پاکستان میں جب سے مہنگائی کا جن بوتل سے نکلا ہے‘ عام آدمی کے لیے زندگی گزارنا مشکل تر ہو گیا ہے۔ پچھلے تین سالوں میں تقریباً ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والا پاکستانی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے ہنگم اضافے کی شکایت کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ سرکاری اداروں سمیت کسی کو بھی علم نہیں کہ یہ معاملہ کہاں جا کر رکے گا۔ وزیراعظم صاحب فرماتے ہیں کہ معیشت صحیح راستے پر چل نکلی ہے، مشکل وقت ختم ہو گیا ہے، اب میں دیگر شعبوں کو وقت دوں گا تا کہ ان میں بھی اصلاحات لائی جا سکیں۔ جبکہ زمینی صورتحال یہ ہے کہ ورلڈ بینک نے پاکستان کو مزید قرض دینے سے انکار کر دیا ہے۔ ورلڈ بینک کے نائب صدر نے مزید قرض کے حصول کے لیے پاکستان کے دورے کے دوران واضح طور پر دو شرائط رکھ دی ہیں۔ پہلی شرط کے مطابق‘ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی تک مزید قرض نہیں ملے گا۔ دوسری شرط بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق کیے گئے وعدوں کی تکمیل ہے۔ پاکستان ماہِ جون میں آئی ایم ایف جائزہ رپورٹ مکمل نہیں کر پایا، اس لیے پروگرام التوا کا شکار ہے۔ ورلڈ بینک کے نائب صدر نے وزیراعظم سے بھی ملاقات کی اور تمام فیصلوں سے متعلق انہیں آگاہ کیا۔ اس کے علاوہ ورلڈ بینک کے مقامی آفس نے بھی نائب صدر کے دورے کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ جاری کی‘ جس کے مطابق پاکستان معیشت کو درست ٹریک پر لانے میں ناکام رہا ہے۔ جب تک پاکستان انرجی کے مسائل حل نہیں کرے گا اس کی معیشت میں نمو تقریباً ناممکن ہے۔ یہ خیالات صرف ورلڈ بینک کے نہیں بلکہ وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے توانائی تابش گوہر نے بھی چند دن قبل وزارتِ توانائی سمیت تمام متعلقہ سرکاری اداروں کو خط لکھا ہے جس میں ان کی کارکردگی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس وقت صورتحال غیر یقینی ہو چکی ہے۔ ذرائع کے مطابق تقریباً پانچ روپے فی یونٹ بجلی مہنگی کرنے کے لیے شدید دبائو ڈالا جارہا ہے۔
بجلی کی قیمتیں بڑھانے کے حوالے سے حکومت پر یقینا بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا دبائو ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نوبت یہاں تک پہنچی کیسے؟ ایسی کیا مجبوری ہے کہ اداروں کا دبائو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ حکمران جماعت کا فرض ہے کہ وہ عوام کو حقائق سے آگاہ کرے لیکن موجودہ حکومت ماضی کی حکومتوں کے نقش قدم پر چل کر عوام کی توجہ اصل مدعے سے ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔ موجودہ مالی سال کا بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ شوکت ترین عوام کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گئے تھے کہ ہم نے عوام پر مہنگائی کا کوئی بوجھ نہیں ڈالا جس پر میں نے اپنے کالم میں ذکر کیا تھا کہ ترین صاحب مکمل حقائق سے آگاہ نہیں کر رہے۔ یہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانے کا معاہدہ کر چکے ہیں۔ اکتوبر سے پہلے بجلی کی قیمتوں میں دوبارہ اضافہ کیا جائے گا اور اب اس کے اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ اب ممکنہ طور پر عوام کی ذہن سازی کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ آئی ایم ایف پر تنقید اور اسے مہنگائی کا ذمہ دار قرار دینا شاید اسی ذہن سازی کا حصہ ہے لیکن عوام اس بات سے بے خبر نہیں ہیں کہ حکومت ایک طرف آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے قرض مانگ رہی ہے اور دوسری طرف عوام سے کہا جا رہا ہے کہ یہ ادارے عوام کا خون نچوڑ رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ادارے اگر ایسا ہی ظلم ڈھا رہے ہیں تو ان کے پاس جانے سے گریز کیا جائے۔ آمدن بڑھائیں اور ملک کو اپنے طور پر چلائیں۔ عجیب صورتحال ہے کہ ایک طرف تو قرض کا سوال کرنا اور پھر اداروں کے خلاف مہم چلانا۔ آئی ایم ایف کو وِلن بنا کر اعلان کیا جاتا ہے کہ اب ہم آئی ایم ایف کی کوئی بات نہیں مانیں گے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ ماننے کی آپشن پاکستان کے پاس ہے ہی نہیں۔ آج اگر آئی ایم ایف پروگرام بحال نہیں ہوتا تو مزید قرض نہیں ملیں گے۔
ایک اندازے کے مطابق موجودہ مالی سال میں پاکستان نے تقریباً بیس بلین ڈالرز کا قرض ادا کرنا ہے جس کے لیے آمدن کے ذرائع نہ ہونے کے برابر ہیں لہٰذا قرض اتارنے کے لیے مزید قرض لینا پڑے گا۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا اور مہنگائی بھی مزید بڑھے گی۔ یہاں سمجھنے کا معاملہ یہ ہے کہ بجلی کا خسارہ پورا کیوں نہیں کیا جاتا۔ کسی بھی بینک یا ادارے کو اس امر سے کوئی غرض نہیں کہ بجلی کی قیمتیں بڑھائی جائیں یا کم کی جائیں‘ ان کا مقصد سرکاری اداروں کو قرض کے پیسوں سے چلانے کے بجائے اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہوتا ہے۔ اگر حکومت بجلی چوری روکنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو ادارہ کبھی نقصان میں نہیں جا سکتا اور نہ ہی بجلی کی قیمتیں بڑھانے کی ضرورت پڑے گی۔ یہ دراصل اداروں کی نااہلی ہے جس کی قیمت عوام کو چکانا پڑتی ہے۔
ذہن نشین رہے کہ بجلی کی قیمتیں بڑھانا دیرپا حل نہیں ہے۔ اس سے وقتی خسارہ کم کیا جا سکتا ہے لیکن نظام کو درست نہیں کیا جا سکتا۔ آئی ایم ایف اعتراض اٹھا رہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ دسمبر 2020ء تک گردشی قرضے صفر کر دیے جائیں گے جبکہ آج بھی صورتحال یہ ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے بعد بھی گردشی قرضے دو اعشاریہ تین (2.3) کھرب روپے ہیں جو یقینا تشویش کا باعث ہیں۔ 2013ء میں نون لیگ کے الیکشن جیتنے کے فوراً بعد سابق وزیراعظم محمد نواز شریف نے 480 ارب روپوں کے گردشی قرضے ادا کیے تھے۔ بجلی کی ریکارڈ پیداوار کے بعد 2018ء میں گردشی قرضے 1.1 کھرب روپے تھے جسے مدعا بنا کر تحریک انصاف نون لیگ پر تنقید کرتی دکھائی دیتی تھی کہ اپنے لوگوں کو نوازا گیا اور یہ کیسی ناکام پالیسی ہے کہ گردشی قرضے دوبارہ بڑھ گئے ہیں۔ بلکہ یہاں تک الزامات لگائے گئے کہ بجلی کے منصوبوں میں کمیشن کھائے گئے ہیں(اگرچہ اس کا کوئی ثبوت ابھی تک پیش نہیں کیا جا سکا) جبکہ آج صورتحال یہ ہے کہ صرف تین سالوں میں گردشی قرضے 2018 کی نسبت دو گنا سے بھی زائد بڑھ چکے ہیں۔ انہیں کس طرح کم کیا جائے گا‘ اس حوالے سے حکومت کی کوئی منصوبہ بندی دکھائی نہیں دیتی۔
ایک طرف ملک قرضوں کی دلدل میں پھنس چکا ہے اور دوسری طرف وزارتِ خزانہ ملکی مسائل حل کرنے کی طرف توجہ دینے کے بجائے وزارت کے اندرونی مسائل ہی حل نہیں کر پا رہی۔ حال ہی میں تعینات کیے گئے سیکرٹری فنانس نے کامیاب پاکستان پروگرام میں اختلاف کی وجہ سے محکمہ تبدیل کر نے کے لیے وزارت کو درخواست دے دی ہے۔ یہ پروگرام تین دن قبل لانچ کیا جانا تھا لیکن سیکرٹری فنانس کو اس کے طریقہ کار پر اعتراض تھا۔ اس خبر کی تصدیق وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے فنانس ڈاکٹر وقار مسعود خان نے کر دی ہے۔ اس کے علاوہ 26 جولائی کو شوکت ترین صاحب کی جانب سے بلائے گئے اجلاس میں وزارتِ خزانہ قرضوں کی ممکنہ ادائیگی کا حساب کتاب نہیں لے کر آئی جس پر ترین صاحب نے برہمی کا اظہار کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ شوکت ترین صاحب اوروزارتِ خزانہ کی افسر شاہی کے درمیان اختلافِ رائے شدت اختیار کر چکا ہے۔ اس طرح کے ماحول میں ملک کے مالی معاملات کو چلانا مزید مشکل ہو جاتا ہے۔ وزیراعظم صاحب سے گزارش ہے کہ اس معاملے کا نوٹس لیں تا کہ کام کرنے کا مثبت ماحول پیدا ہو سکے۔ اس کے علاوہ قرض حاصل کرنے لیے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا معاہدہ بھی عوام کے سامنے لایا جائے ۔ اگر حکومت کے پاس اس کا کوئی مناسب حل نہیں تو اس معاملے کو اسمبلی میں زیرِ بحث لایا جائے اور عوام سے بھی اس بارے رائے طلب کی جائیں۔ اس طریقہ کار سے بہتر اور قابلِ عمل حل بھی سامنے آ سکتا ہے اور عوام کی نظروں میں حکمران جماعت کی عزت اور تکریم میں بھی اضافہ ہوسکتاہے۔