نائن الیون کی شام جیسے ہی لاہور میں ایک سٹور سے خریداری کرکے گھر پہنچا تو بچے ایک ساتھ ہاتھ کھینچتے ہوئے کہنے لگے فوراً ٹی وی دیکھیں‘ امریکا پر حملہ ہو گیا ہے۔ ٹی وی سکرین کی جانب نظر پڑی تو ''America Under Attack‘‘ کی ہیڈ لائن کے ساتھ وقفے وقفے سے دو جہاز ایک بڑی سی عمارت سے ٹکراتے دکھائے جا رہے تھے۔ چند منٹ مزید دیکھنے کے بعد جب بات کچھ سمجھ میں آئی تو میرا پہلا جملہ یہ تھا ''بیٹا یہ جہاز امریکی ٹریڈ سنٹر پر نہیں‘ بلکہ پاکستان پرگرائے گئے ہیں‘‘۔ پھر سب نے دیکھا کہ آج بیس برس گزرنے کے بعد بھی‘ وطن عزیز ابھی تک ان جہازوں سے چاروں طرف بھڑکنے والی آگ میں جل رہا ہے۔ 20 برس میں ہزاروں امریکی فوجی اور کئی ٹریلین ڈالرز انتقام کی بھٹی میں جھونکنے کے بعد بے نیلِ مرام امریکا افغانستان کو دہشت گردی کے کمبل سے لپٹے چھوڑ کر بھاگ چکا ہے لیکن وہ جہاز جو پینٹاگون اور ٹریڈ سنٹر سے ٹکرائے تھے‘ ابھی تک اپنی خوفناک گڑگڑاہٹ سے پاکستان کے در و بام لرزائے چلے جا رہے ہیں۔ پاکستان اور اس کی افواج حالت جنگ سے نکل ہی نہیں رہیں اور ملکی معیشت انہی جہازوں کے ملبے سے نکلنے کیلئے جتن کر رہی ہے۔ وہ دنیا جس نے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن اتحادی کے طور پر استعمال کیا‘ اس کی جانب سے ہمارے سکیورٹی اداروں اور شہریوں کی ایک لاکھ کے قریب شہادتوں کا احترام تو کیا‘ انہیں تسلیم بھی نہیں کیا جا رہا۔ نائن الیون کے ان جہازوں نے بیس برسوں سے پاکستانیوں کا خون نچوڑ رکھا ہے اور لگڑ بگڑ ہمارے گرنے اور کمزور ہونے کے انتظار میں نظریں گاڑے ہوئے ہیں۔ جب اپنی پوری قوت مجتمع کر کے پاکستان گرنے کے بجائے عزت سے دوبارہ اٹھ کھڑا ہوا تو ان سے یہ منظر ایک لمحے کو بھی برداشت نہ ہو سکا اور ہمیں نائن الیون کے بعد ایف اے ٹی ایف نام کی ایک نئی سیریز کا حصہ بنا دیا گیا۔
بگرام ایئر بیس سمیت دوسرے امریکی فوجی ٹھکانے اس طرح خالی کیے گئے کہ سوائے اس اسلحے کے‘ جن کی تکنیک سمجھنے میں طالبان کو کئی ماہ درکار تھے‘ وہ ساتھ لے جانے کے بعد باقی سب کچھ ان کیلئے چھوڑ کر یہ جا وہ جا۔ امریکی اتنے بھولے ہیں اور نہ ہی وہ اس قدر جلدی میں تھے۔ اس کے پیچھے بھی ان کا مقصد جلد سامنے آنے کو ہے کیونکہ روس سے ویتنام کا بدلہ چکانے کیلئے امریکا نے افغان مجاہدین کیلئے سٹنگر میزائل اور دوسرا جدید ترین اسلحہ اوجڑی کیمپ میں رکھا تھا لیکن افغان جنگ ختم ہوتے ہی اسے اس طرح تباہ کیا گیا کہ کئی گھنٹے تک جڑواں شہر دھماکوں سے گونجتے رہے اور سینکڑوں بے گناہ افراد ہلاک ہو گئے۔ نجانے کیوں آج میری چھٹی حس خبردار کیے دے رہی ہے کہ بیس برس تک افغانستان میں اپنے خونیں پنجے گاڑنے کی ناکام کوشش کے بعد بگرام سمیت افغانستان میں اپنے بہت سے اہم عسکری مقامات اور انتہائی خطرناک اسلحے کے انبار طالبان کیلئے ردی کے ڈبوں اور کباڑ کی لکڑی کی طرح امریکا ایسے ہی نہیں چھوڑے جا رہا۔ امریکا کا افغانستان سے یوں نکل جانا بہت سے شبہات کو جنم دے رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی خطرناک منصوبے کے ابتدائی حصے پر عمل کر رہا ہے۔
اب ذرا ماضی کی کچھ یادیں تازہ کر لیں۔ عدی امین‘ یوگنڈا کا آمر صدر‘ پبلسٹی کا ماہر جانا جاتا تھا۔ سب سے پہلے اس نے اپنے ملک سے انگریزوں کو زبردستی نکالنا شروع کیا‘ جس نے اس کی طاقت اور بے خوفی کی دھوم مچا دی اور تمام افریقی اسے اپنا مسیحا سمجھنا شروع ہو گئے۔ انگریزوں کو بھگانے پر عدی امین روسیوں کی آنکھ کا تارا بھی بن گیا۔ جمی کارٹر اس و قت امریکا کی مسندِ صدارت پر براجمان تھے۔ عدی امین کی اس مقبولیت سے مغرب اور امریکی پریشان ہونے لگے تو صدر جمی کارٹر نے اس وقت کے سوویت صدر برزنیف کو عدی امین کے سر پر سے ہاتھ اٹھانے کی درخواست کی۔ کہا جاتا ہے کہ صدر کارٹر اور صدر برزنیف کے درمیان 'کچھ لو، کچھ دو‘ کا کوئی معاہدہ ہوا تھا وگرنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ سوویت ریچھ اس اہم ترین خطے سے اپنا وجود بغیرکسی مقصد کے ختم کر کے چلا جاتا؟ صدر کارٹر کی درخواست پر سوویت یونین نے نہ صرف یوگنڈا کی ایئر فورس کو پرزے دینا بند کر دیے بلکہ جتنے بھی ریشین فوجی، انجینئرز اور ٹیکنیشن یوگنڈا میں موجود تھے‘ ان سب کو واپس بلا لیا گیا۔ عدی امین بے چارہ سوویت یونین کی منت سماجت کرتا رہ گیالیکن صدر برزنیف پر نجانے امریکا نے کیا جادو کیا تھا کہ انہوں نے اس کی ایک نہ سنی۔
اب اتفاق دیکھئے کہ جیسے ہی روس یوگنڈا سے نکلتا ہے‘کچھ ہی عرصے بعد اپنی پچاس ہزار فوج کے ساتھ افغانستان میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس پر پاکستان نے شور مچانا شروع کیا تو امریکا کا جواب تھا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنی بڑی فوج‘ توپوں اور ٹینکوں کے ساتھ روس افغانستان میں داخل ہو جائے اور ہمارے سیٹلائٹ اسے دیکھ نہ سکیں۔ صدر جمی کارٹرنے کہا کہ ہماری اطلاع کے مطابق محض تین ہزار کے قریب روسی فوجی اور انجینئرز تیل کی دریافت اور چند سڑکیں بنانے کیلئے افغانستان پہنچے ہیں۔ امریکا کی اس وقت کی اندرونی صورت حال سامنے رکھیں تو صدر جمی کارٹر کی مقبولیت زمین بوس ہوتی جا رہی تھی جس پر ان کی حکومت کے پبلسٹی انچارج کو افغانستان کا مدعا ہی ایسا نظر آیا کہ جس پر امریکی قوم کو یکجا کیا جا سکتا تھا۔ روسی صدر برزنیف کو جب یہ پتا چلا تو اس وقت وہ مشرقی برلن کے ایئر پورٹ پر میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔ افغانستان پر وائٹ ہائوس کے سخت بیان پر ایک سوال کے جواب میں صدر برزنیف نے جو جملہ کہا‘ وہ کون بھول سکتا ہے؟ انہوں نے کہا: لگتا ہے کہ جمی کارٹر کی یادداشت کمزور ہو چکی ہے، مجھے تعجب ہو رہا ہے کہ کارٹر کے اردگرد موجود لوگ ان سے کیا کروانے لگے ہیں؟ کیا وہ انکار کریں گے کہ انہوں نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ روس اگر یوگنڈاسے نکل جائے تو امریکا افغانستان میں اس کی مخالفت نہیں کرے گا؟ اس پر برطانیہ اور مغربی ممالک نے صدر برزنیف کو یاد دلایا کہ جمی کارٹر نے اگر ان کے ساتھ کوئی زبانی وعدہ کیا تھا تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے لیکن سوویت یونین یہ مت بھولے کہ جب جاپان نے ولاڈی واسٹک کی روسی بندرگاہ پر حملہ کیا تھا اور اس زبردست معرکے میں روسیوں کو جاپان کے ہاتھوں بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا تو ان کے مابین ایک معاہدہ یہ لکھتے ہوئے کیا گیا تھا کہ روس اس بات کا ہمیشہ پابند رہے گا کہ وہ کبھی بھی افغانستان میں داخل ہونے کی کوشش نہیں کرے گا۔ برطانیہ روس پر سیخ پا ہوتے ہوئے اسے یاد دلا رہا تھا کہ وہ جنگ جاپان نے نہیں بلکہ اس کا ساتھ دیتے ہوئے برطانیہ نے لڑی تھی کیونکہ اس حملے کی تیاری کیلئے برطانیہ نے جاپان کی نیوی کو نہ صرف جدید ہتھیاروں سے لیس کیا تھا بلکہ اس وقت کے انتہائی جدید اور مؤثر پرزے بھی وافر تعداد میں جاپان کو فراہم کیے گئے تھے، جاپان کی بحریہ کو جنگی بنیادوں پر جنگی جہاز بھی بنا کر دیے گئے تھے۔ روس کی امیدوں اور اندازوں سے پہلے ہی جاپان سے ولاڈی واسٹک پر حملہ کر دیا تھا اور روسی شکست کے بعد یہ بندرگاہ اس شرط پر تحریری معاہدہ کرنے کے بعد روس کو واپس کی گئی کہ روسی افواج کبھی بھی افغانستان کا رخ نہیں کریں گی۔
امریکا، روس، برطانیہ اور جاپان سمیت ایک عالم اس معاہدے کی گواہی دے رہا تھا۔ عدی امین سے چھٹکارا پانے کیلئے یوگنڈا سے روسی سرپرستی کے خاتمے کے بدلے میں صدر جمی کارٹر نے افغانستان روس کو دان کر دیا لیکن جیسے ہی روس نے قدم آگے بڑھائے‘ صدر جمی کارٹر کی زمین بوس مقبولیت کو سہارا دینے کیلئے امریکا نے خوفناک خواب سے گھبرا کر اٹھتے ہوئے‘ ڈر کے مارے زور زور سے پاکستان کو مدد کیلئے پکارنا شروع کر دیا۔