تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     13-08-2021

پاکستان کیوں بنایا گیا؟

تخت و تاج سے محرومی اور 1857ء کی جنگِ آزادی میں ناکامی کے بعد مسلمانانِ ہند کے سامنے کسی واضح منزل کا کوئی نقشہ نہ تھا۔ اُس دور کے علمائے کرام اور مفکرین طرزِ کہن پر اڑے ہوئے تھے جبکہ بدلے ہوئے حالات نئی حکمت عملی کا تقاضا کر رہے تھے۔ بقولِ حکیم الامت
آئین نو سے ڈرنا‘ طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
بدلے ہوئے ان کٹھن حالات میں سرسید احمد خان نے نئی روش اختیار کرنے کی پالیسی اپنائی۔ انہوں نے اپنی قوم کو جگایا اور سمجھایا کہ اگر ہم نے عصری تقاضوں کا ساتھ نہ دیا‘ نئے حکمرانوں کی زبان اور جدید علوم کو نہ سیکھا تو ہم بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ یہ مسلمانانِ ہند کی خوش قسمتی تھی کہ اُن کی رہنمائی دو ایسی شخصیات کے حصے میں آئی جو اسلام پر ایمانِ کامل رکھتی تھیں۔ دونوں شخصیات نے حکمرانوں کے دیس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی۔ دونوں حضرات اُن کے طرزِ زندگی سے ہی نہیں طرزِ سیاست اور اندازِ حکمرانی سے بھی بخوبی آگاہ تھے۔ اس کے علاوہ یہ دونوں ہندوستان کی سب سے بڑی قوم ہندوئوں کے فلسفۂ زندگی اور مسلمانوں کے بارے میں اُن کے طرزِعمل کو بخوبی سمجھتے تھے۔
مصوّرِ پاکستان علامہ محمد اقبال کو اللہ نے فکرو فلسفہ کے بحرِناپیدا کنار سے آشنا کیا تھا۔ وہ مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کی نشاۃ ثانیہ چاہتے تھے۔ اگرچہ اپنی شعری و فکری زندگی کی ابتدا میں وہ کشورِ ہندوستان کے گیت گاتے تھے مگر رفتہ رفتہ وہ اس حقیقت کی تہہ تک پہنچ گئے کہ اگر مسلمان اپنی خودمختار ریاستوں کا مطالبہ نہیں کرتے تو پھر وہ انگریزوں کی ہندوستان سے واپسی کے بعد ہندوئوں کے غلام بن کر رہ جائیں گے۔ علامہ اقبالؒ کا اصل میدان شعرو فلسفہ تھا اور وہ عملی سیاست کے کماندار نہ تھے۔ بانیِ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کو بھی اللہ نے غوروفکر اور تاریخ و سیاست کی وسیع و عمیق معلومات سے نوازا تھا۔
قائداعظم محمدعلی جناح بھی عملی سیاست میں حصہ لینے اور آل انڈیا مسلم لیگ کی قیادت کے بعد کئی برس تک متحدہ ہندوستان کے حامی رہے مگر جوں جوں بھارت کی ہندو قیادت کی مسلمانوں کے خلاف چالیں آشکارا ہوتی گئیں مسلمانانِ ہند کیلئے علیحدہ وطن کے مطالبے پر اُن کا یقین مستحکم ہوتا گیا۔ بالآخر 23 مارچ 1940ء کو منٹو پارک لاہور میں قراردادِ پاکستان مسلمانانِ ہند کے نمائندہ اجتماع نے منظور کرلی۔ یہ اللہ کا فضلِ خاص تھا کہ صرف سات برس کے عرصے میں قائداعظم کی شبانہ روز محنت کے نتیجے میں مسلمانانِ ہند کا الگ وطن پاکستان دنیا کے نقشے پر آن بان سے جلوہ گر ہوگیا۔ اگرچہ مین سٹریم میڈیا پر تو کم مگر سوشل میڈیا پر اب بھی ہر سال قائداعظمؒ کی 11؍اگست 1947ء کی تقریر کو علمی بددیانتی سے استعمال کرتے ہوئے بعض ''دانشور‘‘ قائداعظمؒ کے بارے میں یہ کہہ گزرتے ہیں کہ وہ سیکولر افکار رکھتے تھے۔ یہ کہتے ہوئے وہ قائداعظمؒ کی سینکڑوں تقاریر کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ قائداعظمؒ نے تقسیم ہند سے قبل تقریباً 101 بار یہ اعلان کیا کہ پاکستان کے نظام مملکت کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی جائے گی۔ انہوں نے متعدد بار کہا کہ قرآن ہمارا رہنما ہے اور ہمیں قرآن سے ہی روشنی حاصل کرنا ہوگی۔وہ پاکستان کو ایک جدید اسلامی فلاحی‘ جمہوری ریاست بنانا چاہتے تھے جس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر استوار ہو نیز وہ عصر جدید کے تقاضوں کو بھی کماحقہٗ پورا کرے۔ قائداعظمؒ کے تصورِ پاکستان کا خلاصہ صرف دو الفاظ پر مشتمل ہے: پہلا لفظ اسلام اور دوسرا جمہوریت۔
قائداعظمؒ کے خطابات اور بیانات کی روشنی میں قدرے تفصیل سے بات کریں تو ہم یہ کہیں گے کہ بانیِ پاکستان ایک ایسی ریاست چاہتے تھے کہ جو فرقہ واریت اور مذہبی تشدد سے پاک ہو۔ وہ ایک ایسا پاکستان چاہتے تھے کہ جس میں سماجی یگانگت کی خوشبو چارسو پھیلی ہوئی ہو۔ ایک ایسا پاکستان کہ جہاں قانون کی حکمرانی ہو‘ جہاں جمہوری طرزِ سیاست ہو‘ جہاں معاشی عدل کی فرمانروائی ہو‘ جہاں کرپشن کا خاتمہ ہو اور جہاں آزادی ہو‘ جہاں ہر شخص تعلیم یافتہ ہو‘ جہاں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہو اور جہاں امن و امان قائم ہو۔اب آئیے قائداعظمؒ کے تصورِ پاکستان کا تاریخ پاکستان سے موازنہ کریں۔ پاکستان کی 73 سالہ تاریخ قائد کے دیئے گئے تصورِ پاکستان سے کوسوں دور ہے۔ قائداعظمؒ اسلامی فلاحی ریاست چاہتے تھے ہم نے اسے کچھ اور ہی بنا دیا ہے۔ قائداعظمؒ سماجی یگانگت چاہتے تھے مگر ہم نے اسے ایک طبقاتی معاشرہ بنا دیا ہے۔ ایسا معاشرہ کہ جس میں تقریباً ستر فی صد غریب اور آٹھ دس فی صد امراء ہیں اور باقی مڈل کلاس کہلاتے ہیں۔ یہ کلاس غربت اور امارت کے درمیان ہچکولے کھاتی رہتی ہے۔ قائداعظمؒ واضح طور پر پاکستان کو سو فی صد جمہوری ریاست بنانا چاہتے تھے مگر ہمارے یہاں پہلے دس گیارہ برس ایک ایسی جمہوریت رہی کہ جس کی باگیں اور طنابیں سول اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں تھیں۔
1958ء میں کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان نے حکومت کی باگ ڈور براہِ راست سنبھال لی۔ جنرل صاحب کے طرزِ سیاست کی بنا پر ملک دولخت ہوگیا۔ ایوب خان کے اقتدار کے بعد بھی یہاں دھوپ چھائوں کی طرح کبھی آمریت اور کبھی ریموٹ کنٹرول جمہوریت کے ادوار آتے جاتے رہے۔ یہ طرزِ حکمرانی بھی قائداعظمؒ کے تصورِ پاکستان کی نفی ہے۔ وہ معاشی عدل کے بہت بڑے داعی تھے۔ غالباً 1944ء میں انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی مجلس عاملہ سے خطاب کرتے ہوئے جاگیرداروں اور سیاستدانوں کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا کہ مجھے ایسا پاکستان نہیں چاہئے کہ جس میں امرا عیش کی زندگی گزاریں اور غریب دو وقت کی روٹی کو ترسیں۔
گزشتہ 73 برس سے اب تک ایسا ہی ہوتا آرہا ہے اور ہم نے قدم قدم پر قائداعظمؒ کے تصورِ پاکستان کی نفی کی ہے۔ قائداعظمؒ نے ہر شخص کے لیے آزادی کی ضمانت دی تھی مگر پاکستانی تاریخ کے آئینے میں دیکھ لیجئے کہ اہلِ پاکستان کو کتنی صحافتی و سیاسی آزادی حاصل رہی ہے۔ قائداعظمؒ نے کہا تھا کہ پاکستان میں ہر شخص تعلیم یافتہ ہوگا مگر آج تین کروڑ بچے زیورِ تعلیم سے محروم ہیں۔ 73 برس کے بعد ہماری حکومتیں ڈنکے کی چوٹ پر قائد کی نافرمانی کر رہی ہیں اور اس پر اظہارِ ندامت بھی نہیں کرتیں۔
اب اہم سوال یہ ہے کہ ہم قائداعظمؒ کے تصورِ پاکستان سے مسلسل انحراف کیوں کر رہے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ وزیراعظم جناب عمران خان نے صرف تین ماہ کے اندر قائد کے تصورِ پاکستان کو رائج کرنے کا دعویٰ کیا تھا مگر آج تین برس گزر جانے کے باوجود وہ قائد کے اکثر فرامین پر عمل نہیں کرسکے۔ جناب عمران خان نے کہا تھا کہ یہاں معاشی عدل ہو گا‘ مگر آج ان کے دور میں بے روزگاری اور گداگری عروج پر ہے۔ انہوں نے عدالتی اصلاحات لانے کی کمٹمنٹ کی تھی جو آج تک پوری نہیں ہوسکی۔
خان صاحب نے کہا تھا کہ قائد کے فرمان کے مطابق ہر بچہ زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوگا مگر آج تین سال گزرنے کے باوجود وہ تین کروڑ بچوں کو سڑکوں‘ گلیوں‘ دکانوں‘ گھروں اور ورکشاپوں سے سکولوں میں نہیں لے جا سکے ہیں۔ جناب عمران خان اپنے تین سالہ دور میں بارہا انگریزی بولنے والوں کا مذاق اڑا چکے ہیں مگر انہوں نے سرکاری زبان کی حیثیت سے اردو کی تنفیذ کے بارے میں فرمانِ قائد کی تعمیل نہیں کی ہے۔ اسی طرح خان صاحب کا دور بھی گزشتہ کئی ادوار کی طرح گڈ گورننس سے محروم ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ قائداعظمؒ نے جن مقاصد کی خاطر پاکستان بنایا تھا ہمارے حکمران اس کی نفی کیوں کرتے رہے ہیں؟ جواب بڑا آسان ہے۔ قائداعظمؒ کا کوئی ذاتی ایجنڈا نہ تھا مگر پاکستان کی 73 سالہ تاریخ شاہد ہے کہ اِلّا ماشاء اللہ ہمارے ہر حکمران کا ایجنڈا قومی نہیں ذاتی ہی رہا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved