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر (اگر سب نہیں) سیاسی رہنما ابھی تک 5 اگست 2019 کو ہونے والے اقدامات کے آئینی معاملات کو ہی نہیں سمجھ سکے ہیں۔
آئیے بھارت کے مقبوضہ کشمیر کو اپنے ساتھ ملانے کے معاملات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں۔ کشمیر کا بھارت کی یونین ٹیریٹری میں غیر قانونی انضمام ایک صدارتی حکم (CC.O. 272) کے ذریعے کیا گیا، جس نے مقبوضہ جموں و کشمیر کے آئین کو منسوخ کردیا، اور (جوہری طور پر) بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کی بھی تنسیخ کر دی۔ آرٹیکل 370 کیا تھا، اور یہ اتنا اہم کیوں ہے؟ بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 وہ شق تھی جس کے تحت مقبوضہ جموں و کشمیر کو خصوصی خود مختاری کا درجہ حاصل تھا۔ یہ شق اس وقت شامل کی گئی تھی جب اس سے پہلے 1947 میں آزادی کے بعد سابقہ پرنسلی ریاستوں کے پاس بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک میں شامل ہونے کا آپشن موجود تھا۔ آرٹیکل 370‘ 1949 میں موثر ہوا تھا، اور اس نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کو، اس کے قیام کے بعد، یہ اختیار دیا تھا کہ اس بات کا انتخاب کرے کہ ہندوستانی آئین کی کون سی دفعات اس خطے پر لاگو کی جا سکتی ہیں، مذکورہ اسمبلی کو یہ بھی اجازت دی گئی کہ آئینِ ہند کو منسوخ کر دے اور اس کے بجائے مکمل خود مختاری کا انتخاب کرلے۔
اس فریم ورک کے اندر، مقبوضہ جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی سے مشاورت کے بعد، بھارت کی طرف سے 1954 میں ایک صدارتی حکم جاری کیا گیا، جس نے بھارتی آئین میں آرٹیکل 35اے کو متعارف کرایا۔ اس نے کشمیریوں کی مقننہ کو اجازت دی کہ خطے کے مستقل باشندوں کا تعین کرے، بھارتی آئین کے ان آرٹیکلز کی وضاحت کرے جو کشمیر پر لاگو ہو سکتے ہیں اور فنانس، دفاع، خارجہ امور اور مواصلات کے سوا تمام معاملات میں اپنے خود قوانین بنائے۔ آرٹیکل 35اے، جسے مستقل رہائشی قانون کہا جاتا ہے، بیرونی لوگوں کو مقبوضہ کشمیر میں زمین خریدنے یا مستقل وہاں آباد ہونے سے بھی منع کرتا تھا‘ جبکہ کشمیری خواتین اگر ریاست سے باہر شادی کر لیں تو ان کو بھی یہاں جائیداد کے مالکانہ حقوق کو برقرار رکھنے سے روکتا تھا۔ ان آئینی دفعات کی روشنی میں، مقبوضہ جموں و کشمیر کے خطے کا اپنا آئین، اپنا پرچم، اپنی شہریت تھی، علاقے کی اندرونی انتظامیہ پر اختیار تھا اور بیرونی لوگوں کو جائیداد کے حقوق سے بھی روکا گیا تھا۔
اس آئینی انتظام نے اس امر کو یقینی بنایا کہ مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا آئینی کنٹرول محدود رہے، اور اس طرح کے معاملات میں بھی، جو کشمیری عوام نے (اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے) تسلیم کر رکھے تھے۔ کشمیریوں کے اس 'انتخاب‘ پر جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کے ذریعے عمل کیا جاتا تھا اور خطے میں بھارت کی موجودگی کی یہی واحد اخلاقی اور آئینی بنیاد تھی۔
بھارت کے آئینی فریم ورک کے اندر، آرٹیکل 370 اور اس سے مرتب ہونے والے اثرات کو (تکنیکی طور پر) مقبوضہ جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کی اجازت سے ہٹایا جا سکتا ہے‘ لیکن کشمیر کی آئین ساز اسمبلی 1957 میں تحلیل کر دی گئی، اس طرح آرٹیکل 370 اور اس کے اثرات فطری طور پر مستقل ہو گئے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے 2018 میں فیصلہ دیا تھا کہ''آرٹیکل 370 نے مستقل حیثیت حاصل کر لی ہے جس کی وجہ سے اس کا خاتمہ ناممکن ہے‘‘۔ بہرحال، صدارتی احکامات کی ایک سیریز کے ذریعے، ایک ریاستی حکومت کی عدم موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے، انتہا پسند مودی حکومت نے آرٹیکل 370 کی زبان کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا، اور لفظ ''آئین ساز اسمبلی‘‘کو 2018 میں ''قانون ساز اسمبلی‘‘ سے بدل دیا۔
اگر آرٹیکل 370 میں اس ترمیم کو درست تصور کر لیا جائے کہ ریاست کی آئینی حیثیت میں کسی تبدیلی کیلئے کشمیر کی ''آئین ساز اسمبلی‘‘ کے بجائے ''قانون ساز اسمبلی‘‘ کی رضامندی درکار ہے‘ تو بھی مودی حکومت نے اس پر عمل نہیں کیا۔ جون 2018 میں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کاخاتمہ کردیا گیا‘ اور 18 دسمبر 2018 کو ریاست جموں و کشمیر کو بھارتی آئین کے آرٹیکل 356 کے مطابق بی جے پی کے صدارتی راج کے تحت رکھا گیا، اس طرح یونین کی مقننہ کو کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے اختیارات تفویض سمجھے گئے۔ اہم بات یہ ہے کہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370(3) میں کہا گیا ہے کہ ''صدر، عوامی نوٹیفکیشن کے ذریعے یہ اعلان کر سکتا ہے کہ یہ آرٹیکل آپریشنل نہیں رہے گا‘‘ یا ''استثنا اور ترامیم‘‘ کے ساتھ آپریٹ ہوگا‘ لیکن اس مقصد کیلئے ''ریاست کی قانون ساز اسمبلی کی سفارش‘‘ ''صدر کی جانب سے اس طرح کا نوٹیفکیشن جاری کرنے سے پہلے ضروری تھی‘‘۔ اس وقت چونکہ کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کام نہیں کر رہی تھی، صدر نے اپنے ہی مقررکردہ، مقبوضہ جموں و کشمیر کے گورنر سے مشورہ کیا‘ حالانکہ اس طرح کی مشاورت نہ تو معنی خیز تھی اور نہ ہی ایسی مشاورت کشمیری عوام کی نمائندگی کرتی تھی۔ اس طرح بھارت کے صدر نے اپنے آپ سے مشورہ کیا (یعنی ایک یونین کے مقررکردہ گورنر کے ساتھ)، اور اسے کشمیری عوام کی ''سفارش‘‘ کے مقاصد کے طور پر کافی سمجھا (آرٹیکل 370(3) کے تحت۔
خلاصہ یہ کہ مودی کی ہندوتوا حکومت نے کم از کم 14 ملین کشمیریوں سے ان کے جمہوری حقوق چھین لیے، اس طرح بھارت کے سیکولر ڈیموکریٹک ہونے کے تاثر کا مکمل مذاق اڑایا۔ مزید برآں، مودی حکومت نے اس خطے کو چھوٹے علاقوں میں تقسیم کردیا، بشمول بدھ اکثریت والے لداخ کے‘ جس میں مسلمانوں کی کافی آبادی ہے۔ مودی کی فاشسٹ حکومت کے ان سخت ترین اقدامات کو مقامی لوگوں نے بالکل قبول نہیں کیا۔ مقامی شدید ردعمل کے پیشِ نظر اس آئینی منسوخی سے کئی ہفتے قبل ہی مودی کے اٹیک ڈاگ‘ اجیت ڈوول نے تقریباً پچاس ہزار ہندوستانی فوجیوں کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں تعینات کر دیا تھا۔ بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ تعداد بعد ازاں بڑھا دی گئی‘ اور خطے کی زیادہ تر ٹیلی کمیونی کیشن منقطع کر دی گئی۔
سوال یہ ہے کہ آرٹیکل 370 کی معطلی کشمیر کو ایک آزاد ریاست بناتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو کیا بھارت خطے میں غیر قانونی طور پر قابض ہے؟ کیونکہ کشمیر میں بھارتی موجودگی کی قانونی حیثیت خود آرٹیکل 370 اور کشمیری عوام کی (جزوی) رضامندی سے مشروط ہے‘ جسے منسوخ کیا جا چکا۔
کشمیر میں پاکستان کے مفادات تین پرتوں پرمشتمل ہیں: (1) گزشتہ ستر برسوں میں اس سرزمین پر ہمارے بہت سے شہدا کا خون بہا ہے۔ (2) کشمیر ایک الگ قوم ہے (بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 منسوخ کیے جانے کے بعد اسے اسی نام سے پکارا جانا چاہئے)۔ (3) یہ وہ جگہ ہے جہاں سے ہمارے دریائوں کے منبعے ہیں۔ ہمارے سیاسی رہنمائوں (حکومت اوراپوزیشن) کو کشمیر کے آئینی میٹرکس کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ سیاسی بیان بازی کو ایک طرف رکھتے ہوئے، صرف بنیادی قانونی معاملات کو سمجھ کر ہی پاکستان کی سیاست کشمیریوں کی حالت زار میں بہتری لانے کے لیے تعمیری (اور پرامن) حل وضع کرنے کی امید رکھ سکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved